شام: متحارب گروہوں میں لڑائی امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے شام کے شمال مغربی علاقوں میں انسانی امداد کی فراہمی میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں لڑائی اب بھی جاری ہے جہاں رسائی میں مشکلات حائل ہیں۔
ادارے کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ ترکیہ سے امدادی قافلوں کی شام کے شہر ادلب میں آمد جاری ہے۔
گزشتہ روز 1,000 میٹرک ٹن سے زیادہ خوراک، کمبل، شمسی لیمپ اور دیگر سامان لے کر 43 ٹرک علاقے میں داخل ہوئے۔ یہ امداد عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے بھیجی تھی۔رواں سال کے آغاز سے اب تک تقریباً 400 ٹرک امدادی سامان لے کر شام میں آ چکے ہیں جو گزشتہ سال اسی عرصہ کے مقابلے میں پانچ گنا بڑی تعداد ہے۔
(جاری ہے)
تعمیرنو اور بحالی کے اقداماتترجمان نے بتایا کہ امدادی ادارے ملک بھر میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیرنو اور ضروری خدمات کی بحالی کے لیےکام کر رہے ہیں۔ شمال مغربی علاقے میں گزشتہ ماہ سے 350 گھروں کی بحالی عمل میں آ چکی ہے جبکہ دمشق اور ملحقہ دیہی علاقوں میں 700 سے زیادہ لوگوں کواپنے گھروں کی تعمیرومرمت کے لیے مدد دی گئی ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران لاطاکیہ میں پانی کی فراہمی کے دو مراکز کو بحال کیا گیا ہے جس سے بڑی تعداد میں لوگوں کو صاف پانی میسر آیا ہے۔
جب اور جہاں سلامتی کے حالات اجازت دیں اور مالی وسائل میسر ہوں وہاں اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار لوگوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں تاہم امدادی وسائل کے مقابلے میں ضروریات بہت زیادہ ہیں۔حلب میں 34 تعلیمی و طبی سہولیات اور دیگر ضروری خدمات فراہم کرنے والی تنصیبات کو سخت نقصان پہنچا ہے یا وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں جنہیں فوری طور پر بحالی کی ضرورت ہے۔
امداد کی رسائی میں رکاوٹیںترجمان نے بتایا کہ شام کے متعدد علاقوں میں لڑائی اب بھی جاری ہے جہاں مسلح گروہ اپنا تسلط جمانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان حالات میں عام شہری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں امداد کی رسائی محدود ہو گئی ہے۔
مشرقی حلب میں تشرین ڈیم اور پانی کی فراہمی کے الخفسہ مرکز اور ملک کے جنوبی علاقوں میں لڑائی کے نتیجے میں انسانی نقصان کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ امدادی رسائی اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد ہیں۔
10 لاکھ پناہ گزینوں کی واپسیپناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے آغاز میں سابق صدر بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر شامی شہری اپنے علاقوں میں واپس آ گئے ہیں۔
ان میں 292,150 لوگوں نے شام کے ہمسایہ ممالک ترکیہ، لبنان، اردن، عراق اور مصر سے واپسی اختیار کی ہے۔
ان کے علاوہ اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے 829,490 لوگ بھی واپس آئے ہیں۔ ادارہ ایسے لوگوں کو قانونی مشاورت اور نقل وحمل میں مدد فراہم کر رہا ہے۔'یو این ایچ سی آر' نے بتایا ہے کہ ادارہ واپس آنے والے پناہ گزینوں کو زندگی بحال کرنے میں بھی مدد دے رہا ہے۔ شدید سردی کے مہینوں میں اور بجلی کی قلت کے پیش نظر لوگوں کو گرم کپڑے، پناہ گاہیں مرمت کرنے کا سامان اور دیگر امداد مہیا کی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علاقوں میں میں لڑائی نے بتایا لوگوں کو جاری ہے شام کے کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا.سعودی وزیر خارجہ
جدہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا عرب نشریاتی ادارے کے مطابق شہزادہ فیصل نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اسرائیلی حکومت پر دباﺅ ڈالنا چاہیے کہ وہ غزہ کو امداد کی فراہمی کی اجازت دے.(جاری ہے)
انطالیہ میں غزہ کی جنگ بندی کے بارے میں عرب اسلامی وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر نے کہا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو واضح طور پر مسترد کیا جاتا ہے، سعودی عرب جنگ بندی مذاکرات میں مصر اور قطر کی کوششوں کو سراہتا ہے اجلاس میں انکلیو میں ہونے والی پیش رفت کے ساتھ ساتھ فوری اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اجلاس میں فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے استعمال کے قابل بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا.
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے سے متعلق کسی بھی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں اس کا اطلاق ہر طرح کی نقل مکانی پر ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فلسطینیوں کی بعض اقسام کی روانگی کو رضاکارانہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آپ رضاکارانہ انخلا کی بات نہیں کر سکتے جب کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے. انہوں نے کہا کہ اگر امداد نہیں مل رہی ہے، اگر لوگوں کو کھانا، پانی یا بجلی نہیں مل رہی ہے اور اگر انہیں مسلسل فوجی بمباری کا خطرہ ہے تو یہاں تک کہ اگر کسی کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ رضاکارانہ انخلا نہیں ہے یہ جبر کا تسلسل ہے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی تجویز جس میں فلسطینیوں کی روانگی کو فریم کرنے کی کوشش کی گئی ہے یا جسے ان حالات میں رضاکارانہ انخلا کا موقع کہا جاتا ہے محض حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے. انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی وضاحت جاری رکھنی چاہیے لگاتار کام کرنا چاہیے اور امید ہے کہ یہ پیغام سب کے لیے واضح ہو گا خاص طور پر اس ایکشن پلان کے فریم ورک کے اندر جس پر ہم نے آج کمیٹی میں اتفاق کیا ہے سعودی وزیر خارجہ نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی جن میں یہودی بستیوں کی توسیع، گھروں کو مسمار کرنا اور زمین پر قبضہ شامل ہے.