سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش کے بعد ہی ممکن ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل WhatsAppFacebookTwitter 0 27 February, 2025 سب نیوز


اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کر رہا ہے۔
سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے گزشتہ سماعت سے جڑے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ کمانڈنگ افسرز نے ملزمان کی حوالگی کے لیے درخواستیں دیں، درخواستوں کا آغازہی ان الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے، درخواست کے یہ الفاظ اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کی حوالگی کے لیے جو وجوہات دیں وہ مضحکہ خیز ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے ملزمان کی حوالگی کے احکامات دیے، انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصوروار لکھ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں، لگتا ہے انسداد دہشت گردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں۔

فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کی حوالگی کا حکم عدالت دے سکتی ہے ایڈمنسٹریٹو جج نہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کا قانونی اختیار صرف کو ہی ہے۔

وکیل سول سوسائٹی نے کہا کہ آرمی ایکٹ سیکشن 59(1) کے تحت فوجی افسران کی قتل و دیگر جرائم میں سول عدالت سے کسٹڈی لی جا سکتی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 59 (4) کا اطلاق بھی ان پرہی ہوتا ہے جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں۔

جسٹس جمال مندو خیل کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگی، جس پر فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں ان میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات عائد نہیں کی گئی تھیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے یاد دلایا کہ ایک ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات بھی عائد تھیں، جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی ایف آئی آر انہیں ریکارڈ پر نظر نہیں آئی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ایف آئی آر پڑھیں، اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہر توڑپھوڑ کا ہے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں سانحہ 9 مئی سے متعلق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت قبل ازگرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل پنجاب نے مقدمات ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے 2 ہفتے کی مہلت دے دی۔

چیف جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سانحہ 9 مئی سے متعلق بانی پی ٹی آئی کی ضمانت قبل ازگرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے مقدمات ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اپنایاکہ عدالت کے سامنے کچھ اضافی ریکارڈ پیش کرنا چاہتے ہیں ایک ہفتے کی مہلت دی جائے، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے بغیرکارروائی کے سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئندہ ہفتے نہیں اس سے اگلے ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیے جائیں، بینچ نے جسمانی ریمانڈ سمیت دیگرملزمان کے مقدمات بھی ملتوی کردیے گئے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کے بعد ہی ممکن ہوگی جسٹس جمال

پڑھیں:

آرمی ایکٹ کے تحت گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کے مطابق گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی سات رکنی آئینی بنچ  نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 1962 کے آئین میں ایوب خان کا دور تھا کیا اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟۔ جس پر ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق اصلاً دستیاب نہیں تھے، سویلینز کی حد تک کرمنل دفعات پہ ٹرائل عام عدالت ہی کر سکتی ہے، آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھیں جو آرمڈ فورسز کے حوالے سے تھیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہاں تعلق سے کیا مراد ہے؟۔ وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ خود کو سبجیکٹ کر سکتا ہے یا نہیں، کس قانون کے تحت کیا جا سکتا ہے وہ متعلقہ ہے یا نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹو ون ڈی میں سویلینز کا تعلق کیسے بنایا گیا ہے؟۔ ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ٹو ون ڈی کے حوالے سے ایف بی علی کیس میں کچھ نہیں کہا گیا، ٹرائل دفعات پر نہیں سٹیٹس پر ہو گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ محرم علی کیس اور راولپنڈی بار کیس میں دہشتگردی کی دفعات تھیں، فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا، ان کی سکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہو گی، ان سے تحقیقات پولیس افسر کرے گا؟۔ جہاں ملٹری کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی؟۔ سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل بانی پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کیس میں عدالت نے طے کرنا ہے قانون کو کس حد تک وسعت دی جاسکتی ہے۔ فوجی کے حلف میں لکھا ہوتا ہے افسر کا حکم زندگی سے زیادہ ضروری ہے۔ جس پر جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں فوج دوران جنگ ہی جواب دے سکتی ہے، گھر پر حملے کا نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے بانی سے متعلق اہم مکالمہ کیا جبکہ وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہے کہ فوج ہی سب کچھ کرسکتی ہے، کور کمانڈر ہائوس پر حملہ ہوا ڈیفنڈ کیوں نہیں کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک بات کررہے ہیں، آپ کے مؤکل دوسری بات کرتے ہیں، آپ کا مؤکل کہتا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں، ان سے بات کروں گا۔ اس پر وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کمرہ عدالت سے جو باہر ہے اس پر بات نہیں کروں گا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ سیاست کی بات نہیں، حقیقت کی بات ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟۔ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے استدلال کیا کہ اب معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔ وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جرم کی نوعیت پر نہیں ملزم کے سٹیٹس کو مدنظر رکھ کر فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا، ملزم کا سٹیٹس دیکھنا ہوگا کہ وہ آرمڈ فورسز سے تعلق رکھتا ہے یا سویلین ہے، امریکی عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں ملزم کے سٹیٹس کو دیکھ کر ٹرائل پر فیصلہ دیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ مگر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے مطابق تو گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے، گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ٹرائل کا مطلب ملزم کا سٹیٹس نہیں جرم دیکھ کر ٹرائل ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ فوج اپنے لوگوں تک تو یہ اختیار استعمال کرسکتی ہے مگر سویلین کی حد تک نہیں، اگر فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی تو کسی کیلئے بھی نہیں کرسکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر آرمڈ فورسز میں لوگ آئین کے آرٹیکل 8(3) کے تحت آتے ہیں تو انہیں آرٹیکل 10 اے بھی حاصل نہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کا ٹرائل پھر چاہے جہاں مرضی ہو۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا، اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ میں نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق ایک فیصلے میں تجویز دی، میری تجویز پر ہائیکورٹ کے ججز کی کمیٹی بنی اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے انٹرویو شروع ہوئے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کیلئے قانون سازی کی۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کیلئے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، ایک کے بعد دوسرا نوٹیفکیشن آرہا تھا، یہ تو ہماری حالت تھی۔ وکیل نے کہا آج بھی بانی پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ہورہا ہے، فیئر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا۔ جسٹس امین نے ریمارکس دیئے کہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ہاں ہاں آج کل تو خطوط کا تنازعہ بھی چل رہا ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • لگتا ہے انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے ججز کی انگریزی کے کافی مسائل ہیں: جسٹس جمال مندوخیل
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: لاہور اور پنڈی کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں، آئینی بینچ
  • 5 جج متفق تھے سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا: جسٹس مندوخیل
  • پانچوں ججز متفق تھے سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا،جسٹس جمال مندوخیل
  • تمام 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا: جسٹس جمال مندوخیل
  • تمام 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا، جسٹس جمال مندوخیل 
  • آرمی ایکٹ کے تحت گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے: سپریم کورٹ
  • ٹوون ڈی میں سویلینز کا تعلق کیسے بنایا گیا؟جسٹس جمال مندوخیل 
  • آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا: جسٹس جمال مندوخیل