16 سالہ بدترین اور کرپٹ حکمرانی؛ سندھ حکومت کیخلاف ایم کیو ایم کا وائٹ پیپر
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
کراچی:
ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ حکومت کے خلاف وائٹ پیپر جاری کردیا گیا، جس میں پیپلز پارٹی کی سندھ پر16 سالہ حکومت کو بدترین اور کرپٹ ترین قرار دیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں فاروق ستار، نسرین جلیل و دیگر نے صوبائی حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا ایک اور نوحہ لے کر آئے ہیں۔ وائٹ پیپر کی تیاری ہے جو 16 سال کی بدترین اور کرپٹ حکمرانی کے بارے میں ہے۔ 25 ارب روپے کے واجبات ہیں ان سرکاری ملازمین کے جو کراچی میں رہائش پذیر اور بلدیاتی اداروں میں کام کرتے تھے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 30، 40 سال کی ملازمت میں ان کی ماہانہ گریجویٹی کی کٹوتی ہوتی رہی۔ ملازمین کا پیسہ اور واجبات ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری اور شہری ادارے لوٹاتے ہیں مگر 2017 کے بعد سے ریٹائر ہونے والوں کو واجبات تاحال نہیں مل سکے۔ اس سے بڑا معاشی قتل کیا ہوسکتا ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام کراچی کے ادارے ہیں جہاں سے ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ان اداروں کے سربراہ بہ لحاظ عہدہ میئر کراچی یا وزیر بلدیات ہیں ۔ یہ تمام شہری ادارے سندھ حکومت کے تحت چلائے جارہے ہیں ۔ 2017ء سے ایم کیو ایم سے ان اداروں کا کنٹرول چھین کر سندھ کے وڈیروں جاگیرداروں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
فاروق ستار نے کہا کہ کراچی کے ریٹائرڈ ملازمین کے 25 ارب روپے کے واجبات 2017 کے بعد سے ادا نہیں ہوئے ۔ کراچی کا ساتھ دینے پر حیدرآباد کو بھی بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ وفاق پر بھی اس کی ذمے داری کسی نہ کسی شکل میں آتی ہے ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ان واجبات کی ادائیگی سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔
ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ کے ایم سی کے ٹاؤن ملا کر 10 ہزار ملازمین کے 15 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ کراچی واٹر سیوریج کے 5 ہزار ملازمین کے 6 ارب روپے کے واجبات ہیں ۔ کے ڈی اے کے ایک ہزار سے زائد ملازمین کے 5 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ واسا، ایچ ایم سی، ایچ ڈی اے کے حیدرآباد کے ریٹائرڈ ملازمین کے 4، 5 ارب روپے کے واجبات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی بدانتظامی کے بارے میں وائٹ پیپر کی اگلی قسط رمضان کے بعد جاری کریں گے۔ کراچی کے 25 ٹاؤنز کے ریٹائرڈ ملازمین کو ٹاؤنز نے اوون کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کے ساتھ یہاں بھی سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں ۔
انہوں نے کہا کہ نئی بھرتیوں میں ہمارے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل والوں کو ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ کراچی حیدرآباد کی ملازمتوں اور میڈیکل کالجز میں بوگس ڈومیسائل پر داخلہ اور ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ سندھ حکومت کراچی کے شہریوں کا معاشی قتل عام کے ساتھ تعلیمی قتل عام بھی کررہی ہے، جس کے وزیراعلیٰ، میئر کراچی اور وزیر بلدیات ذمے دار ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ ملازمین کی گریجویٹی کی رقم کہاں گئی؟ پاکستان کے ریاستی اداروں کے سربراہ ہیں وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ۔ پوچھنا چاہیے کہ 25 ارب روپے کہاں گئے؟ یہ کراچی کے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے کسی کے باپ کا پیسہ نہیں۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ، صوبائی وزرا کی تنخواہ اور مراعات بھی کراچی کے ٹیکس سے ادا ہوتی ہیں۔ مرکز سے آنے والا کراچی کے ٹیکسوں کا پیسہ کہاں جارہا ہے؟۔ یہ پیسہ سب کو مل رہا ہے تو ان ریٹائرڈ ملازمین کو بھی دیا جائے۔ 25 ارب روپے کہاں گئے اس کی تحقیقات کی جائیں ۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنڈی اور اسلام آباد کی مقتدر شخصیات ہمارا نوحہ سنیں، توجہ دیں ۔ یہ پاکستان کی مضبوطی، استحکام کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ملازمین تنہا نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان واپس آگئی ہے ۔ کسی نے سمجھا کہ ہم تنظیم نو میں مصروف ہیں وہ غلط ہیں ۔ ہم مضبوط، منظم اور متحد ہیں ۔ رمضان کے بعد آٹے دال کا بھاؤ بتائیں گے ۔ یہ دانا دوست کی تنبیہ ہے۔سندھ حکومت سے اپنا دست تعاون فی الحال واپس لے لیا ہے، اب تالی دونوں ہاتھ سے بجے گی۔
مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد کے ساتھ اشتراک کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اللہ کرے ہم سب کی 1986 کی یادداشت واپس آجائے۔ آفاق احمد سے درخواست کی تھی کہ سب کے ساتھ آجائیں۔ اب چھوٹی ندیوں نالوں کے الگ الگ بہنے کا وقت نہیں۔ آفاق احمد نے وہ اپیل مسترد کردی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریٹائرڈ ملازمین انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سندھ حکومت فاروق ستار ملازمین کے کراچی کے کا پیسہ کے ساتھ ایم کی کے بعد
پڑھیں:
بجلی بلوں میں 21 ارب کی اووربلنگ ہونے اور افسران و ملازمین کو بغیر سزا چھوڑنے کا انکشاف
اسلام آباد:پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں 6 بجلی کمپنیوں کی جانب سے اوور بلنگ کے نام پر عوام سے 21 ارب روپے اضافی وصول کیے جانے اور ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں پی اے سی کے 21 ارب روپے کی اوور بلنگ کے آڈٹ پیرا کا جائزہ لیا گیا۔
رکن بلال احمد نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میٹر ریڈر اوور بلنگ کرے اور اسے چھوڑ بھی دیا جائے، 6 بجلی کمپنیوں میں مسلسل اوور بلنگ ہو رہی ہے۔
یہ پڑھیں : بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے 300 ڈیفالٹرز کی فہرست طلب، حکومت بلوچستان کا بھی ڈیفالٹر ہونیکا انکشاف
رکن کمیٹی حنا ربانی کھر نے کہا کہ بجلی کمپنیاں غریب لوگوں کو اووربلنگ کرتی ہیں، ہمارے حلقوں میں ایک ایک غریب شخص پر 50 ہزار روپے اووربلنگ کی گئی، پی اے سی اووربلنگ پر کمپنیوں کے خلاف سخت ایکشن لے۔
چیئرمین پی اے سی جنید اکبر خان نے کہا کہ اووربلنگ پر کن کے خلاف اور کیا ایکشن لیے گئے تفصیلات فراہم کریں، ایکس ای این اور ایس ڈی او کا کیا کام ہے وہ تو فیلڈ میں نہیں ہوتے، یہ کیا کرتے ہیں گاڑیوں میں گھومتے ہیں بھاری تنخواہیں لیتے ہیں۔
سی ای او گیپکو نے کہا کہ ایکس ای این اور ایس ڈی او اپنے علاقے کے ذمہ دار افسر ہوتے ہیں، انسانی غلطی کی وجہ سے کبھی کبھار اووربلنگ ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : پی اے سی میں 9ڈسکوز سے 877 ارب روپے ریکور نہ ہونے کا انکشاف
رکن کمیٹی نے کہا کہ کیا دو نمبری کرنے والے ایکس ای این اور ایس ڈی او کے خلاف کارروائی ہوئی؟
رکن کمیٹی حنا ربانی کھر نے کہا کہ میپکو میں اووربلنگ کے بار بار واقعات ہو رہے ہیں،
صرف ایک شعبے کی وجہ سے پورا ملک بیٹھ گیا۔
آڈٹ حکام نے کہا کہ میپکو میں 152 لوگ اووربلنگ میں ملوث نکلے تھے، اووربلنگ میں ملوث ملازمین اور افسران کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا۔