مصطفیٰ عامر قتل کیس، کیا ارمغان بھی منظر سے غائب ہونے کے بعد بری ہوجائے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر میں جرائم بھی بڑے نوعیت کے ہوا کرتے ہیں، جب بھی کوئی جرم سامنے آتا ہے تو وہ عام شہریوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، ایسا ہی ایک کیس مصطفیٰ عامر قتل کیس ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا۔
اس سے قبل آپ کو یاد ہو گا ایک کیس نتاشا نامی خاتون کا بھی سامنے آیا تھا وہ بھی نشے سے جڑا کیس تھا اور یہ بھی، کیا نتاشا کی طرح ارمغان کو بھی ہم سب بھول جائیں گے؟
یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ قتل کیس: منشیات کی خریدوفروخت میں بین الاقوامی ڈرگ چین کے ملوث ہونے کا انکشاف
مصطفیٰ کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ارمغان اس وقت تحویل میں ہے اور ارمغان سے جڑے دیگر کرداروں کی اگر بات کی جائے تو سب سے پہلے شیراز ہے، جس نے اس پورے کیس سے پردہ ہٹایا اور پولیس کے ساتھ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا، اس کے بعد ساحر حسن منظر عام پر آتے ہیں اور انکشافات کا ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔
بظاہر ایک کیس لگنے ولا یہ معاملہ اپنے اندر 4 مختلف جرائم لیے بیٹھا ہے۔ سب سے پہلے تو ایک شہری کا قتل ہوا، دوسرا منشیات کا بہت بڑا دھندا بے نقاب ہوا، تیسری بات یہ کہ کال سینٹر کی آڑ میں غیر قانونی دھندا چل رہا تھا اور چوتھی ڈیفنس جیسے علاقے میں جدید اسلحہ کی موجودگی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کا گھر خالی کروایا جائے، پڑوسیوں کا متعلقہ حکام کو خط
اگر تو یہ کیس الگ الگ زاویوں سے دیکھا جائے اور اس کی تحقیقات بھی اسی پیمانے پر ہونا شروع ہوجاتی ہیں تو شاید بہت کچھ سامنے آجاتا اور کتھیاں سلجھنا بھی شروع ہو جاتیں لیکن یہ کیا کہ ایک قتل کے عینی شاہد اور چشمدید گواہ کا بیان ٹی وی پر چلا دیا گیا؟
آپ نے بہت سے اعترافی ویڈیو بیان دیکھے ہوں گے یا سنے ہوں گے لیکن کیا کبھی سوچا کہ ان بیانات کے بعد ان کی اہمیت کیا رہی ہوگی؟ یا ان بیانات کے نتائج کیا نکلے ہوں گے؟ کیوں کہ میڈیا پر چلنے والے اعترافی بیانات کی بھر مار سے تو لگتا ہے کہ مجرم کو اگلے روز پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے والے جج سے انتظامی اختیارات واپس لیے گئے
ایسا اس لیے نہیں ہوتا کیوں کہ ہر کیس کا ایک رخ وہ ہوتا ہے جو دِکھایا جاتا ہے جبکہ دوسرا پہلو وہ جو اصل ہوتا ہے، جو دستاویزات پر مشتمل ہوتا ہے اور قانونی شکل میں مکمل کیا جاتا ہے لیکن اب تک شیراز کا تہلکہ خیز اعترافی بیان میڈیا پر تو چل رہا ہے، لیکن عدالت میں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں کیوں کہ اس بیان کے لیے عدالت سے ابھی تک رجوع ہی نہیں کیا گیا۔
کوئی بھی مجرم یا گواہ سب سے پہلے انکشاف پولیس کے سامنے کرتا ہے اس کے بعد پولیس کا کام ہے کہ فوری طور پر عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیان قلمبند کرنے لیے درخواست دائر کرے تاکہ مجسٹریٹ کے روبرو اس اعترافی بیان کو قلمبند کیا جائے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ملزم کے بیان کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس: شریک ملزم شیراز کے سنسنی خیز انکشافات
لیکن مصطفیٰ کیس میں تو اب تک پولیس نے عدالت میں ایسی کوئی درخواست نہیں دی، تو عین ممکن ہے کہ اب تک میڈیا پر چلنے والے بیانات کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل جائے جب انکشافات کرنے والوں کو عدالت کے روبرو بیان کے لیے پیش کیا جائے اور وہ یہ کہہ دیں کہ ہمارا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میڈیا پر چلنے والے بیان سے ہمارا کوئی تعلق ہے یا ملزم عدالت میں یہ مؤقف بھی دے سکتے ہیں کہ وہ بیان ان سے زبردستی لیا گیا ہے۔
جی ہاں ایسا پہلے ہوچکا ہے اور پولیس کی جانب سے ایک لمحہ تاخیر کیس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ارمغان بیان پولیس عدالت کراچی گواہ مصطفیٰ قتل کیس نتاشا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیان پولیس عدالت کراچی گواہ مصطفی قتل کیس نتاشا عامر قتل کیس عدالت میں میڈیا پر ہے اور کے بعد
پڑھیں:
مصطفی عامر قتل کے بعد خوف و ہراس کا شکار ڈیفنس کے رہائشیوں کا ڈی جی رینجرز سمیت اعلی حکام کو خط
مصطفی عامر قتل کے بعد ڈیفنس کے رہائشیوں نے ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور اسٹیشن کمانڈر ڈی ایچ اے کرچی سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو خط ارسال کردیا۔
رپورٹ کے مطابق خط مین ڈی ایچ اے رولز کی خلاف ورزی پر ارمغان کے والد کامران اصغر قریشی کیخلاف کارروائی اور ارمغان کے زیر استعمال بنگلہ نمبر35کے اصل مالک کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط کے متن کے مطابق حالیہ واقعات کی وجہ سے ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کو سیکیورٹی خدشات لاحق ہوگئے ہیں، ارمغان کے والد کامران اصغر قریشی سے بھی بنگلے کو خالی کروایا جائے۔
اس میں کہا گیا کہ ارمغان کے زیر استعمال بنگلے سے متعدد مرتبہ ہوائی فائرنگ کے واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے علاقے میں خوف کی فضا پیداہوئی، 2023سے2024کے دوران بنگلے میں غیر قانونی طور پر شیروں کو بھی رکھا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ ارمغان قریشی 100پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ رکھتا تھا، ارمغان اپنے گارڈز کے ذریعے خواتین اور گھریلو ملازمین کو ہراساں کرنے میں بھی ملوث ہے، 8 فروری کو بنگلے میں ارمغان اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کی وجہ سے دیگر رہائشی گھروں میں محصور ہوگئے تھے۔
ڈی ایچ اے کے رہائشیوں نے ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور اسٹیشن کمانڈر ڈی ایچ اے سمیت دیگر کو خط ارسال کردیا۔