ڈاکٹر حفیظ پاشا، سابق وزیر خزانہ ہیں، وہ بنیادی طور پر معیشت کے استاد اور محقق ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا مسلسل پاکستانی معیشت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحقیق میں مصروف رہے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے گزشتہ دنوں شایع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالوں میں معیشت کی بہتری کے دعوؤں کا پردہ فاش کیا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت کا پیمانہ مسلسل وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اس وقت آبادی کا 44 فیصد حصہ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اس وقت یہ تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کو درپیش معاشی بحران کی بناء پر خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ ایک اور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے اپنے آرٹیکل میں تحریرکیا ہے کہ اگرچہ اس وقت افراطِ زرکی شرح 3 فیصد کے قریب ہے مگر اس کے باوجود بنیادی اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہوئیں اور بعض اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے بارے میں بھی اپنے آرٹیکل میں تحریرکیا ہے ۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا تخمینہ ہے کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 9 فیصد کے قریب ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مزدوروں کی گزشتہ 3 برسوں کے دوران مزدوری کی حقیقی اجرت میں تقریباً 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی تحقیق میں ایک خطرناک عنصرکا خاص طور پر ذکرکیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کی 1972ء میں سیکنڈری اسکولز میں جانے والے طلبہ کی جو تعداد تھی وہ تعداد اس وقت پاکستان میں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کی شرح وہی ہے جو 1973میں جنوبی کوریا کی تھی۔ یہ دور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ پاکستان اس میدان میں جنوبی کوریا سے چار دہائی پیچھے ہے۔
اسی طرح اسٹیٹ بینک کی مختلف رپورٹوں میں مجموعی ڈھانچہ میں نظر آنے والے نقائص کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں مزدوروں کی پیداواری صلاحیتوں میں شدید کمی ظاہر ہوئی ہے۔ ایک طرف معیشت کی ترقی کا ذکر ہوتا ہے تو اسی وقت وفاق کے تحت چلنے والے بیشتر ادارے معاشی بحران کا شکار ہیں۔
اسٹیل ملز اور پی آئی اے کے معاشی اور انتظامی بحران کا تو ذکر عام ہے مگر ریلوے،کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ملک کی سرکاری یونیورسیٹیاں اپنے انتظامی اور معاشی بحرانوں سے نکل نہیں پا رہیں۔ ان اداروں میں جن میں اساتذہ، تخلیق کار، انجینئرز سب شامل ہیں، تنخواہوں سے محروم ہیں اور جو لوگ ریٹائر ہوئے ہیں انھیں پنشن نہیں مل رہی ہے۔
پٹرول،گیس اور بجلی کے نرخ کسی طورکم نہیں ہو پا رہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران گیس کی قیمتوں میں سو گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مجموعی طور پرکمی ہوئی ہے مگر حکومت نے گزشتہ سال تیل کی قیمتوں میں بہت معمولی کمی کی اور چند ماہ قبل پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی تھی۔ پہلے پنجاب حکومت نے اور پھر وفاقی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں 3 ماہ کے لیے کمی کے پیکیج کے اعلانات کیے جس سے بجلی کے بلوں میں معمولی کمی رہی مگر پورے ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہوئی۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے صنعتی شعبہ خاصا متاثر ہوا۔
مزدوروں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کے لیے سرگرداں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت اس صورتحال سے خاصی متاثر ہے۔ کراچی کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد میں بہت سے کارخانے بند ہوئے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ پہلے مالیاتی سال کے چھ ماہ میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 1.
جب بھی پولیو کی مہم شروع ہوتی ہے پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس، رینجرز اور ایف سی کے سپاہیوں کی شہادتوں کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ حکومت ایک طرف تو ریاستی ڈھانچے میں کمی کا اعلان کرتی ہے۔ روزانہ وفاقی وزارتوں سے آسامیوں کے خاتمے اور مختلف وزارتوں اور ڈویژن کے انضمام کی خبریں آتی ہیں تو دوسری طرف یہ خبریں نمایاں ہوتی ہیں کہ بجلی اورگیس کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے والے ادارہ کے اراکین نے اپنی تنخواہوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ کرلیا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بغیر نیپرا کے چیئرمین اور اراکین کی تنخواہوں میں ازخود اضافے کا نوٹس لیا ہے۔ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بدعنوانی کے خاتمہ اور شفافیت کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے، مگر ہر ہفتے ذرایع ابلاغ پرکئی اسکینڈل کا چرچا ہوتا ہے۔
سینیٹ کی میری ٹائمز افیئرزکمیٹی کے اجلاس کی ایک سینیٹر نے انکشاف کیا ہے کہ پورٹ قاسم کی 150 ایکڑ اراضی کو کم قیمت پر فروخت کیا گیا جس سے سرکاری خزانہ کو 160 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح کراچی پورٹ کی 140 ارب کی زمین کو 15 ارب میں فروخت کیا گیا۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت سندھ نے اسٹیل ملز کی 56 ایکڑ زمین 4 افراد کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کردی ہے۔
اسی طرح اسٹیل ملز کی بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خزانہ کو 1 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا میں ایک ٹیچنگ اسپتال میں 13لاکھ ڈالرکی MRI مشین کی خریداری ایک معمہ بن گئی۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کی حکومت کا یہ اسکینڈل بھی زیرِ بحث ہے کہ جنوبی وزیرستان میں 36 ہیلتھ سینٹر قبائلی سرداروں کے حجروں میں قائم ہیں، یوں ان ہیلتھ سینٹروں کا بجٹ بااثر سرداروں اور لواحقین کی بہبود پر خرچ ہو رہا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے گندم کی سپورٹ پرائز دینے سے انکارکیا ہے۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں کسان اور چھوٹے زمیندار مڈل مین اور آڑھتی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ گزشتہ سال گندم کی بلاوجہ درآمد سے سب سے زیادہ نقصان پنجاب کے کسانوں اور چھوٹے کاشتکاروں کو ہوا تھا۔
اب نئی پالیسی کے نتیجے میں کسان گندم اگانے سے پرہیزکریں گے اور اگلے سال پھرگندم کا بحران پیدا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ کلائیمنٹ چینج کی بناء پر پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو اس سال سے خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے نئے تضادات پیدا کررہی ہے۔ سارے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قرضوں کا بوجھ بڑھنے اور مختلف ممالک سے ایم او یوز دستخط کرنے کی اچھی خبروں کے باوجود غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کسی صورت کم نہیں ہو رہی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر حفیظ پاشا کی قیمتوں کی تعداد حکومت نے سے زیادہ نہیں ہو بجلی کے ملک میں ہوئی ہے گیس کی کیا ہے ہیں کہ رہی ہے
پڑھیں:
دنیا بھر میں سزائے موت میں اضافہ پر انسانی حقوق کمشنر کو تشویش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے دنیا بھر میں سزائے موت کے واقعات میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سزا انسانی وقار اور زندگی کے حق سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ان کا کہنا ہے، اگرچہ بہت سے ممالک یہ استدلال کرتے ہیں کہ مجرموں کو موت کی سزا دینا ان کی قومی خودمختاری کا معاملہ ہے تاہم، 21ویں صدی میں اس سزا کی کوئی گنجائش نہیں۔
Tweet URLہائی کمشنر نے یہ بات اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کہی جہاں آج سزائے موت کے تناظر میں انسانی حقوق کو فروغ دینے میں عدالتوں کے کردار پر گفت و شنید ہوئی۔
(جاری ہے)
انہوں نے کونسل کو بتایا کہ گزشتہ دو سال کے دوران سزائے موت دیے جانے کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ایران، سعودی عرب، صومالیہ اور امریکہ میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ رہی۔سزائے موت کے بڑھتے واقعاتاقوام متحدہ کی جاری کردہ تازہ ترین معلومات کے مطابق 2023 میں 16 ممالک نے 1,153 افراد کو سزائے موت دی۔
یہ تعداد 2022 کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ تھی۔اس سے قبل 2021 اور 2022 کے درمیان سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں 53 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم، اس میں چین کے اعدادوشمار شامل نہیں ہیں جہاں سزائے موت سے متعلق جاری کردہ معلومات اور اعدادوشمار میں شفافیت کا فقدان ہے۔
انہوں نے چین کے حکام پر زور دیا کہ وہ مجرموں کو سزائے موت دیے جانے کی پالیسی میں تبدیلی لائیں اور بہت سے دیگر ممالک کی طرح اپنے ہاں اس سزا کے خاتمے کی جانب پیش رفت کریں۔
جنوبی دنیا میں مثبت پیش رفتانسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت منشیات کی سمگلنگ اور خریدوفروخت کا شمار ایسے سنگین جرائم میں نہیں ہوتا کہ جن کے ارتکاب پر سزائے موت دی جائے۔ تاہم 2023 میں 40 فیصد لوگوں کو ایسے ہی جرائم پر سزائے موت دی گئی جو 2016 کے بعد سب سے بڑی تعداد تھی۔
ہائی کمشنر نے بتایا کہ گزشتہ دو سال کے دوران منشیات سے متعلق جرائم پر سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ایسے تقریباً تمام واقعات اسلامی جمہوریہ ایران میں ہوئے۔
اگرچہ دنیا بھر میں سزائے موت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ سزا ترک کرنے والے ممالک کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جبکہ ایسے بیشتر ممالک جنوبی دنیا کا حصہ ہیں۔ اس وقت 113 ممالک نے یہ سزا مکمل طور پر ختم کر دی ہے جن میں زمبابوے بھی شامل ہے جہاں صدر ایمرسن منگاگوا نے گزشتہ سال کے آخر میں اس حوالے سے ایک قانون کی منظوری دی تھی۔
افریقہ کے 26 دیگر ممالک نے بھی اپنے ہاں موت کی سزا کو ختم کر دیا ہے۔عدالتی اصلاحات کی ضرورتوولکر ترک نے کہا کہ اس سزا کو ختم کرنے کے لیے عدالتی اصلاحات لانا ہوں گی۔ اس کے ساتھ، سزائے موت کو کم شدت کی سزاؤں سے تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔ ملاوی اور ملائشیا نے ایسی اصلاحات پر کامیابی سے عملدرآمد کیا ہے جہاں اب سزائے موت پانے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔
انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ منصفانہ قانونی کارروائی یقینی بنانے اور ملزموں کو ناجائز سزاؤں سے بچانے کے لیے مزید اقدامات کریں۔ انہیں سزائے موت کے مکمل خاتمے اور اس پر عملدرآمد روکنے کے لیے کام کرنا ہو گا اور یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ انتہائی سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے علاوہ کسی کو موت کی سزا نہ دی جائے۔
زمبابوے کی مثالزمبابوے کی اٹارنی جنرل ورجینیا مابیزا نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ملک میں 2005 کے بعد کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی اور بہت سے معمولی جرائم پر دی جانے والی انتہائی درجے کی سزاؤں کو کم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے پالیسی سے متعلق فیصلوں اور سزائے موت کے خلاف عدالتی اصلاحات کو اس کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ ملکی سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سزائے موت کسی فرد کے انسانی حق کی پامالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں سنگین جرائم پر موت کی سزا کو عمر قید کی سزا میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔