فخرزمان نے ریٹائرمنٹ کی خبروں پر خاموشی توڑ دی،تفصیلی گفتگو سب نیوز پر
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
فخرزمان نے ریٹائرمنٹ کی خبروں پر خاموشی توڑ دی،تفصیلی گفتگو سب نیوز پر WhatsAppFacebookTwitter 0 26 February, 2025 سب نیوز
لاہور (سب نیوز )قومی ٹیم کے جارح مزاج اوپننگ بلے باز فخر زمان نے ریٹائرمنٹ کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں، میں تینوں فارمیٹ کھیلنا چاہتا ہوں اور ایک ماہ میں انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ہوجائے گی۔پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے انٹرویو میں گفتگو کے دوران اوپننگ بلے باز فخر زمان کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے دوران درد سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا، اس میچ کے بعد چیمپئنز ٹرافی میں میرا سفر تمام ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس میچ میں اوپن کرتا تو شاید نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا کیوں کہ بڑے ہدف کے تعاقب میں شروع کے 10 اوورز میں اوپنرز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے کہ وہ بڑا اسکور کریں۔نیوزی لینڈ کے خلاف آٹ ہونے کے بعد ڈریسنگ روم میں رونے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا جب آپ سے ٹیم کو توقعات ہوں اور آپ کچھ بھی نہ کرسکیں تو اس پر افسوس ہوتا ہے، مجھے بہت سے لوگوں نے پوچھا اس بارے میں، یہاں تک کہ میرے بیٹے نے بھی کہا پاپا آپ کو تکلیف ہورہی تھی اس لیے آپ رو رہے تھے؟
انہوں نے کہا کہ ون ڈے فارمیٹ میرا بہترین فارمیٹ ہے لیکن میں ابھی بھی چاہتا ہوں کہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلوں، البتہ کوچز اور کپتان کی اپنی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے اچھے ٹیسٹ کھلاڑی موجود ہیں۔فخر زمان کا کہنا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی میرے لیے خاص ایونٹ ہے، 2017 کی چیمپئنز ٹرافی میرے لیے یادگار تھا، جب مجھے ہائپر ٹھورائیڈ کی بیماری کا معلوم ہوا تو میں نے اس ٹورنامنٹ کے لیے خاص طور پر تیاری کی کہ میں فٹ ہوجاں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہفتے میں طبیعت میں کافی فرق پڑا ہے، ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق 3 ہفتے بعد ٹریننگ کرسکوں گا، امید ہے کہ ایک مہینے کے اندر انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آجاں گا۔بھارت سے شکست سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ چمپئینز ٹرافی میں ہم بھارت سے میچ ہار گئے ہیں میچ کے بارے میں کچھ نہیں بول سکتا، کرکٹ میں کئی دفعہ ہم سے توقعات ہوتی ہیں کبھی کسی کھلاڑی سے توقعات ہوتی ہیں اور وہ نہیں کرسکتا لیکن جس سے نہیں ہوتی وہ بھی کرجاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کل کی کرکٹ میں اسٹرائیک ریٹ بہت اہمیت کا حامل ہے، چھوٹے یا بڑے ٹارگٹ کو صورتحال کے مطابق کھیلنا پڑتا ہے، موجودہ دور میں رسک لے کر کھیلتا پڑتا ہے، جس میں وکٹ بھی جاتی ہے۔پسندیدہ کھلاڑیوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے میٹ ہنری اچھے بالر ہیں جب کہ میرا آل ٹائم پسندیدہ کھلاڑی اے بی ڈویلئرز ہے، بائے ہاتھ کے میتھیو ہیڈن اور ایڈم گلکرسٹ میرے پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں تو بیٹر سے زیادہ اچھا بالر ہوں اور شاداب خان نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر میں کپتان بنا تو ون ڈے میں 5 اور ٹی20 میں 2 اوورز تم سے کراوں گا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سب نیوز
پڑھیں:
نیا قانون اور ادارہ: فیک نیوز اور ڈی فیم کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) یہ ادارہ اب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کی جگہ لے گا اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2025 کے تحت کام کرے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ این سی سی آئی اے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گا اور ملک بھر میں ضلعی سطح پر ’’سائبر تھانے‘‘ قائم کیے جائیں گے تاکہ شہریوں کی رسائی آسان بنائی جا سکے۔
پاکستان میں بڑھتے سائبر کرائمز، زیادہ شرح مالیاتی جرائم کی
پیکا ایکٹ کتنا صحیح کتنا غلط؟
پولیس سروس آف پاکستانکے ایک اچھی شہرت کے حامل افسر وقار الدین سید کو اس نئے ادارے کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔
’’میری تصاویر وائرل ہوئیں، اور کوئی دروازہ نہ تھا‘‘کراچی کی رہائشی 26 سالہ ماہم (فرضی نام) کے لیے 2023 کا سال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔
(جاری ہے)
اُن کی نجی تصاویر اُن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد وائرل ہو گئیں اور انہیں بلیک میل کیا گیا۔ماہم کے مطابق انہیں ایف آئی اے کے دفتر تک کورنگی سے گلستان جوہر جانا پڑا، جہاں کئی گھنٹے انتظار کے بعد انہیں محض ایک کاغذ تھما دیا گیا۔ کیس میں انصاف حاصل کرنے میں چھ ماہ لگے، وہ بھی اس وقت جب انہوں نے نجی طور پر ایک آئی ٹی ماہر کی مدد حاصل کی۔
ماہم کہتی ہیں، ’’اگر میرے ضلع میں کوئی سائبر تھانہ ہوتا تو میں فوری طور پر مدد حاصل کر سکتی تھی۔ میرے جیسے کئی لوگ صرف اس لیے خاموش رہ جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔‘‘
80 فیصد شکایات، صرف 20 فیصد وسائل2024 میں ایف آئی اے کو موصول ہونے والی کل شکایات میں سے تقریباً 80 فیصد سائبر کرائمز سے متعلق تھیں۔
تاہم ایف آئی اے کے مجموعی وسائل کا صرف 20 فیصد حصہ سائبر ونگ کو فراہم کیا گیا، جبکہ 80 فیصد وسائل امیگریشن، اکنامک کرائم اور اینٹی کرپشن ونگز پر خرچ کیے گئے۔این سی سی آئی اے کے حکام کے مطابق، اسی فرق کو ختم کرنے اور سائبر کرائمز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نوعیت کے مطابق وسائل اور مہارت مختص کرنے کے لیے نیا ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔
لوگو، وردی، نئی شناخت اور اختیاراتاین سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمود الحسن ستی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں بتایا کہ اس ’’ادارے کے لیے مخصوص وردی، لوگو، اور دیگر انتظامی اقدامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی افرادی قوت، ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل این سی سی آئی اے کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ صرف شکایات سننے تک محدود نہیں ہوگا بلکہ تکنیکی تربیت، ڈیجیٹل فارنزک، اور تیز رفتار کارروائی کے لیے ایک جامع فریم ورک پر کام کرے گا۔
محمود الحسن ستی کے مطابق، ’’جو شخص جان بوجھ کر کسی ایسی اطلاع کو، جس کے غلط یا جھوٹا ہونے کا اسے علم ہو یا خدشہ ہو، پھیلائے گا یا عوام میں خوف و ہراس پیدا کرے گا، اسے تین سال تک قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
‘‘ایڈیشنل ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک سوشل میڈیا کونسل بنائی جا رہی ہے اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی میں صحافیوں کی نمائندگی بھی رکھی جائے گی۔ قبل ازیں یہ اختیارات دفعہ 37 کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس تھے۔
سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹیحکومت سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی کے قیام کی بھی تجویز دے رہی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے گا، اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی صارفین کے ڈیٹا اور آن لائن حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔فی الحال ملک کے چند بڑے شہروں میں سائبر کرائم سیل فعال ہیں۔ این سی سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ضلعی سطح پر سائبر تھانے قائم کیے جائیں گے، جس سے شکایت درج کروانا آسان اور فوری ہوگا۔
ادارے کے مطابق، عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے پیکا قانون کا اردو ترجمہ ویب سائٹ پر جاری کیا جا رہا ہے۔ اگلے مراحل میں قانون کو پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانوں میں بھی ترجمہ کر کے عام فہم بنایا جائے گا۔
ایک سائبر کرائم ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ جب تک قانون کو آسان زبان میں نہ سمجھایا جائے، اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ اگر این سی سی آئی اے نے ایف آئی اے کی طرز پر روایتی پولیسنگ کی، تو عوام میں پذیرائی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
‘‘ پیکا قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے خدشاتپاکستان کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک پیکا قانون دراصل ’’مارشل لا‘‘ ہے۔ ان کے مطابق، یہ قوانین نہ صرف صحافیوں بلکہ سیاست دانوں پر بھی لاگو ہوں گے، جیسا کہ فرحت اللہ بابر کو نوٹس دیے جانے کی مثال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ: ’’شق 26 اتنی وسیع ہے کہ کسی کو بھی اس کے تحت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس قانون کی شدت کا اندازہ تب ہوگا جب وہ خود اپوزیشن میں ہوں گے۔‘‘پیکا ایکٹ 2016 میں متعارف ہوا تھا۔ 2023 اور اب 2025 میں اس میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم عوامی مفاد میں کی گئی ہیں، مگر بعض حلقے انہیں آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
صحافیوں، ڈیجیٹل رائٹس کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کا مؤقف ہے کہ پیکا ایکٹ کو مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
این سی سی آئی اے کے ایک افسر نے تاہم ان تحفظات کے حوالے سے کہا، ''یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اظہارِ رائے پر پابندی لگا رہے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی نوعیت کے قوانین موجود ہیں۔ اصل ہدف ان افراد کو روکنا ہے جو یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز پر بغیر ثبوت کے لوگوں پر الزامات لگاتے ہیں یا جعلی خبریں پھیلاتے ہیں۔‘‘