اپنے بیان میں علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا کہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پاکستان کے مظلوم عوام کی آواز ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی نائب صدر علامہ ولایت حسین جعفری نے ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی قرار دی ہے۔ اپنے بیان میں علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا کہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پاکستان کے مظلوم عوام کی آواز ہیں۔ انکی غیر موجودگی کو جواز بنا کر ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنا بدنیتی پر مبنی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحفظ کے لئے قربانیاں دینے والے قائد وحدت کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا نام نہاد جمہوری حکومت کی اصلیت ظاہر کرتی ہے۔ وفاقی حکومت اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جعلی مقدمات اور اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے وارنٹ گرفتاری کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

پڑھیں:

منشیات کیس: ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ عامر کے وارنٹ گرفتاری جاری

کراچی کی اینٹی نارکوٹکس کورٹس کی جانب سے منشیات کے ایک مقدمے میں حال ہی میں قتل ہونے والے مصطفیٰ عامر اور قتل کیس کے ملزم ارمغان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ انسداد منشیات عدالت نے مصطفیٰ عامر کے خلاف منشیات بر آمدگی کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے. مقتول مصطفی عامر کے وارنٹ 22 فروری کو انسداد منشیات کورٹ نے جاری کیے گئے۔مقتول مصطفیٰ عامر منشیات برآمدگی کے مقدمے میں مفرور تھا. عدالت نے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) اے این ایف پولیس اسٹیشن کو ملزم کو گرفتار کرکے 27 فروری کو پیش کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔مقتول مصطفی کے خلاف مقدمہ 2024 میں تھانہ اے این ایف میں درج کیا گیا تھا. ملزم مصطفیٰ عامر پر الزام تھا کہ اس نے کوریئر کے ذریعے منشیات بھیجنے کی کوشش کی تھی۔

دوسری جانب کراچی کی انسداد منشیات کورٹ نے ملزم ارمغان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ارمغان کیخلاف 2019 میں منشیات اسمگلنگ کے 2 مقدمات قائم کیے گئے تھے، مصطفیٰ عامر قتل کیس گرفتار ملزم ارمغان نے کینیڈا سے میری جوانا نامی ہینڈلر سے منشیات اسمگل کرائی. 30 اپریل 2024 کے بعد ملزم ارمغان عدالت میں پیش نہیں ہوا تھا۔مقدمے میں گرفتار ملزم ارمغان کے 2 ساتھی احمد غفار، احتشام سومرو کو اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے. ایک مقدمے میں مقتول مصطفیٰ عامر کےبھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا. مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا. بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی. جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی. گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا.قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے. ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی. جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا 15 فروری کو  تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے. لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا. لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی .جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے. کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علامہ راجہ ناصر کو ہاتھ لگانے کی بھی جسارت کی تو سخت ردعمل دیا جائے گا، کاظم میثم
  • عدم موجودگی میں علامہ راجہ ناصر عباس کے وارنٹ گرفتاری قابل مذمت ہے، ایم ڈبلیو ایم بلوچستان
  • علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے وارنٹ گرفتاری سیاسی انتقام کی بدترین مثال ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • علامہ راجہ ناصر کو گرفتار کیا گیا تو سخت ردعمل دینگے، سید علی رضوی
  • علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے وارنٹ گرفتاری انتقامی سیاست کا واضح ثبوت ہے، علامہ احمد اقبال رضوی
  • ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ ولایت حسین جعفری سے ملی یکجہتی کونسل سے متعلق خصوصی گفتگو
  • منشیات کیس: ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ عامر کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • 2014ء کے دھرنوں کا کیس، طاہر القادری اشتہاری قرار، علامہ راجہ ناصر عباس کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • یہ ایام امتِ مسلمہ کے لیے صبر، عزم اور تجدیدِ عہد کے دن ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری