پنجاب اور کے پی حکومتیں پھر آمنے سامنے ، سرکاری اشتہارات پر بیان بازی شروع ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
پنجاب اور کے پی حکومتیں پھر آمنے سامنے آگئیں، سرکاری اشتہارات پربیان بازی شروع ہوگئی۔ بیرسٹرسیف نے پنجاب کے اشتہاری بجٹ کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا، عظمیٰ بخاری بولیں کے پی حکومت اپنے 10 منصوبے بتا دے، تشہیر پنجاب میں کریں گے، بارہ سال سے کے پی کا خزانہ دھرنوں پرخرچ ہو رہا ہے۔
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف کا پنجاب کے اشتہاری بجٹ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے غریب عوام کا پیسہ اشتہاروں پر لٹایا جا رہا ہے، یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، کیا پنجاب میں مہنگائی اور بے روزگاری ختم ہوچکی ہے؟
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ کون سی کارکردگی ہے جس کی تشہیر کی جا رہی ہے، پیکا کالے قانون کے بعد عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے اخبارات اشتہارات میں بدل دئیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اخبار میں اب خبر نہیں اشتہار شائع ہوگا، بتایا جائے کتنے پیسے ایک فرد کی تشہیر پر خرچ ہوئے؟ تحقیقات ہونی چاہیے کہ سرکاری پیسہ کیوں لٹایا گیا؟ذمہ داروں سے یہ پیسہ وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں غیر منتخب حکومتوں کی کارکردگی اشتہاری ڈرامہ بازی تک محدود ہے، عوام کو نظر آ رہی ہے نہ انہیں محسوس ہو رہی ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے بیرسٹر سیف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ کے پی حکومت اپنے 10 منصوبے بتادے، ہم پنجاب میں ان کی تشہیر خود کریں گے، کہا کہ مریم نواز کی حکومت نے ایک سال میں پنجاب کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کردی ہیں۔
عظمیٰ بخاری نے بیرسٹر سیف کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ آپ پھر آگئے پنجاب پہ بات کرنے، آخر اپنی حکومت کی کارکردگی کب بتائیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ آپ کی جانب سے صرف پنجاب پہ بے سروپا تنقید ثابت کرتی ہے کہ آپ کے پاس اپنا کچھ بتانے کو نہیں، جن کی پوری کارکردگی صرف ڈرامے بازی، پھیکی بڑھکیں اور ملک کے خلاف سازشیں ہیں وہ بھی اب بات کریں گے؟
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب نے ڈیلیور کیا اس لیے لوگوں کو نظر آ رہا ہے، مریم نواز کی حکومت نے ایک سال میں پنجاب کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کردیں۔
وزیر اطلاعات پنجاب حکومت کی میڈیا مہم گراؤنڈ رائیلٹی پر مبنی ہے جبکہ 12 سال سے خیبرپختونخوا کا خزانہ دھرنے، احتجاج اور لانگ مارچ پر خرچ ہو رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے پی حکومت پنجاب کے رہا ہے کہا کہ
پڑھیں:
مریم نواز کے 60،60 صفحات کے اشتہارات پر تجزیہ کاروں کی شدید تنقید
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 فروری2025ء) مریم نواز کے 60،60 صفحات کے اشتہارات پر تجزیہ کاروں کی شدید تنقید، تحقیقات کا مطالبہ کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کی جانب سے وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز کی غیر معمولی اشتہارات کی مہم کے حوالے سے رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اس حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سینئیر تجزیہ کار اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اشتہاری مواد کو خبروں کی شکل میں پیش کرنے کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول، '' یہ قارئین کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات عوام کو فراہم کرنے کا اختیار تو حکومت کے پاس ہے لیکن اس کی آڑ میں بھاری رقوم میڈیا مالکان کو دینے کا نہیں۔(جاری ہے)
‘‘ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سرکاری اشتہارات حکومت کے پاس ہونے ہی نہیں چاہییں کیونکہ حکومتیں اکثر ان کا منصفانہ استعمال نہیں کرتیں بلکہ اسے سچ کو روکنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ساٹھ ساٹھ صفحات کے سپلیمنٹ جن اخبارات کو دیے گئے ہیں ان کی معاشرے میں سرکولیشن کوئی زیادہ نہیں ہے۔ ان کے بقول، ''پنجاب حکومت کچھ زیادہ ہی پراپیگنڈہ کر رہی ہے۔ وہ چند ایمبولینسیں چلا کر پورے صوبے میں ایمبولینس سروس شروع کرنے کا تاثر دیتے ہیں۔ چند ہزار طلبا کو وظائف دے کر سارے طلبہ کی مدد کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے جیسے تمام کسانوں کو کسان کارڈ اور دیگر مراعات مل گئی ہیں۔‘‘ کارپوریٹ کنسلٹنٹ مہوش خان کا کہنا تھا کہ ہر منصوبے کو اپنا نام دینا اور ہر جگہ اپنے نام کی تختی لگانا اور ہر منصوبے کی تشہیر پر ضرورت سے زیادہ فوکس کرکے اپنے آپ کی تشہیر کرنا کوئی اچھا رجحان نہیں ہے۔ ان کے بقول، ''امیج بلڈنگ کا درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے بلڈنگ ٹھیک کی جائے پھر اس کی اطلاع عوام کو دی جائے۔‘‘ پی ایف یو جے کے سابق نائب صدر نواز طاہر نے کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کو عوام کا پیسہ اپنی مرضی کے میڈیا مالکان کو دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، '' یہ کام ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کئی اخباری اداروں میں کارکن صحافیوں کو بروقت تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ اور جو لوگ حکومت سے بھاری رقوم لے رہے ہیں وہ کس طرح حکومتی خامیوں پر تنقید کر سکیں گے۔ ‘‘ امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ "اصل میں اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ عوام کا پیسہ خرچ کرکے اخبارات اور دیگر میڈیا پر جو مواد دیا شائع کیا جا رہا ہے اس میں کتنا سچ ہے اور پنجاب حکومت نے اپنی تشہیری مہم کے دوران ایک سال میں کتنے پیسے خرچ کیے ہیں؟۔"