یہ انتہائی شرمناک ہے کہ باہر کے لوگ ہمیں بتا رہے ہیں اپنا گھر کیسے ٹھیک کرنا ہے،سینیٹر فیصل وا ئوڈا
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
یہ انتہائی شرمناک ہے کہ باہر کے لوگ ہمیں بتا رہے ہیں اپنا گھر کیسے ٹھیک کرنا ہے،سینیٹر فیصل وا ئوڈا WhatsAppFacebookTwitter 0 26 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ یہ ہمارے لیے انتہائی شرمناک ہے کہ باہر کے لوگ ہمیں بتا رہے ہیں کہ اپنا گھر کس طرح ٹھیک کرنا ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس ہوا، وزارت خزانہ حکام کی جانب سے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی پر بریفنگ دی گئی۔حکام وزارت خزانہ نے کہا کہ بجلی پر سبسڈی صرف بی آئی ایس پی کے مستحقین تک محدود کرنے کی تجویز ہے، اس مقصد کیلئے وزارت خزانہ، پاور ڈویژن اور متعلقہ کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
سینیٹر انوشے رحمان نے کہا کہ بجلی پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں ہونی چاہئے، آپ غریب خواتین کے بعد مردوں سمیت پورے ملک کو بھکاری بنانا چاہتے ہیں۔رکن کمیٹی نے کہا کہ جو بجلی افورڈ کر سکتا یے وہ بل ادا کرے، کراچی کی انڈسٹری کیلئے بجلی سبسڈی کی مد میں 33 ارب کے بقایاجات کا مسئلہ حل کیا جائے۔
حکام وزارت خزانہ نے کہا کہ اس حوالے سے معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے، کے الیکٹرک نے عدالت سے اسٹے آرڈر لے رکھا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کسی کو بھی پاکستان سے محبت نہیں ہے، ایرانی سفارت خانے کی خاتون نے جو آنکھیں کھول دینے والے حقائق بیان کئے ہیں وہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔
اجلاس کے دوران پاک ایران بارڈر پر 600 ٹرکوں کو روکنے کا معاملہ زیر بحث آیا، ایرانی سفارتکار نے کہا کہ پاک ایران 1987 کے معاہدے کے تحت بینک گارنٹی کی شرط تھی، 2008 کے معاہدے کے تحت بینک گارنٹی کی شرط ختم کی گئی ہے۔
ایرانی سفارتکار نے کہا کہ پاکستان نے ایرانی ٹرکوں پر بینک گارنٹی کی شرط عائد کی گئی ہے، بینک گارنٹی کی شرط کی وجہ سے روزانہ 2.
ایرانی سفارتکار نے کہا کہ ایرانی ٹرک ڈرائیور ایک ایک ماہ سے بارڈر پر انتظار کر رہے ہیں، پاک ایران دو طرفہ معاہدے کی بنیادی شرط آزادانہ نقل و حرکت ہے، پاکستان گوادر پورٹ کو ڈویلپ کرے۔
سینیٹر فاروق نائیک نے کہا کہ ایرانی سفارتکاروں کی بریفنگ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کسی کو اس ملک سے محبت نہیں ہے،سینیٹر فیصل ووڈا نے کہا کہ ایرانی سفارتکاروں نے آج سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے، یہ ہمارے لیے انتہائی شرمناک ہے کہ باہر کے لوگ ہمیں بتا رہے ہیں کہ اپنا گھر کس طرح ٹھیک کرنا ہے، پاکستان روزانہ 2.2 ملین ڈالرز کا نقصان کر رہا ہے۔
سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی کا ڈرامہ بند کیا جائے، جن قابل لوگوں نے یہ پالیسی بنائی ہے انہیں طلب کیا جائے، وزرا کی کرسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر ٹریڈ ہو رہی ہے، کسٹمز کے پیچیدہ ایس آر او کی وجہ سے پاک ایران بارٹر ایران بند ہوچکی ہے۔
کسٹمز حکام نے بتایا کہ پاک ایران بارٹر ٹریڈ کے لیے بینک گارنٹی کی شرط نہیں ہے، پاک ایران دو طرفہ تجارت کے لیے بینک گارنٹی کی شرط عائد کی گئی ہے، کسی تیسرے کی اشیا بارٹر ٹریڈ کے ذریعے پاکستان داخل نہیں ہوسکتیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت میں مسائل کے حل کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوادیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ٹھیک کرنا ہے سینیٹر فیصل اپنا گھر
پڑھیں:
بھارتی وزیرِ خارجہ کی بنگلہ دیش کو وارننگ؛ ‘اپنا ذہن بنائیں کہ ہمارے ساتھ کیسے تعلقات چاہتے ہیں’
نئی دہلی — بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بنگلہ دیش کے بارے میں بظاہر ایک سخت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ بھارت کے ساتھ کس قسم کے تعلقات چاہتا ہے۔
ان کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش اس سلسلے میں فیصلہ کرے گا۔ لیکن بھارت کو بھی طے کرنا ہو گا کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ کیسے رشتے رکھنا چاہتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی رشتے مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فریقین باہمی تعلقات کو پٹری پر لانا چاہتے ہیں۔ البتہ ان بیانات کو دونوں کی داخلی سیاست کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ایس جے شنکر نے اتوار کو نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عبوری حکومت ایک طرف اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کے لیے روزانہ مضحکہ خیز انداز میں بھارت کو مورد الزام ٹھہرائے اور دوسری طرف یہ کہے کہ وہ اچھے رشتے چاہتی ہے تو اس بارے میں اسے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
بھارتی وزیرِ خارجہ نے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں دو مسائل کا ذکر کیا۔ اُن کے مطابق پہلا مسئلہ اقلیتوں پر حملوں کا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت ہی تشویش کی بات ہے۔ یہ یقینی طور پر ہماری سوچ کو متاثر کرتا ہے، اس پر ہم نے بیان دیا ہے۔
ان کے بقول دوسرا مسئلہ بنگلہ دیش کی داخلی سیاست سے متعلق ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس سے کوئی اتفاق بھی کر سکتا ہے اور اختلاف بھی۔
‘بھارت کو بھی فیصلہ کرنا ہو گا’
بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں یقینی طور پر فیصلہ کرے گا۔ لیکن اسی کے ساتھ بھارت کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ کیسے رشتے چاہتا ہے۔
بنگلہ دیش کے سرکاری خبر رساں ادارے ‘بنگلہ دیش سنگباد سنگھسٹ'(بی ایس ایس) کے مطابق محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ایک واضح مؤقف رکھتا ہے۔ وہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اچھے تعلقات پر زور دیتا ہے۔ اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
نیوز ویب سائٹ ‘دی سکریٹریٹ ڈاٹ اِن’ کے کنسلٹنگ ایڈیٹر اور خبر رساں ادارے ‘پریس ٹرسٹ آف انڈیا’ (پی ٹی آئی) کے ایسٹرن ریجن نیٹ ورک کے سابق انچارج جینتو رائے چودھری کے مطابق بنگلہ دیش کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات آرہے تھے اور شاید اسی وجہ سے جے شنکر نے ایک طرح سے دھمکی آمیز لہجہ اپنایا ہے۔ اسے جے شنکر کی جھنجلاہٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کو غذائی اجناس بھارت سے جاتی ہیں۔ وہ بھارت سے دیگر سہولتیں بھی اٹھاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ بھارت کے خلاف بیان دے تو اس پر ردِعمل تو ہوگا ہی۔
شیخ حسینہ کے بھارت جانے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔
اُنہوں نے محمد توحید حسین کے بیان کے بارے میں کہا کہ ان کو اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اس قسم کے بیانات دینے پڑے ہیں ورنہ وہاں کے میڈیا میں ان پر تنقید ہوتی۔
اُنہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ باہمی رشتے اور بگڑتے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں نے دو بار ملاقاتیں کی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے باہمی رشتوں کو آگے بڑھانے کی بات کی ہو گی۔ بھارت کی طرح بنگلہ دیش بھی اچھے رشتے چاہتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد باہمی تجارت پر اثر پڑا تھا۔ لیکن وہ پھر آگے بڑھی ہے اور حالیہ دنوں میں دو طرفہ تجارت کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی ٹرانسپورٹ ٹرین جو بند ہو گئی تھی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ حالاں کہ بنگلہ دیش میں اس فیصلے پر تنقید کی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف بھارت کے خلاف بیانات دیے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہاں کی سیاسی جماعت ‘بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی’ (بی این پی) اور ‘جماعت اسلامی’ کے لوگ بھارت کے دورے کر رہے ہیں۔
دریں اثنا بنگلہ دیش کے ایک 22 رکنی وفد نے جس میں سیاست داں، سول سوسائٹی کارکن، ماہرین تعلیم اور صحافی شامل ہیں، چین کے 10 روزہ دورے کا آغاز کیا ہے۔
اس سلسلے میں جینتو رائے چودھری کا کہنا تھا کہ اس میں بی این پی کے سیاست دانوں کی اکثریت ہے۔ اس میں حکومت کے اہل کار شامل نہیں ہیں۔
‘بنگلہ دیش کے سیاست دانوں کے بیانات مددگار نہیں ہیں’
نیوز 18 ڈاٹ اِن سے وابستہ تجزیہ کار آشیش ملک کہتے ہیں کہ بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جس طرح سے وہاں کے سیاست دانوں کے بیانات آرہے ہیں وہ اس معاملے میں مددگار نہیں ہیں۔
ان کے مطابق ایس جے شنکر نے اسی لیے قدرے سخت انداز اختیار کیا ہے۔ بھارت نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اگر تعلقات کو بہتر بنانا ہے تو اس قسم کے بیانات کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب مسقط میں جے شنکر اور محمد توحید حسین کی ملاقات ہوئی تھی تو جے شنکر نے ان سے کہا تھا کہ اگر معاندانہ بیانات دیے جائیں گے تو رشتے معمول پر نہیں آسکتے۔
ادھر محمد توحید حسین نے بھارت میں قیام کے دوران شیخ حسینہ کے بیانات پر تنقید کی اور کہا کہ ان کے بیانات ڈھاکہ اور نئی دہلی کے باہمی رشتوں کے سلسلے میں نقصان دہ ہیں۔
بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے کی شکایات
بھارت نے وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہندوؤں پر حملوں کے معاملے کو متعدد بار بنگلہ دیش کے سامنے اٹھایا ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر دونوں نے اس معاملے پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔
گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ حکومت کے خلاف طلبہ کے احتجاج اور پانچ اگست کو ان کے بھارت آجانے کے بعد وہاں ہندوؤں پر حملوں کے واقعات پیش آئے تھے۔
بنگلہ دیش کے عبوری حکمراں محمد یونس نے ان حملوں کے دوران بعض اہم مندروں کا دورہ کیا تھا اور ہندوؤں کو ان کے تحفظ کا یقین دلایا تھا۔
بنگلہ دیش کے ایک اخبار ‘ڈھاکہ ٹریبیون’ کے مطابق محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش کے اقلیتوں کا معاملہ بھارت کے لیے باعث تشویش نہیں ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی اقلیتوں کا معاملہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔ جس طرح بھارت اپنی اقلیتوں کے ساتھ برتاو کرتا ہے اور اسے اپنا اندرونی معاملہ مانتا ہے۔