WE News:
2025-04-16@22:48:39 GMT

نواز شریف سیاسی میدان میں متحرک، اے این پی کی اہم وکٹ اڑا دی

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

نواز شریف سیاسی میدان میں متحرک، اے این پی کی اہم وکٹ اڑا دی

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف سیاسی میدان میں متحرک ہونے لگے۔ انہوں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں اہم ملاقاتیں کی ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان نے نون لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ زاہد خان نے مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا اعلان میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات میں صوبائی صدر امیر مقام بھی موجود تھے۔ زاہد خان نے میاں نواز شریف کی قیادت پر اعتماد اظہار کیا۔ اس موقع پر زاہد خان نے ن لیگ کے سربراہ کو کے پی میں فعال کرنے کے لیے تجاویز دی۔ نواز شریف نے زاہد خان کا خیر مقدم کیا اور  پارٹی کو منظم کرنے کا عندیہ دیا۔

یہ بھی پڑھیےوزیراعظم شہباز شریف کی میاں نواز شریف سے ملاقات، اہم امور پرمشاورت

پارٹی ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کے سربراہ سے  پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، انجئینر امیر مقام، انوشہ رحمان، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں گلگت بلتستان انتخابات میں پارٹی پوزیشن پر تبادلہ خیال ہوا۔ مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا تنظیم کے صدر نے گلگت بلتستان انتخابات کے بارے میں بریفنگ دی۔

یہ بھی پڑھیےسابق وزیر اعظم نواز شریف ترک صدر سے کیوں نہیں مل سکے؟

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنماؤں نے  نواز شریف کو صوبے کے اضلاع کا دورہ کرنے کا مشورہ دیا۔  ملاقات میں میاں نوازشریف نے گلگت بلتستان انتخابات کرنے کے لیے تنظیمی عہدیداروں کو ہدایت کی جبکہ پارٹی کو فعال کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم تیز کرنے کا حکم دیا۔

نواز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی ایک سالہ کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: زاہد خان نے مسلم لیگ ن نواز شریف میاں نواز کے لیے

پڑھیں:

جمہوریت اور موروثیت

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک حقیقی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز اور رائے دہندگان کو اپنے منشور، نظریات، جمہوری اقدار اور قومی سیاست میں اپنے فعال و مثبت کردار کے حوالے سے اپنا حامی بنا کر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور جیت کر اقتدار کے ایوانوں میں آتی ہیں۔

مہذب، باوقار، اصول پسند اور جمہوریت کے علم بردار معاشروں میں سیاسی جماعتیں حکومت حاصل کرنے کے بعد نہ صرف اپنے منشور کے مطابق عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کو ترجیح دیتی ہیں بلکہ ملکی وقار، عزت اور سلامتی کے تحفظ کی خاطر آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا مثبت، تعمیری اور جمہوری کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکی مصنف میک آئیور (Macivor) لکھتا ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشور کا باقاعدہ بیان ممکن نہیں۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا۔ آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ نہ ہی وہ تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے جماعت سیاسی اقتدار حاصل کرسکے۔‘‘

ایک سنجیدہ، متحرک اور بااصول جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی موجودگی سے نہ صرف جمہوری رویوں کو فروغ اور استحکام ملتا ہے بلکہ ملک کے سیاسی نظام کو قاعدے اور قرینے کے ساتھ باوقار انداز میں آگے بڑھانے اور جمہوری تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عوام اپنے محبوب اور پسندیدہ سیاسی لیڈر کو اس کے سیاسی فکر و فلسفے، نظریات، منشور اور اس کے قول و فعل کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی قیادت کا عروج، نظریات کا تصور، نظم و ضبط، حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی شمولیت، قائدین کا عوام سے تعلق اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔

وطن عزیز میں چھوٹی بڑی کم و بیش 50 کے قریب سیاسی جماعتیں جو قومی سیاست میں سرگرم ہیں، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت العلما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔

مذکورہ سیاسی جماعتوں میں سے دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) گزشتہ نصف صدی کے دوران ایک سے زائد مرتبہ اقتدار میں آچکی ہیں۔ آج بھی انھی دو جماعتوں کے اشتراک سے ملک میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ اگرچہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے قیام، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی دعوے دار ہیں، لیکن ان جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ موروثیت کا غلبہ حاوی نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں یہی صورتحال ہے۔ ان جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں شریف اور بھٹو فیملی کے سوا کوئی دوسرا سیاسی رہنما پارٹی کے اہم ترین منصب پر مقابلے میں حصہ نہیں لیتا۔ پارٹی قیادت انھی دو خاندانوں کے نام لکھی جا چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات میں بلاول دوسری مرتبہ چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔ آصف زرداری بدستور پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ آج بلاول بھٹو اپنے نانا، والدہ اور والد کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ مفاہمتی سیاست کے تمام گُر انھوں نے اپنے والد سے سیکھے ہیں جس کا مظاہرہ 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر کیا۔

بلاول بھٹو کی مساعی ہی سے مولانا فضل الرحمن 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے۔ پی ٹی آئی سے مفاہمت و بات چیت کے لیے انھوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ قومی سیاست میں بلاول بھٹو جس سنجیدگی، احتیاط و اعتدال کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں وہ ان کے سیاست میں ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو کی صلاحیتیں اور عوام میں ان مقبولیت انھیں وزیر اعظم کے منصب جلیلہ تک لے جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا اکابرین سیاست اپنی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت نافذ کریں گے؟

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت اور موروثیت
  • عوام اور ریاست
  • نواز شریف کا لندن میں طبی معائنہ
  • سابق وزیراعظم نواز شریف کا لندن میں طبی معائنہ
  • مسلم لیگ (ن)کا عوامی رابطہ مہم کیلئے لاہور میں8کروڑ کی لاگت سے سیکریٹریٹ کے قیام کا فیصلہ
  • مسلم لیگ (ن) کا عوامی رابطہ مہم کیلیے لاہور میں سیکریٹریٹ کے قیام کا فیصلہ
  • نواز شریف کی ہدایت کے باوجود  حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟
  • مغربی بنگال میں وقف بل کی منظوری کے بعد ہنگامے، مرشد آباد میدانِ جنگ بن گیا
  • بی جے پی کی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آ گئی؟ مغربی بنگال میدانِ جنگ بن گیا
  • نواز شریف سیاست سے نکلے کب تھے؟ وہ پوری طرح متحرک ہیں، اسحاق ڈار