محدث، فقیہ اور مجتہد امام ابو دائودؒ
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
سلیمان بن الاشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الازدی السجستانی کی ولادت موجودہ ایران و افغانستان کے سرحدی علاقے سجستان میں 202 ھ میں ہوئی،علم کا ذوق و شوق لئے پیدا ہوئے اور کم عمری ہی میں علم حدیث کے حصول کے لئے ملکوں ملکوں سفر کیا، عراق، خراسان، شام، مصر اور حجاز کے جید علمائے کرام سے کسب فیض سے مشام جاں کو معطرو معنبر کیا۔امام اسحاق بن رواہا، امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینہ، امام ابو ثوراور امام احمد بن حنبل جیسے اساتذہ سے حدیث و فقہ کے علوم میں بھرپور استفادہ کیا اور جرح و تعدیل اور رجال کی پرکھ میں غیر معمولی مہارت کے حامل ٹھہرے اسی لئے امام ذہبی نے ان کے بارے میں کہاکہ’’ ابودائود ثفہ امام متقن یعنی تحقیق وجستجو رکھنے والے، ٹھوس علمی مہارت رکھنے والے ایسے امام تھے جو اپنے کام کوخوش اسلوبی سے انجام دینے پر یقین رکھتے تھے‘‘ ابن حبان کی ان کے بارے میں یہ رائے تھی کہ’’ ابودائود حدیث میں اتنے متبحر تھے کہ ان کے درجے کا کوئی دوسرا نہیں تھا‘‘
خطیب بغدادی نے شہادت دی کہ’’ حدیث میں وہ وقت کے امام تھے اور انہوں نے فقہ الحدیث میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں‘‘
امام ابودائود کی سب سے معروف تصنیف سنن ابودائود ہے، جس کا شمار صحاح ستہ میں ہوتاہے۔ انہوں نے پانچ لاکھ احدیث جمع کیں جن میں سے چار ہزار آٹھ سو احادیث کو اپنی سنن میں جگہ عطا فرمائی، اسے فقہ و حدیث کا خوبصورت امتزاج کہا جاتا ہے، جو فقہاء کے لئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے، امام ابودائود کی دیگر کتب کے علاوہ ایک اہم کتاب ’’مسائل الامام احمد‘‘ ہے جو امام احمد بن حنبل سے کئے گئے سوالات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں امام ابودائود نے امام احمد بن حنبل سے عبادات، معاملات اور دیگر شرعی مسائل سے متعلق استفسار کیا۔
نماز کے اوقات، وضو، طہارت، زکوٰۃ، حج، روزہ، نکاح و طلاق اور دیگر فقہی اور حدیثی موضوعات کے حوالے سے اپنے استاذ سے سوالات کے جوابات دریافت فرمائے۔اسی طرح امام ابو دائود نے ’’کتاب الزہد‘‘ میں تزکیہ نفس، زہد اور احادیث سے متعلق تفصیل بیان کی۔ امام نے’’المراسیل‘‘ کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر فرمائی،جو حدیث کے ایک مخصوص شعبے یعنی مرسل احادیث سے متعلق ہے یعنی ایسی احادیث جن کی سند میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا ذکر نہ ہو بلکہ تابعین پاک نبی ﷺسے براہ راست روایت کریں۔ اس بارے امام نے مرسل حدیث کی قبولیت کے اصولوں متعلق بتایاہے کہ ’’کن حالات میں انہیں قابل حجت سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
اس کتاب میں بعض محدثین کے اقوال بھی شامل کئے گئے ہیں جن میں مرسل حدیث کے قبول کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ان کے نظریات بیان کے گئے ہیں،امام ابودائود نے اپنی زندگی کے زیادہ تر سال بصرہ میں گزارے جہان امام کو علمی قیادت کا منصب حاصل رہا۔خلیفہ المعتضد باللہ امام کی بہت عزت و تکریم کیا کرتے اور انہوں نے امام سے التجا کی کہ فقہی مسائل میں اختلافی پہلوئوں کو حل کرنے سے متعلق اختصار پرمشتمل کتاب تیار کردیں۔اسی درخواست پر امام نے’’کتاب السنن‘‘ مرتب کی، جس میں مختلف فقہی مکاتب فکر کی آرا کی تفصیلی وضاحت کی۔ امام ابو دائود بنیادی طور پر اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔لیکن محسوس یہ کیا جاتا تھا کہ ان کا جھکائوفقہ حنبلی کی جانب ہے۔امام ابودائود کا شمار عظیم محدثین میںہوتا ہے، ان کی تصنیف’’سنن ابودائود‘‘ فقہ و حدیث کے طلباء کے لئے آج بھی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے جس سے تحقیق و اجتہاد کا کام بھی لیا جاتا ہے،جہاں تک فقہ حنبلی سے متاثر ہونے کا تعلق ہے اس امر کا اندازہ ان کے متعدد فتاوی اور آرا ء کی مشابہت سے صاف معلوم ہوتا ہے، امام تیمیہ نے بھی امام ابو دائود کو فقہ حنبلی کے قریب قرار فرمایا ہے،تاہم ان کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتاہے کہ وہ کسی ایک فقہ کے مقلد نہیںتھے بلکہ اجتہادی مہارت رکھنے کی وجہ سے زیادہ تر حدیث کی روشنی میں فقہی مسائل کا حل تلاش کرتے تھے، ان کا بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے فقہ و حدیث کو یکجا کر کے علمی امور کو نبھایا اور ان کا انتقال 275ھ بصرہ میں ہوا اور وہیں پر آسودہ خاک ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
امام جعفر صادق (ع) کی حیات طیبہ عالم بشریت کیلئے مشعل راہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی
درگاہ سید رستم شاہ بخاری پر سالانہ مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ آل رسول (ص) نے دین اسلام کی بقا کیلئے بے مثال قربانیاں پیش کیں اور امام جعفر صادق (ع) وقت کے حاکم عباسی خلیفہ منصور کے حکم سے قتل کئے گئے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات طیبہ عالم بشریت کے لئے مشعل راہ ہے۔ آل رسول (ص) نے دین اسلام کی بقا کے لئے بے مثال قربانیاں پیش کیں اور امام جعفر صادق علیہ السلام وقت کے حاکم عباسی خلیفہ منصور کے حکم سے قتل کئے گئے۔ آپؑ کی مظلومانہ شہادت آل رسول (ص) کی خدا کے دین کی بقا کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا تسلسل ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوم شہادت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے سلسلے میں درگاہ سید رستم شاہ بخاری پر سالانہ مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مجلس عزاء سے ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی اور مجلس علمائے مکتب اہل بیت کے ضلعی صدر علامہ سیف علی ڈومکی نے خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم، زاہد، عابد، ولی خدا تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں ممتاز شاگرد ہشام بن الحکم، جو فلسفہ اور علم کلام کے ماہر تھے۔ جابر بن حیان، جو علم کیمیا کے بانی ہیں۔ جناب زرارہ بن اعین، جو فقہ و حدیث کے ماہر تھے۔ جناب محمد بن مسلم، مؤمن الطاق، ابان بن تغلب، جو تفسیر اور حدیث کے ماہر تھے۔ آپ کے مدرسہ میں ایسے مایہ ناز شاگردوں نے تربیت پائی جو عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لئے قیمتی اثاثہ ہیں۔
علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مدینہ منورہ میں ایک عظیم علمی مرکز قائم کیا۔ جہاں ہزاروں شاگردوں نے مختلف علوم میں تعلیم حاصل کی۔ آپ (ع) نے اسلامی فقہ کو مضبوط اور منظم شکل دی جسے "فقہ جعفریہ" کہا جاتا ہے۔ صادق آل محمد (ص) نے مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے علماء سے علمی مناظرے کئے، خصوصاً دہریوں اور مادہ پرستوں سے۔ آپ علیہ السلام نے علم توحید، علم کیمیا، فلکیات، طب، ریاضیات اور دیگر سائنسی علوم پر بھی روشنی ڈالی۔ اس موقع پر درگاہ کے سجادہ نشین اور مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء سید جہان علی شاہ اور تعلقہ صدر ایم ڈبلیو ایم سید عابد حسین شاہ مگسی اور چوھان برادری نے درگاہ سید رستم شاہ بخاری پر چادر چڑھا کر عرس مبارک کا افتتاح کیا۔