پولینڈ کے سفیر کا ایف پی سی سی آئی کا دورہ ،باہمی تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
پولینڈ کے سفیر کا ایف پی سی سی آئی کا دورہ ،باہمی تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا اعادہ WhatsAppFacebookTwitter 0 27 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:پاکستان میں پولینڈ کے سفیر ماچے پریسارسکی نے ایف پی سی سی آئی کا دورہ کیا جہاں پولش سفیر نے صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ اور بزنس کمیونٹی سے ملاقات کی ۔
ملاقات میں پولینڈ اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا اعادہ کیا گیا۔
پولش سفیر نے باہمی تجارتی تعلقات میں اضافے کیلئے بزنس کمیونٹی کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کیلئے یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بہتری ناگزیر ہے،
پاکستان اور پولینڈ میں حالیہ عرصے میں تجارتی حجم میں اضافہ اطمینان بخش ہے،
دونوں ممالک کو باہمی تجارت میں مزید اضافے کیلے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،
جی ایس پی پلس اسٹیٹس نے پاکستان ٹیکسٹائل کو پولش مارکیٹ تک موثر رسائی فراہم کی ہے،
عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ پولینڈ کی توانائی سے متعلق سیکٹر کی پاکستان میں سرمایہ کاری انتہائی خوش آئند ہے،
پولینڈ کو پاکستان میں گرین اکانومی کے انیشیٹو میں سرمایہ کاری کرنی چائیے،
پولینڈ کے سفیر نے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف پی سی سی آئی کا دورہ کر کے دلی خوشی ہو رہی ہے، پاکستان اور پولینڈ سیاسی ،سفارتی اور معاشی تعلقات کی تاریخ رکھتے ہیں، دونوں ممالک مضبوط کلچر اور وسیع تاریخی ورثے کے مالک ہیں، پاکستان اور پولینڈ کی بزنس کمیونٹی کے ایک دوسرے سے قریبی تعلقات ہیں،
پولینڈ کے سفیر کماچے پریسارسکی کا مزید کہنا تھا کہ پولینڈ جلد ہی یورپی یونین کی صدارت سنبھالے گا ،یہ دونوں ممالک کیلے ایک بڑا موقع ہو گا،
پاکستان اور پولینڈ کو ایک دوسرے کے ممالک میں کاروبار کیلئے کسی تعارف کی ضرورت نہیں،
پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر کرنا میرا مشن اور پہلی ترجیح ہے،
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایف پی سی سی ا ئی کا دورہ باہمی تجارتی تعلقات تجارتی تعلقات کو پولینڈ کے سفیر
پڑھیں:
امریکی اراکین کانگریس کا دورہ پاکستان دونوں مُلکوں کے تعلقات پر کس طرح اثرانداز ہو گا؟
سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی اراکین کانگریس کا دورہ پاکستان ایک معمول کا دورہ تھا جس کا دوطرفہ تعلقات سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ امریکی کانگریس مین جو امریکی کانگریس میں مختلف مُلکوں اور مختلف شعبوں سے متعلق کمیٹیوں کی سربراہی کرتے ہیں وہ اِس طرح متعلقہ ممالک کے دورے کرتے ہیں۔
3 امریکی کانگریس مین جیک برگ مین، ٹام سوزی اور جوناتھن جیکسن نے گزشتہ روز پاکستان میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور دیگر حکومتی و اپوزیشن اراکین سے ملاقاتیں کیں۔
14 اپریل کو سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اراکین کانگریس نے دورے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اِسے پاک امریکا تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی کامیاب اور مفید قرار دیا۔ مذکورہ وفد نے اِس سے قبل پاکستان منرل فورم میں بھی شرکت کی تھی۔
مذکورہ دورہ اِس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان کا ایک اعلٰی سطحی وفد امریکا کی جانب سے عائد 29 فیصد ٹیرف پر مذاکرات کے لیے امریکا روانہ ہو گا۔ چند روز قبل امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا تجربہ ہے۔ پاکستان کے پاس لیتھئم اور تانبے کے ذخائر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے خوش آئند ہیں۔ اگر امریکا یہاں سرمایہ کاری کرتا ہے تو دونوں مُلکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہو سکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ ہمارے کثیرالجہتی تعلقات ہیں اور دفتر خارجہ کو چاہیے کہ اِن تعلقات کو مزید مستحکم کرے اور خاص طور پر تجارتی تعلقات مزید مضبوط کیے جانے کی ضرورت ہے۔
امریکی اراکین کانگریس کا دورہ دوطرفہ تعلقات کے لیے نہیں تھا؛ ایمبیسیڈر نجم الثاقبپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر نجم الثاقب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اراکین کانگریس کا یہ دورہ دو طرفہ تعلقات کے ضِمن میں نہیں تھا۔ دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے سیکرٹری سطح کے لوگ دورہ کرتے ہیں اور اُس طرح کے دوروں کے پیرا میٹرز مختلف ہوتے ہیں۔ ایمبیسیڈر نجم الثاقب نے کہا کہ پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اِس وقت امریکا کے ریڈار پر نہیں ہے اور امریکا نے ابھی تک کوئی ایسا ایگزیکٹو آرڈر جاری نہیں کیا جس کا براہِ راست تعلق پاکستان کے ساتھ ہو۔
’ہمارا امریکا کے ساتھ جو تعلق ہے اُس کے حوالے سے اِس وقت ہماری سب سے بڑی پریشانی امریکا کی جانب سے عائد کیا جانے والا ٹیرف ہے اور اُس کے نتیجے میں پاکستان کو ممکنہ طور پر 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ دوسرا امریکا کی طرف سے ایک ہی بات سامنے آ رہی ہے کہ اُسے دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کا تعاون چاہیے جو کہ پاکستان عرصے سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ حال ہی میں داعش کے دہشتگرد شریف اللہ کی گرفتاری اور حوالگی پر امریکی گانگریس نے ہمیں شاباش بھی دی جو کہ اچھی اور مثبت بات ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ اُنہوں نے ممبی حملوں کے ملزم تہوّر رانا کو بھارت کو حوالے کردیا ہے جو کہ بھارت امریکا تعلقات کی تو کامیابی ہے لیکن جب تہوّر رانا کے حوالے سے چیزیں سامنے آئیں گی تو اُن سے پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
ایمبیسیڈر نجم الثاقب نے کہا کہ پاکستان کے لیے مسائل کی نوعیت علاقائی ہے۔ پاکستان کو افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ تعلقات درست رکھنے کے لیے امریکی حمایت درکار ہے۔ اِس کے لیے پاکستان کو پہلے اپنے اندرونی حالات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
پاک امریکا تعلقات کا اندازہ ٹیرف مذاکرات کے بعد ہو گا؛ ایمبیسیڈر وحید احمدپاکستان کے سابق سفارتکار وحید احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک امریکا تعلقات کے بارے میں درست اندازہ تو امریکا کی جانب سے عائد کئے گئے ٹیرف پر مذاکرات کے بعد ہوگا لیکن ہمارے ورکنگ ریلیشن تو چلتے رہیں گے۔
مذکورہ وفد کے دورہ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امریکی نظام حکومت اِس طرح سے کام کرتا ہے کہ وہاں اراکین کانگریس کو بعض امور اور بعض ممالک کے بارےمیں پالیسی سازی کرنا ہوتی ہے، وہ اپنے حلقۂ انتخاب یا کانگریس میں کسی کمیٹی کی رکنیت کی وجہ سے مختلف ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ اُن کے دورے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں اور جہاں اُن کو مختلف ممالک میں جا کر وہاں کے اہم عہدیداران سے ملاقات کے بعد صورتحال کا اصل اندازہ ہوتا ہے۔
پاکستان کا دورہ، امریکی اراکین کانگریس کا ایک طرح سے تعارفی وزٹ تھا جس میں اُنہوں نے پاکستان کے اعلٰی حکام اور چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات بھی کی جس سے پاکستان کے بارے میں اُن کی سوجھ بوجھ میں یقیناً اضافہ ہوا ہو گا۔ ایمبیسیڈر وحید احمد نے کہا امریکی عہدیدار پاکستان کے اندرونی معاملات پر بات چیت نہیں کرتے مگر اُن کے ہاں لابیز ہیں اور بعض سیاستدان کسی ملک کے بارے میں غیر محتاط تبصرے کر بھی دیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر امریکی ٹیرف برقرار رہتا ہے تو اِس سے پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات بہت حد تک متاثر ہو سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہےکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے کو لے کر مذاکرات کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں۔
امریکی اراکین کانگریس کا دورہ خوش آئند تھا؛ علی سرور نقویسینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفارتکار علی سرور نقوی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ یہ اراکین کانگریس کا دورہ تھا اور اِس طرح کے دورے ہوتے رہتے ہیں۔ پہلے امریکی اراکین کانگریس کی پاکستان میں دلچسپی نہیں تھی لیکن اِس دورے سے ہمیں لگتا ہے کہ اُن کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ دوسرے وہ بہت مطمئن گئے ہیں اور امریکا واپسی پر اُنہوں نے بہت مثبت پیغامات دیے ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکی اراکین کانگریس کا یہ دورہ بہت خوش آئند تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی اراکین کانگریس دورہ پاکستان