Express News:
2025-04-16@22:56:07 GMT

نارمل ملک

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ دوست ہوتے تھے شیخ عبدالحفیظ‘ میں انھیں بابا جی کہا کرتا تھا‘ وہ رمل کے ساتھ ساتھ زندگی کے بھی ماہراعظم تھے‘ شیخ صاحب نے زندگی کے ہر موڑ پر میری رہنمائی کی‘ وہ انتقال کر گئے ہیں لیکن میں روزانہ سونے سے قبل ان کے لیے دعا کرتا ہوں‘ حکیم بابر کو شیخ حفیظ صاحب میرے پاس لے کر آئے تھے‘ میں ٹھیک ٹھاک مردم بیزار ہوں‘ میری کوشش ہوتی ہے میں کسی کو اپنے قریب نہ ٹکنے دوں‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ اول میں نے زندگی کو غیرضروری مصروف کر رکھا ہے۔

 صبح سے لے کر رات دو بجے تک مصروفیت چلتی ہے لہٰذا اتنی مصروفیت میں نیا تعلق بنانا اور نبھانا دونوں مشکل ہو جاتا ہے اور دوم ہر انسان کے تعلقات کی ایک کیپسٹی ہوتی ہے‘ آپ فرض کریں آپ کے پاس پانچ سیٹس کی گاڑی ہے‘ آپ اس کار میں زیادہ سے زیادہ کتنے لوگ بٹھا لیں گے؟ آپ بہت بڑا تیر چلا لیں تو بھی آپ گاڑی میں چھ سے زیادہ لوگ نہیں ٹھونس سکیں گے‘ تعلقات کی گاڑی کی بھی لمٹ ہوتی ہے اگر سیٹیں پہلے سے فل ہیں تو پھر آپ نئے لوگوں کے لیے گنجائش کیسے پیدا کریں گے؟ میرے تعلقات کی گاڑی بھی مدت پہلے فل ہو گئی تھی‘ اس میں نئے لوگوں کی سپیس موجود نہیں اورآخری بات میری عمر پچاس سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور اس عمر میں تعلقات بنائے نہیں جاتے ان سے جان چھڑائی جاتی ہے چناں چہ میں نے حکیم بابر سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن میری تمام کوششیں ناکام ہو گئیں‘ یہ دروازے کے ساتھ لٹکا رہا لہٰذا میں ہمت ہار گیا اور یہ اب گاڑی کے اندربیٹھا ہے‘ حکیم صاحب ہمارے ٹور میںبھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔

 یہ تیسری مرتبہ ہمارے ساتھ ازبکستان گئے‘ ہم بخارہ شہر پہنچے تو حکیم صاحب نے کاسٹیوم کی دکان سے بادشاہ کا لباس‘ تاج اور تلوار کرائے پر لے لی اور بادشاہ بن کر بخارہ کے مینار کے نیچے کھڑے ہو گئے‘ حکیم صاحب کی ناف تک سفید داڑھی ہے‘ لوگ اتنی لمبی داڑھی کا بادشاہ دیکھ کر ٹھٹک گئے اور دھڑا دھڑ ان کے ساتھ تصویریں بنوانے لگے‘ میں انھیں ساتھ لے کر آہستہ آہستہ بخارا کی گلیوں میں گھومنے لگا‘ ہم جب بخارہ کے قدیم حمام کے قریب پہنچے تو ہمیں فون آ گیا کاسٹیوم کے مالک نے پولیس بلا لی ہے‘ ہم نے وجہ پوچھی تو دکان دار نے بتایا‘ ازبکستان میں کوئی شخص چاقو یا چھری لے کر بھی گھر سے باہر نہیں جا سکتا جب کہ آپ لوگ پوری تلوار لے کر سڑک پر گھوم رہے ہیں‘ یہ قانوناً جرم ہے چناں چہ فوراً واپس آئیں اور تلوار جمع کرائیں ورنہ پولیس کیس بن جائے گا‘ ہم فوراً واپس پلٹے‘ دکان دار سے معذرت کی اور اس کی تلوار اور کاسٹیوم واپس کر دیا۔

ہمارے گروپ کے لیے یہ تجربہ حیران کن تھا‘ دوسرا تجربہ اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا‘ ازبک لوگ مذہبی ہیں‘ یہ تلاوت بھی کرتے ہیں اور نماز بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر ریستوران میں ڈانسنگ فلور تھا‘ ڈنر کے وقت ریستوران میں ڈی جے میوزک بجاتا تھا اور خواتین اور مرد کھڑے ہو کر ڈانسنگ فلور پر ڈانس کرتے ہیں‘ ریستورانوں میں بیلی ڈانس بھی معمول ہے تاہم آپ کو سڑکوں‘ چوکوں اور چوراہوں میں ڈانس اور میوزک کی آواز نہیں آتی‘ سوسائٹی باہر سے مکمل پرامن ہے‘ یہ ملک ایک سائیڈ سے پورا مذہبی ہے‘ حکومت پرانی مسجدوں کو بحال کرتی چلی جا رہی ہے‘ تاشقند کی ایک مسجدکی چھت پر سونے سے پورا قرآن مجید تحریر ہے اور یہ کارنامہ روس کے ایک ازبک ارب پتی تاجر نے سرانجام دیا‘ ہمارے پورے ملک میں ایک بھی ایسی مسجد نہیں جس میں سونے سے پورا قرآن مجید تحریر ہو‘ ازبک حکومت پرانے مدارس کو بھی ایکٹو کر رہی ہے۔

 ان میں باقاعدہ مذہبی تعلیم دی جاتی ہے اور نوجوان مفتی بننے کے بعد درس وتدریس کرتے ہیں اور مساجد میں امامت کے فرائض بھی نبھاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ازبکستان میں ڈسکوز بھی ہیں‘ پبز بھی اور شراب کی دکانیں بھی تاہم کوئی شخص سڑک یا عوامی مقام پر شراب نوشی نہیں کر سکتا‘ ملک میں جس طرح عبادت صرف عبادت خانوں یا گھروں پر کی جا سکتی ہے بالکل اسی طرح شراب نوشی بھی ریستوران‘ پب یا گھر میں ہو سکتی ہے‘ سڑک یا عوامی مقامات پر شراب نوشی پر پابندی ہے‘ آپ کو سڑکوں پر فوجی گاڑیاں یا پولیس بھی دکھائی نہیں دیتی لیکن اس کے باجود ٹریفک قوانین کی مکمل پابندی کی جاتی ہے‘ ٹریفک سگنل اور زیبرا کراسنگ سے پندرہ فٹ کے فاصلے پر سڑک پر سفید لائنیں لگی ہیں‘ تمام گاڑیاں ان لائنوں سے پیچھے رکتی ہیں چناں چہ سگنل اور زیبرا کراسنگ دائیں اور بائیں دونوں جانب سے پندرہ پندرہ فٹ خالی ملتی ہے تاکہ کراس کرنے والے لوگ اطمینان سے سڑک کراس کر سکیں۔

 گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو‘ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کیا یہ لوگ اچھے مسلمان ہیں؟ یہ سو فیصد اچھے اور کھرے مسلمان ہیں‘ صفائی اگر نصف ایمان ہے تو آپ کو پورے ازبکستان میں سو فیصد صفائی ملے گی‘ ہمیں کسی موڑ‘ چوک یا گلی میں کچرا نظر نہیں آیا اور اگر اخلاق‘ عاجزی‘ مروت‘ مہمان نوازی اور ایمان داری بھی ایمان ہیں تو پھر آپ کو ازبکستان میں یہ تمام عناصر بھی پوری طاقت کے ساتھ ملتے ہیں‘ پیچھے رہ گئی شراب اور ڈانس تو یہ لوگوں کے ذاتی فعل ہیں اور کسی کو کسی کے کسی بھی ذاتی فعل پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا‘ کوئی کسی کو کم یا زیادہ مسلمان ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتا‘ تمام عوام قانون‘ روایات اور اخلاقیات کی پابندی کرتے ہیں اور بس لہٰذا ہم ازبکستان کو ایک نارمل سوسائٹی کہہ سکتے ہیں‘ ایک ایسی نارمل سوسائٹی جس میں عبادت اور رقص دونوں سہولتیں دستیاب ہیں‘لوگ جو راستہ اختیار کرنا چاہیں انھیں مکمل آزادی حاصل ہے جب کہ ہم اوپر سے لے کر نیچے تک ایک ابنارمل سوسائٹی ہیں۔

ہم ایک سائیڈ پر مذہب کے نام پر لوگوں کو جلا دیتے ہیں‘ حروف تہجی کی قمیض پہننے پر خاتون کو بازار میں یرغمال بنا لیتے ہیں‘ گورنر سلمان تاثیر کو گولی مار دیتے ہیں جب کہ دوسری طرف پاکستان کی شراب ایوارڈ حاصل کرتی ہے‘ ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن دوسری طرف اداکار ساجد حسن کا بیٹا ساحر حسن کورئیر کمپنیوں کے ذریعے ہر ماہ اڑھائی کلو ویڈ منگواتا تھا اور یہ اسے دس ہزار روپے فی گرام کے حساب سے فروخت کرتا ہے‘ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چرسی اور ہیرونچی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں‘ آپ کسی شہر میں چلے جائیں آپ کو وہاں جہاز ملیں گے اور ان جہازوں کو روزانہ کی بنیاد پر نشہ بھی دستیاب ہو گا‘ ہمارے ملک میں مذہبی تہوار اتنے جوش اور جذبے سے منائے جاتے ہیں کہ حکومت انٹرنیٹ‘ فون اور سڑکیں بند کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے ایمانی کا یہ عالم ہے لوگ جعلی آب زم زم بیچتے ہیں‘ خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کرتے ہیں اور آپ کو پورے ملک میں خالص دودھ‘ دہی اور گھی نہیں ملتا‘ گوشت اور مرغی کی کوالٹی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ ہم ایک سائیڈ پر ماتھے پر محراب کا نشان بنوا لیتے ہیں اور دوسری سائیڈ پر ہم بھکاریوں کو سعودی عرب اور دوبئی بھجوا دیتے ہیں اور یہ وہاں مانگ مانگ کر ملک کا نام روشن کرتے ہیں‘ ہمارے تمام ائیرپورٹس سے روزانہ ہیومین اسمگلرز اور اسمگلر منشیات کے ساتھ پکڑے جاتے ہیں۔

 ہماری عدالتیں اورجج عوام کو انصاف دینے کے بجائے ایک دوسرے کو خط لکھتے رہتے ہیں‘ پولیس جرائم کنٹرول کرنے کے بجائے اپوزیشن کو ڈنڈا ڈولی کرتی ہے اور فوج سرحدوں کی حفاظت کے بجائے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کنٹرول کر رہی ہے اور پیچھے رہ گئی حکومت تو یہ ترقیاتی کاموں کے بجائے فارم 47 کی دھوتی سنبھال کر بیٹھی ہے چناں چہ آپ اس ملک میں کوئی ایک چیز نارمل دکھا دیں‘ پورے ملک میں نماز کے وقت آدھ آدھ گھنٹہ اذان کی آواز آتی ہے اور دوسری طرف پاکستان گندی فلمیں اور گندے کلپس دیکھنے میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ وزیراعظم ہر تین سال بعد اپنے باس کا انتخاب کرتا ہے اور پھر ون پیج پر فخر کرتا ہے‘ کیا یہ رویے نارمل ہیں!کیا ہم ایک نارمل ملک ہیں؟ ہم اگر واقعی آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو نارمل کرنا ہو گا‘ ملک کو بھی دوسرے نارمل ملکوں کی طرح ایک نارمل ملک بنانا ہو گا‘ اداروں کا جو کام ہے انھیں اس کام پر لگانا ہو گا‘ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔

 اسے بیانیے کی جنگ سے نکال کر سرحدوں پر لگانا ہو گا‘ الیکشن کمیشن کا کام الیکشن کرانا ہے‘ اس سے فری اینڈ ٹرانسپیرنٹ الیکشن کا کام لینا ہو گا‘ پولیس کا کام جلسے اور جلوس روکنا نہیں‘ اسے اس کام سے نکال کر جرائم کنٹرول کی طرف واپس لانا ہو گا اور عدالتوں کا کام انصاف دینا ہے ہمیں ان سے بھی صرف یہی کام لینا ہو گا‘ مرضی کی عدالت اور مرضی کے ججوں کا کھیل اب اس ملک میں بند ہونا چاہیے اور شہروں کی صفائی ستھرائی اور انتظام وانصرام بلدیاتی اداروں کی ذمے داری ہے‘ ہمیں ایک ہی بار یہ ادارے بنا کر انھیں یہ اختیار بھی دینا ہو گا‘ حکومتیں اور ادارے پوری دنیا میں ون پیج ہوتے ہیں۔

 ہمیں اس بخارسے بھی آزاد ہونا ہو گا اور عوام کو کیسے زندگی گزارنی چاہیے لوگ کرکٹ کھیلیں گے یا ڈانس کریں گے یا پوری پوری رات مسجدوں میں گزاریں گے یہ فیصلہ بھی لوگوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے‘ ریاست یا معاشرے کو اس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے اور دوسرا ملک میں اسلحے کی نمائش پر مکمل پابندی ہونی چاہیے‘ عوامی اسلحے پر بھی اور سرکاری اسلحے پر بھی‘ آپ کو اس وقت مسجد سے لے کر سپریم کورٹ تک ہر عمارت کے سامنے مسلح گارڈز نظر آتے ہیں‘ کیا یہ رویہ نارمل ہے؟ ہرگز نہیں چناں چہ اس ملک کا سب سے بڑا چیلنج نارمل ملک دکھائی دینا ہے‘ ہم نے جس دن اسے نارمل ملکوں جیسا نارمل بنا لیا اس دن یہ ملک‘ ملک بھی بن جائے گا اور یہ ترقی بھی کر جائے گا ورنہ یہ ابنارمیلٹی ہمیں دلدل میں گری بس کی طرح آہستہ آہستہ نگلتی چلی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ازبکستان میں پورے ملک میں کرتے ہیں اور لیکن اس کے نارمل ملک کے بجائے چناں چہ کے ساتھ جاتی ہے کا کام ہے اور سے بھی اور یہ

پڑھیں:

چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے

چین کی مصنوعی ذہانت میں تیز رفتار ترقی نہ صرف اس کے اندرونی منظرنامے کو بدل رہی ہے، بلکہ عالمی اختراعی نمونوں کو بھی نئے سرے سے متعین کر رہی ہے۔

کھلے تعاون اور اخلاقی حکمرانی کو ترجیح دیتے ہوئے، چین مصنوعی ذہانت کو ایک مشترکہ عالمی وسائل کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اس کو صرف ٹیک اشرافیہ کیلئے آلہ کار نہیں بننے دے رہا، یعنی یہ ٹیکنالوجی صرف خواص نہیں بلکہ عوام کیلئے ہے۔

چین کا یہی نقطہ نظر جغرافیائی سیاسی مقابلے کی روایات کو چیلنج کرتا ہے، اور اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے  دنیا کیلئے ایک ایسا خاکہ پیش کر رہا ہے کہ جس میں  ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کانظام عدم مساوات کو دور کر سکتا ہے۔

عوامی رسائی: واقعی  مصنوعی ذہانت تک  پیدا ہونے والی  رکاوٹوں کو توڑتی ہے

چین کا  مصنوعی ذہانت کے فریم ورک پر زور ترقی پذیر ممالک کے لیے رکاوٹوں کو ختم کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت میں Alibaba اور  DeepSeek جیسی کمپنیاں اپنے جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو مفت ڈاؤن لوڈ کے لیے پیش کر رہی ہیں، جو ڈویلپرز کو API فیس ادا کیے بغیر مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

پاکستانی قارئین کیلئے اگر صرف  اُردو کے ترجمے کی بات کی جائے تو Deep Seek  چیٹ جی پی ٹی کی نسبت بہتر مترجم ہے اور ساتھ یہ کہ شاعری کو بھی سمجھتی ہے اور استعمال میں بھی بالکل آسان ہے۔

اس کے علاوہ چین کی مصنوعی ذہانت پر مبنی حل ترقی پذیر آبادیوں کو ٹیکنالوجی کی رکاوٹوں کو توڑنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اس کی ایک مثال Huawei کی TrackAI مہم ہے، جو بچوں میں بینائی کی خرابیوں کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت سے چلنے والی آنکھوں کی ٹریکنگ الگورتھم کا استعمال کرتا ہے۔

اخلاقی حکمرانی: عالمی مصنوعی ذہانت کے ضوابط کے لیے ایک درمیانی راستہ

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر بحث شدت اختیار کر رہی ہے، تو  اس حوالے سے چین نے 2023 کے جنریٹو مصنوعی ذہانت کی حوالے سے عارضی ضوابط  کا ایک “ڈیٹا ڈی سنسٹائزیشن گریڈنگ سسٹم” متعارف کرایا، جو رازداری کے تحفظ اور اختراعی ترغیبات کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہ ضوابط مختلف نقطہ ہائے نظر کے درمیان ایک ممکنہ پل فراہم کرتے ہیں۔

EU کے GDPR – جو سخت ڈیٹا پابندیاں عائد کرتا ہے – یا Silicon Valley کی خود ضابطہ کاری کی ترجیح کے برعکس، چین کا فریم ورک ڈیٹا کی حساسیت کے حوالے سے مختلف سطحوں پر درجہ بندی کرتا ہے۔ جس سے ترقی کو روکے بغیر حسب ضرورت تحفظات کی اجازت ملتی ہے۔

یہ عملی ماڈل جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطی جیسے خطوں میں توجہ حاصل کر چکا ہے، جہاں پالیسی ساز مصنوعی ذہانت کی صنعتوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ غلط استعمال کے بارے میں عوامی خدشات کو دور کرنا چاہتے ہیں۔

قابل توسیع حکمرانی کے فریم ورک کو آزماتے ہوئے، چین عالمی معیارات کو متاثر کر رہا ہے، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ اخلاقی مصنوعی ذہانت تیز رفتار  کے ساتھ بقاء پا سکتی ہے۔

“لانگ ٹیل” کو بااختیار بنانا: چھوٹے کاروباروں اور ترقی پذیر منڈیوں کے لیے مصنوعی ذہانت

چینی مصنوعی ذہانت کے ٹولز چھوٹے پیمانے کی معیشتوں کو نئی زندگی دے رہے ہیں، جنہیں روایتی ٹیکنالوجی اکثر نظر انداز کر دیتی ہے۔

 Alibaba کے AliExpress جیسے کراس بارڈر ای کامرس پلیٹ فارمز اب مصنوعی ذہانت سے چلنے والے مارکیٹنگ ٹولز کو شامل کرتے ہیں، جو لاطینی امریکہ اور جنوبی ایشیا کے چھوٹے کاروباریوں کو قیمتوں کا تعین، ترجمہ اور گاہک کے ساتھ تعامل کو بہتر بنانے کے قابل بناتے ہیں۔

ویڈیو گیم تخلیق کار اب Tencent کے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے متن یا تصاویر سے براہ راست 3D اشیا تیار کر سکتے ہیں، جو آزاد ڈویلپرز کو ان کے خواب کی دنیا کو حقیقت بنانے اور تجارتی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

چین کا موبائل میں مصنوعی ذہانت  کا بڑھتا استعمال اور فروخت میں اضافہ

چینی میڈیا پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں عالمی سطح پر موبائل فون کی فروخت میں شیاؤمی صرف ایپل اور سام سنگ سے پیچھے تھا۔

جہاں ایپل کا مارکیٹ کا تقریبا 19 فیصد حصہ تھا اور سام سنگ 18 فیصد کے قریب تھا، وہیں شیاؤمی 14 فیصد تک بڑھ گیا۔ ہواوے اور ویوو نے بھی پچھلے سال چین میں اپیل کے مقابلے میں زیادہ فون فروخت کیے۔ اس کی ایک وجہ ان فونز میں مصنوعی ذہانت کو شامل کرنا ہے، چینی کمپنیاں اس طرف بہت زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔

چین تعلیم کے شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بھرپور کام کر رہا ہے

چین  مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سوچ کر بڑھ کر کا م کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی تعلیم کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ، چینی یونیورسٹیاں صنعتوں اور کمپنیوں کے ساتھ تعاون پر بھی بہت زور دیتی ہیں۔

مثال کے طور پر، مشرقی چین کے صوبہ جیانگسو کی نانجنگ یونیورسٹی نے بائیڈو اور ہواوے جیسی معروف ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے تاکہ AI پر مبنی تدریس اور تشخیص کو سپورٹ کرنے والے ذیلی ٹولز تیار کیے جا سکیں۔

اسی طرح، چین کے جنوب مغربی صوبہ سیچوان میں واقع چینگڈو کی ساؤتھ ویسٹ جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی نے ایمیزون، جے ڈی ڈاٹ کام اور دیگر کمپنیوں کے ساتھ شراکت کر کے AI کورسز ڈیزائن کیے ہیں تاکہ طلباء کے عملی ہنر کو بڑھایا جا سکے۔

یونیورسٹی نے انڈرگریجویٹ سے ڈاکٹریٹ سطح تک مصنوعی ذہانت کے لیے اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی تربیت کا نظام بھی قائم کیا ہے۔

جنوری میں چین کے تعلیمی شعبے کے طویل المدت وژن کو ایک ماسٹر پلان کے اجرا کے ذریعے مزید تقویت ملی، جس میں 2035 تک چین کو تعلیم کے میدان میں ایک اعلیٰ قوم بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

چین کے وزیر تعلیم ہوائی جن پینگ نے کہا، “ڈیپ سیک اور روبوٹکس چین کی ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت اور صلاحیتوں کی تربیت میں کامیابیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ یہ ہماری تعلیمی ترقی اور صلاحیتوں کی تربیت پر نئی ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں۔”

آن لائن بھرتی کے پلیٹ فارم ژاؤپن کے ایک سروے کے مطابق، فروری میں ڈرون انجینئرز، الگورتھم انجینئرز اور مشین لرننگ کی نوکریوں میں تقریباً 40 فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔

صنعتی رپورٹس کے مطابق، 2030 تک چین میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین کی 4 ملین کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ضرورت واضح ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا  افرادی صلاحیتوں کی تربیت اور صنعتی ضروریات کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کی تحقیق کو کمپنیوں کی ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھانے کا اہم ذریعہ  فراہم کرے گا۔

چینی وزیر تعلیم ہوائی نے کہا کہ “کسی بھی ملک کی اعلیٰ تعلیم قومی حکمت عملی کا ایک قیمتی سرمایہ ہے،”  مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں کو قومی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

چین مصنوعی ذہانت

متعلقہ مضامین

  • ’عمران خان کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا‘، 9 مئی واقعات کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والے محمود خان پھر سامنے آگئے
  • احفاظ الرحمن ایوارڈ اور میرا عہد
  • پی ٹی آئی میں گروپنگ نہیں البتہ اختلاف رائے ضرور ہے، بیرسٹر گوہر
  • ’ہانیہ عامر کو نہیں جانتی‘، اداکارہ نعیمہ بٹ
  • کپتان سے سیکھی کپتانیاں اب اس کے ساتھ ہی ہو رہی ہیں
  • امریکی وفد سے ملاقات کے حوالے سے میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا، بیرسٹر گوہر
  • فلسطینی عوام یمن کے باوقار موقف کو کبھی فراموش نہیں کرینگے، ابوعبیدہ
  • چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے
  • ایران کے ساتھ بات چیت کا انعقاد مفید، پر سکون اور مثبت فضا میں ہوا. صدرٹرمپ
  • وطن کے مرکزی خیال کے ساتھ نئے بنگلہ سال کی تقریبات کا آغاز