ہم نے جنگبندی کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا، حماس
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
اپنے ایک انٹرویو میں حماس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی صیہونی کوشش، حالات کو مزید سنگین اور ان کے قیدیوں کی مشکلات میں اضافہ کرے گی جس کی تمام تر ذمے داری اسرائیلی حکام پر عائد ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے ترجمان "عبداللطیف القانوع" نے کہا کہ استقامتی فرنٹ نے جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل کر دیا۔ ہم اس معاہدے میں طے شدہ شقوں پر باقی رہے حالانکہ صیہونی رژیم نے اس مرحلے میں انسانی پروٹوکولز کی رعایت نہیں کی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار العربی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر عبداللطیف القانوع نے کہا کہ ہم نے اسرائیل کی جانب سے مذکورہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اب ہم اگلے مرحلے کے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ہم نے تاخیری حربوں کو روکنے کے لئے قابض رژیم کو قیدیوں کی بیک وقت رہائی کے طریقہ کار پر مجبور کیا۔ معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی صیہونی کوشش، حالات کو مزید سنگین اور ان کے قیدیوں کی مشکلات میں اضافہ کرے گی جس کی تمام تر ذمے داری اسرائیلی حکام پر عائد ہو گی۔
حماس کے ترجمان نے کہا کہ غزہ کی حاکمیت کے حوالے سے کوئی بھی قومی فارمولہ یا متفقہ داخلی فریم ورک ہمارے لئے قابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثالثوں کی کوششوں اور ان کے موثر کردار سمیت حماس کی استقامت نے ساتویں دور میں قیدیوں کو رہا نہ کرنے کی اسرائیلی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ دریں اثناء فلسطینی قیدیوں کے دفتر اطلاعات نے اعلان کیا کہ معاہدے کے 7ویں دور میں 642 فلسطینی رہا ہوئے جن میں سے 151 افراد عمر قید یا لمبی سزائیں کاٹ رہے تھے۔ ان قیدیوں میں سے 43 افراد مغربی کنارے جائیں گے جب کہ 97 قیدی، فلسطین سے جلاوطن ہوں گے۔ نیز ان قیدیوں میں غزہ سے تعلق رکھنے والے وہ 11 افراد بھی شامل ہیں جنہیں 7 اکتوبر کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ان قیدیوں میں 46 بچے اور خواتین بھی ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
غزہ پٹی میں ’ایک نیا جہنم برپا‘ ہے، بین الاقوامی ریڈ کراس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 اپریل 2025ء) بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ڈائریکٹر جنرل پیئر کریہن بوہل نے غزہ میں انسانی بحرانی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''غزہ موت، زخمی ہونے، بار بار بے دخلی، اعضا کے کٹنے، جدائی، گمشدگی اور بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''امداد سے محرومی کا سامنا کرنے والے غزہ کے باشندوں کو جب جنگ بندی کی امید ہوئی، تو ان پر ایک نیا عذاب مسلط کر دیا گیا۔
‘‘دوحہ میں سالانہ گلوبل سکیورٹی فورم سے خطاب میں پیئر کریہن بوہل نے مزید کہا، ''اس میںاسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کا صدمہ بھی شامل ہے، جو ایک نہ ختم ہونے والے ڈراؤنے خواب میں مبتلا ہیں اور فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ کا دکھ بھی۔
(جاری ہے)
غزہ میں اب تک 400 سے زائد امدادی کارکن اور 1,000 طبی اہلکار مارے جا چکے ہیں، جن میں ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ تحریک کے 36 کارکن بھی شامل ہیں۔
‘‘تقریباً 60 دنوں سے غزہ پٹی میں اسرائیل کی جانب سے خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر اشیاء کی فراہمی معطل ہے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس خوراک ختم ہونے والی ہے جبکہ بازاروں میں بھی سبھی اشیاء کا شدید فقدان ہے۔ فلسطینی خاندان اپنے بچوں کے لیے خوراک کا بندوبست کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
نئی جنگ بندی کی امیدیں دم توڑتی ہوئیںقطر، مصر اورامریکہ کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان انیس جنوری کو جنگ بندی کی ایک ڈیل ہوئی تھی، جس کی بدولت غزہ پٹی میں پندرہ ماہ سے جاری لڑائی بڑی حد تک رک گئی تھی۔
جنگ بندی کا ابتدائی مرحلہ مارچ کے اوائل میں ختم ہو گیا تھا، جب دونوں فریق مزید اقدامات پر متفق نہ ہو سکے تھے۔ اسرائیل نے 18 مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی اور زمینی حملے دوبارہ شروع کر دیے تھے اور غزہ پٹی کو ہر قسم کی امداد کی فراہمی بھی روک دی تھی۔
حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کی وجہ سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد اب 52,243 ہو چکی ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی سرزمین پر دہشت گردانہ حملہ کرتے ہوئے 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ یہ جنگجو 251 افراد کو یرغمال بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ ان میں سے 58 اب بھی غزہ پٹی میں حماس کے عسکریت پسندوں کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی تازہ عسکری مہم کا مقصد باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس پر دباؤ ڈالنا ہے۔
ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک