چینی خواتین کی ہانڈی چولہے سے لے کر خلا تک ترقی کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
بیجنگ :اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اٹھاونویں اجلاس میں انسانی حقوق کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے موضوع پر سالانہ اعلی سطحی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 1995 میں منعقدہ چوتھی عالمی خواتین کانفرنس میں اپنائے گئے “بیجنگ اعلامیے” اور “عمل کے لائحہ عمل” کی تیسویں سالگرہ منائی گئی۔ چین کی پہلی خاتون خلاباز لیو یانگ نے دنیا کی ممتاز خواتین کی نمائندہ کی حیثیت سے ویڈیو خطاب کیا اور نئے دور میں چینی خواتین کی ترقی کے تصورات اور کامیابیوں کو متعارف کروایا۔
لیو یانگ نے کہا کہ “بیجنگ اعلامیے” کی روح سے مستفید ہونے والی، اس پر عمل کرنے والی، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کی گواہ کے طور پر، جب شینزو خلائی جہاز کا انجن اسٹارٹ ہوا تو میں نے نہ صرف 600 ٹن کی پش پاور کو محسوس کیا، بلکہ کروڑوں چینی خواتین کے حوصلے اور قوت کو بھی محسوس کیا۔ چین کے خلائی معیارات کے سامنے صنفی مساوات کا تصور چینی خواتین کی ترقی کی مرکزی منطق کو ظاہر کرتا ہے،یعنی ادارہ جاتی ضمانت کے ذریعے منصفانہ مسابقتی ماحول پیدا کیا جائے ، جو “بیجنگ اعلامیے” کی روح کا عملی مظہر ہے۔1995 میں، اقوام متحدہ کی چوتھی عالمی خواتین کانفرنس بیجنگ میں منعقد ہوئی تھی ، جس میں “بیجنگ اعلامیہ” اور “عمل کے لائحہ عمل” کو اپنایا گیا۔
اس کانفرنس میں مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات کو فروغ دینے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے اسٹریٹجک اہداف اور پالیسی فریم ورک پر اتفاق کیا گیا۔ یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں ایک اہم عالمی خواتین کانفرنس تھی، جس میں بیان کردہ اسٹریٹجک اہداف اور پالیسی فریم ورک نے گزشتہ 30 سالوں میں عالمی سطح پر خواتین کی ترقی کے امور کوبے پناہ متاثر کیا ہے۔معلوم نہیں کہ آپ کے ملک میں کیا حالات ہیں، لیکن چین میں مردوں کے روزمرہ کی عام گفتگو میں “کیا بیوی سے ڈرتے ہو؟” کا جملہ اکثر ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کرنے کا ایک موضوع ہوتاہے۔مختلف قسم کے مزاحیہ کامیڈی اسکیچز میں، خواتین کے غرور اور مردوں کے مظلوم ہونے کا موضوع ہمیشہ مقبول رہتا ہے، لہذا جب مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ چینی مردوں اور دنیا بھر کی خواتین کے احساسات بالکل مختلف ہیں، “خواتین کے حقوق کا تحفظ؟ ہم مرد ہی تو کمزور طبقہ ہیں!”درحقیقت، چینی مردوں کی یہ مزاحیہ گفتگو ایک پہلو سے چین میں مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات کو فروغ دینے اور صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے میدان میں حاصل کردہ نمایاں کامیابیوں کو ظاہر کرتی ہے۔
چین نے مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات کو بنیادی قومی پالیسی میں شامل کیا ہے، اور قانون، معیشت، تعلیم جیسے کثیر جہتی اداہ جاتی ضمانت کا نظام تشکیل دیا ہے۔ 1992 میں اپنایا گیا “خواتین کے حقوق کے تحفظ کا قانون” اس بات پر زور دیتا ہے کہ خواتین کو سیاسی، معاشی، ثقافتی، سماجی اور خاندانی زندگی کے تمام شعبوں میں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ ملک مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات کو فروغ دینے، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کو ختم کرنے، خواتین کو قانون کے مطابق تمام حقوق اور مفادات کے حصول اور انہیں استعمال سے روکنے اور محدود کرنے سے منع کرتا ہے اور ملک خواتین کے قانون کے مطابق حاصل کردہ خصوصی حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ غربت کے خلاف جنگ نے 40 ملین سے زیادہ دیہی خواتین کو مطلق غربت سے نجات دلائی ہے۔
چین کے “اسپرنگ بڈ پروگرام” نے لاکھوں لڑکیوں کو ان کی تعلیم مکمل کرنے میں مدد دی ہے۔ دیہی خواتین میں ناخواندگی کی شرح جو عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے قبل 90 فیصد تھی اب گھٹ کر 7.
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل امبانگو نوکا نے کہا کہ چین نے غربت سے نجات، تعلیمی مساوات اور وبائی امراض کے خلاف جنگ میں خواتین کی “عالمی سطح پر ایک مثال قائم کی ہے”۔ 2024 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے جائزے میں 120 سے زیادہ ممالک نے چین میں خواتین کے حقوق کے تحفظ ، معذور افراد کی خدمات جیسے شعبوں میں پیش رفت کو سراہا اور کہا کہ چین کا انسانی حقوق کا ترقیاتی راستہ چین کی قومی حالات اور عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے اور دیگر ممالک خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے لئے انسانی حقوق کے ترقیاتی راستے کی خودمختارانہ تلاش کے لئے ایک نیا انتخاب فراہم کرتا ہے۔خواتین کی ترقی کے ہر قدم نے انسانی تہذیب کی ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔
غربت سے نجات اور مساوات سے لے کر خلائی تحقیق تک، “ہانڈی چولہے ” سے لے کر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر “چینی آواز” بلند کرنے تک، چینی خواتین کی ترقی نے بین الاقوامی برادری میں مضبوط اعتماد پیدا کیا ہے کہ جب تک ہم ثابت قدم رہیں گے اور تعاون کو مضبوط کریں گے، ہم یقینی طور پر “کسی بھی خاتون کو پیچھے نہ چھوڑنے” کے وژن کو حاصل کر سکیں گے۔ اسی دوران چین کی عملی کوششوں نے اس عالمی قدر کی تصدیق کی ہے کہ صنفی مساوات نہ صرف ایک اخلاقی تقاضا ہے بلکہ یہ سماجی انصاف کا اظہار بھی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے چینی خواتین کی خواتین کے حقوق خواتین کی ترقی حقوق کے تحفظ خواتین کو ترقی کے چین نے کیا ہے کے لئے
پڑھیں:
عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
ریاض احمدچودھری
ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں نامساعد موسم ، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور اپنے گھروں سے دور بھارتی جیلوں میں نظربندسینکڑوں کشمیریوں کو درپیش سنگین صورتحال کو اجاگرکرتے ہوئے کہاکہ کشمیری نظربندوں کو پینے کے صاف پانی، صحت بخش خوراک اور مناسب طبی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے جس سے انہیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سے نظربند بے چینی، ڈپریشن اورذہنی تنائو سمیت صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہیں جو سورج کی روشنی، مناسب غذائیت اور علاج ومعالجے کے فقدان کی وجہ سے سنگین رخ اختیارکررہے ہیں۔ڈی ایف پی نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیاکہ وہ کشمیری نظربندوں کو خاص طور پر تہاڑ جیل میںجہاں نظربندوں کو ان کے اہل خانہ سے ہزاروں کلومیٹر دور رکھا جارہا ہے، درپیش صورتحال کی تحقیقات کریں۔ انسانی حقوق کے اداروں کو موثر کارروائی کرنی چاہیے اور موقع پر جاکرجائزہ لینا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
گزشتہ برس جنیوا میں کمیشن برائے انسانی حقوق کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں،حریت قیادت کو مسلسل جیلوں میں بند رکھنے، کشمیریوں کی جائیدادوں پر بھارتی فوج کا قبضہ، غیر کشمیری باشندوں کو آباد کرنے پر تحریک کشمیر یورپ کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیریوں کا قتل عام بند کرائے، حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم، یاسین ملک، شبیر شاہ،نعیم خان، ڈاکٹر قاسم فکٹو،آسیہ اندرابی، ایاز اکبر، نہیدا نسرین، پیر سیف الدین، فہمیدہ صوفی اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، میڈیا پر مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔
حریت رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کر رکھا ہے، حریت قیادت سمیت 10لاکھ کشمیری غیر قانونی طور پر جیلوں میں بند ہیں، کشمیریوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، عالمی برادری اپنی خاموشی توڑے، کشمیر یوں کی نسل کشی اور قتل عام بند کرایا جائے۔ بھارت کا اصل روپ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا، مودی انسانیت کا دشمن اور قاتل ہے، بھارت نام نہاد جمہوریت کے لبادے میں دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے، کشمیری اپنے حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، یہ حق انہیں عالمی امن کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ نے دیا ہے، بھارت کے ناپاک عزائم اور سازشوں کو نہ روکا گیا تو خطے میں تباہی اور بربادی کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہوگی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیر پر اپنی رپورٹوں پر عمل درآمد کرائے، اپنے وفد کو مقبوضہ کشمیر بھیج کر حالات کا خود مشاہدہ کرے اور بھارت کے ظلم کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے 14/ستمبر 2020ء کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو فروری 2020ء میں شمالـمشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے مبینہ کردار کے لیے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان فسادات کے اہم سازشی ہیں۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد بھی وہ کسی ضمانت یا ٹرائل کے بغیر تہاڑ جیل کی انتہائی سیکیورٹی کی حامل قید میں ہیں۔ ان چار سالوں میں عمر خالد نے ضمانت کی خاطر مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ (واضح رہے کہ) سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر (ضمانت کو ) ایک ”قاعدے” کے طور پر بیان ہے، ایک ایسا قاعدہ جو یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین کے لیے بھی لائق اطلاق ہے۔ 36 سالہ جہد کار، جو ہنوزمجرم قرار نہیں دیے گئے ہیں بلکہ صرف ایک ملزم ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
فسادات کے بعد مختلف کیسوں کے تحت دہلی پولیس نے چند مہینوں کے اندرون 2500 افراد کو گرفتار کیا۔ ان مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے گذشتہ چار سالوں میں نچلی عدالتوں نے اکثر مواقع پر پولیس کو ناقص تفتیش پر ڈانٹ لگاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد کو ضمانت دے دی ہے۔ 2020ء کے فسادات سے متعلق مقدمات میں ایک بڑا سازشی مقدمہ وہ ہے جس میں پولیس نے مسٹر خالد کو دیگر 17 افراد کے ساتھ ملزم قرار دیا ہے، جن میں سے کئی ضمانت پر رِہا ہیں۔قید کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پہلی مرتبہ انہیں مارچ 2022ء میں کارکاردوما عدالت کی جانب سے ضمانت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی اکتوبر 2022ء میں انہیں اس حوالے سے کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خالد نے ضمانت کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی۔ فروری 2024ء تک سپریم کورٹ میں ان کی درخواست سماعت سے پہلے ہی 11 مہینوں میں 14 دفعہ ملتوی کی جا چکی تھی۔ یہ التوا کبھی فریقین میں سے کسی وکیل کی غیر حاضری کے باعث ہوا تو کبھی استغاثہ کی درخواست پر۔
اگست 2023ء میں جسٹس اے ایس بوپنا اور پی کے مشرا کی ایک بینچ نے عمرخالد کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ ”(ججوں کے) اس مجموعے میں سماعت نہیں کی جاسکتی”۔ بعد ازاں 5 ستمبر 2023ء کو مقدمہ ایک بینچ کو منتقل کر دیا گیا جس کی قیادت جسٹس بیلا. آم. ترویدی کر رہے تھے جسے خالد کے وکیل کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے موقع پر 12/ اکتوبر کو بینچ نے ”وقت کی کمی” کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو ملتوی کر دیا۔ نومبر میں ”متعلقہ سینئر وکلاء کی عدم دستیابی” کے باعث ضمانت کی عرضی کو دوبارہ ملتوی کر دیا گیا۔