ملکی معیشت درست سمت میں چل پڑی، کرنسی مستحکم اور مہنگائی کم ہوئی ہے: وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن) وفاقی وزیر خزانہ و سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت درست سمت میں چل پڑی ہے، پی آئی اے کی نجکاری دوسری بار کی جا رہی ہے جبکہ کرپٹو کرنسی کیلئے کونسل بنانے پر مشاورت جاری ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستان استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے، کرنسی مستحکم، مہنگائی کم اور فارن ایکسچینج ٹھیک ہو رہے ہیں، معیشت کو کیسے آگے لایا جائے اس پر مشاورت جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے تجاویز زیرغور ہیں، آنے والے بجٹ سے پہلے مشاورت کیلئے خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں کے دورے کر رہے ہیں۔
اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش کی پیشگوئی
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایئرلائنز (پی آئی اے) دوبارہ ری لانچ ہو رہی ہے، یورپ کے روٹس کھل گئے ہیں، یو کے روٹس کو بھی جلد کھولا جائے گا، پی آئی اے کی دوسری بار ری لانچنگ سے بہترنتائج سامنے آئیں گے، امریکا سے آئے مشیروں سے ملاقات کی ہے، کرپٹو کرنسی کیلئے کرپٹو کونسل بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مربوط طریقے سے کرپٹو کرنسی کی ڈیجیٹائزیشن اور دیگر امور پر مشاورت جاری ہے، 20 سے 22 ملین لوگ کرپٹو کرنسی سے وابستہ ہیں، کرپٹو کرنسی میں 20 سے 25 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، اگراتنی بڑی رقم کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے تو اس کو ریگولیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کو 6 سال مکمل، عسکری قیادت کا مسلح افواج کو خراج تحسین
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا ایک وفد تکنیکی مشن پر پاکستان آیا ہے، کلائمیٹ سے متعلق فنڈز کے معاملات یہ وفد دیکھے گا، 6 مہینوں کے ریویو کیلئے اگلے مہینے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ رہا ہے، امید ہے کہ یہ ریویو ٹھیک جائے گا۔
محمد اورنگزیب نے مزید بتایا کہ پاکستان آئی ایف ایم کی شرائط پر پورا اترچکا ہوگا اور پاکستان میں بہتری آئے گی۔
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کرپٹو کرنسی کہ پاکستان
پڑھیں:
وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے ریلیف
وفاقی بجٹ کی تیاری کے دوران حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو بڑی خوشخبری سناتے ہوئے ریلیف دینے کا عندیہ دیا ہے اور بجلی کے نرخوں میں مزید کمی پر بھی کام جاری ہے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اعلان کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کیلئے مکمل پلان تیار کر لیا گیا ہے جسے آئی ایم ایف کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے گا جبکہ بجلی کے بلوں میں کمی جولائی سے قبل ممکن بنانے کی کوشش جاری ہے اس حوالے سے آئی ایم ایف سے مشاورت کا عمل بھی جاری ہے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے تمام اہداف مکمل کر لیے گئے ہیں اور کچھ اہداف میں معمولی تاخیر ضرور ہوئی تھی لیکن ان پر بھی کام مکمل کر لیا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ مئی میں آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری متوقع ہے جس کے بعد پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے ساتھ ساتھ کلائمیٹ فنانسنگ کے تحت بھی فنڈز موصول ہوں گے بجٹ کی تیاری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ سرکاری اور نجی شعبے سے اٹھانوے فیصد تجاویز موصول ہو چکی ہیں جن پر مشترکہ طور پر کام کیا جا رہا ہے بجٹ کو اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل تمام متعلقہ شعبوں کو یہ بتا دیا جائے گا کہ کن تجاویز پر عمل ممکن ہوگا اور جن پر عمل نہیں ہو سکے گا ان کی وجوہات بھی واضح کر دی جائیں گی یکم جولائی سے نیا بجٹ حتمی شکل میں نافذ کر دیا جائے گا اور اس کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی تاکہ فوری عمل درآمد ممکن بنایا جا سکے وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ تاجر برادری سے ٹیکس وصولی میں بہتری آئی ہے تاہم تاجر دوست اسکیم کو ٹیکس وصولی سے نہ جوڑا جائے ایک آسان ٹیکس فارم تیار کیا جا رہا ہے جو ہر شہری خود بھی بھر سکے گا ٹیکس پالیسی اب وزارت خزانہ کے ماتحت کام کرے گی تاکہ شفافیت اور آسانی کو یقینی بنایا جا سکے دوسری جانب وزارت خزانہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ سے قبل وفاقی ترقیاتی پروگرام پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے ذرائع کے مطابق مالی سال پچیس چوبیس کے آڈٹ اعتراضات سے بچنے کے لیے سرنڈر آرڈرز کے ذریعے پی ایس ڈی پی سے زائد فنڈز واپس مانگ لیے گئے ہیں وزارت خزانہ نے اس فیصلے سے تمام وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز کو آگاہ کر دیا ہے یاد رہے کہ رواں مالی سال کے آغاز میں چودہ سو ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ منظور کیا گیا تھا جس کی بنیاد پر وزارتوں اور ڈویژنز نے اپنی اسکیمز اور گرانٹس جمع کروائیں لیکن بعد ازاں پی ایس ڈی پی کو گیارہ سو ارب روپے تک محدود کر دیا گیا اب اس نظرثانی شدہ بجٹ سے زائد فنڈز کی ایڈجسٹمنٹ یا واپسی کی جائے گی حکومت آئندہ بجٹ کی تیاری بھی آئی ایم ایف کی مشاورت سے مکمل کر رہی ہے تاکہ تمام مالیاتی اہداف اور بین الاقوامی تقاضے پورے کیے جا سکیں