افغانستان: شدید بارشوں اور سیلاب سے کم زکم چھتیس افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 فروری 2025ء) افغانستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق گزشتہ دو دنوں کے دوران شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے افغانستان بھر میں بچوں سمیت کم از کم 36 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے ترجمان جانان سیاق نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ شدید موسم کی وجہ سے مزید 40 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم 300 رہائشی مکانات متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور زرعی زمین کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ حکام ان اہم سڑکوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے کام کر رہے ہیں جو شدید برف باری اور سیلاب کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں۔مقامی حکام نے ڈی پی اے کو بتایا کہ ایک المناک واقعے میں ملک کے جنوب مغربی صوبے فرح کے ضلع پشت کوہ میں بچوں سمیت کم از کم 21 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
(جاری ہے)
صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اہلکار محمد اسماعیل سیار نے بتایا کہ تین خاندان، جن میں بچے بھی شامل تھے، پہاڑوں میں پکنک منانے گئے تھے، جب سیلاب نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔سیلاب نے افغانستان میں پہلے سے جاری سنگین انسانی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ افغانستان میں سیلاب اور خشک سالی جیسے شدید موسمی واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ماحول کے لیے ضرر رساں اخراج میں حصے دار نہ ہونے کے باجود یہ ملک دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک میں شامل ہے۔یہ ملک کئی دہائیوں کی جنگ اور تنازعات کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ افغانستان میں گزشتہ سال بھی متعدد زلزلوں اور شدید سیلاب نے تباہی مچائی تھی۔
ش ر⁄ ک م (ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں
پڑھیں:
افغانستان : 18 برسوں سے علم و ہنر کے مرکز چلانے والا برطانوی جوڑا لاپتہ
افغانستان میں 18 برسوں سے علم و ہنر کے مرکز چلانے والا برطانوی جوڑا لاپتا ہوگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جوڑے کے بچوں نے بتایا کہ والدین سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے اور ممکن ہے طالبان نے انھیں حراست میں لے لیا ہے۔
افغانستان میں 2021 میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھی برطانوی جوڑے نے تعلیم اور تربیت کے پروگرامز جاری رکھے ہوئے تھے۔
طالبان نے اپنے ابتدائی دور میں برطانوی جوڑے کے ان تعلیمی مراکز کے ساتھ تعاون کیا تھا تاہم اب بغیر کوئی وجہ بتائے گرفتار کرلیا۔
برطانوی جوڑے کے بچوں نے طالبان کو لکھے گئے خط میں بتایا کہ ان کے والدین نے ہمیشہ قوانین کی پاسداری کی ہے اور برطانیہ کے بجائے افغانستان کو اپنے گھر بنایا۔
مقامی میڈیا کے مطابق یہ جوڑا افغانستان کے بامیان صوبے کے نیاک علاقے میں رہائش پذیر تھا اور ان کے پاس افغان شناختی کارڈز بھی تھے۔
ری بلڈ (Rebuild) نامی ادارے نے بتایا کہ طالبان حکام نے پہلے جوڑے کے گھر کی تلاشی لی اور پھر گرفتار کرکے کابل منتقل کیا۔
ادارے کے ترجمان نے مزید بتایا کہ بعد ازاں برطانوی جوڑا ایک وفد کے ساتھ دوبارہ بامیان واپس آیا تھا تاہم اب تقریباً 17 دن ہو چکے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔
برطانوی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے جب کہ طالبان حکومت کے کسی نمائندے نے بھی اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔