جولائی 2020 سے لے کر اب تک پاکستان بھر سے 75 کے قریب دہشتگرد گروہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں ضم ہو چکے ہیں جن میں 10 کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی افغانستان میں سب سے بڑا دہشتگرد گروپ، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں چَشم کُشا انکشافات

سابق سفارتکار اور تجزیہ نگار عبدالباسط نے گزشتہ روز ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ چھوٹے دہشتگرد گروہوں کو خود میں ضم ہونے کی دعوت دے رہی ہے اور اس سلسلے میں اُسے خاصی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

عبدالباسط نے لکھا ہے کہ اس وقت ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ میں طاقت اور اثر و رسوخ بڑھانے کا مقابلہ چل رہا ہے جو کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔

اس مقابلے کے تحت دونوں جماعتیں چھوٹے دہشتگرد گروہوں کو ضم کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اپنی طاقت دکھانے کے لیے یا تو یہ آپس میں لڑیں گی جو کہ سیکیورٹی خطرہ ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ حملے کریں گی۔

ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ دونوں کا مقصد پاکستان کو افغانستان کی طرز پر ’اسلامی امارت‘ بنانا ہے لہٰذا پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان خطرات پر نظر رکھے۔

سابق سفارتکار کے مطابق افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد دیگر پاکستانی دہشتگرد تنظیموں کو بھی نیا حوصلہ اور نئی توانائی ملی اور اس جیت نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اندرونی اختلافات بھلا کر دیگر چھوٹے گروپس کو اپنے ساتھ ملایا جائے۔

مزید پڑھیے: افغان طالبان کے دورِ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ

جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے نہ صرف اپنے بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے گروپس کو ساتھ ملایا بلکہ 2 بڑے گروپس لشکر اسلام اور حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ بھی اپنے اختلافات ختم کیے۔

گزشتہ برس سنہ 2024 میں انہوں نے ان 2 گروپوں کو تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہونے کی دعوت بھی دی لیکن ان کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ رہے۔

ٹی ٹی پی چونکہ ایک بڑی دہشتگرد تنظیم ہے اس لیے اس کو اس کے بڑے حجم کی وجہ سے فائدہ ملتا ہے اور چھوٹے دہشتگرد گروہ اس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے 2 کمانڈرز علیم خان اور علی داوڑ نے بالترتیب سال 2020 اور سال 2025 میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی۔ ان 2 کمانڈرز کی شمولیت سے ٹی ٹی پی کا دائرہ اثر شمالی وزیرستان تک پھیل گیا جو وہی جگہ ہے جہاں حافظ گل بہادر گروپ نے جنم لیا تھا۔

مزید پڑھیں: کیا حافظ گل بہادر گروپ کا ٹی ٹی پی میں ممکنہ انضمام وزیر قبائل کے خون کا سودا ہے؟

سنہ2018  میں ٹی ٹی پی کی سربراہی سنبھالنے کے بعد نور ولی محسود تمام دہشتگرد تنظیموں کو متحد کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے ٹی ٹی پی ہی کے ایک انتہائی خطرناک حصے جماعت الاحرار کے ساتھ بھی اپنے اختلافات ختم کیے لیکن تعلقات میں دراڑ اُس وقت آئی جب جماعت الاحرار نے اپنے امیر عمر خالد خراسانی کی موت کے لیے ٹی ٹی پی کو ذمے دار قرار دیا۔ لیکن ٹی ٹی پی نے جماعت الاحرار کی حمایت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اس کے بعد اپنی انتظامی کونسل میں جماعت الاحرار کی تعداد 2 سے بڑھا کر 3 کر دی۔ تاہم جماعت الاحرار نے ایک بار پھر ’غازی میڈیا‘ کے نام سے اپنا  پروپیگنڈا سیل فعال کر دیا ہے جس کی وجہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اس کے نئے تنازعات ہیں۔

اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لیے ٹی ٹی پی پنجاب میں ’غازی فورس‘، ’لال مسجد طلبا‘ اور ’لشکر جھنگوی‘ کے ساتھ اتحاد کرنا چاہ رہی ہے۔

کراچی میں ٹی ٹی پی لشکر جھنگوی کے حافظ نعیم بخاری گروپ کے ساتھ اتحاد کرنا چاہ رہی ہے جو اہل تشیع افراد پر حملوں کے لیے بدنام ہے۔

دوسری تنظیموں کے کمانڈروں کو ٹی ٹی پی میں شامل کرنے سے ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کے درمیان ایک مقابلے کی فضا بن گئی ہے جس میں قبائلی مخاصمت کا بھی بڑا کردار ہے۔حافظ گل بہادر گروپ نے ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے ایک طرف لشکرِ اسلام سے الحاق کیا ہے اور دوسرا جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے کمانڈروں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: لاہور میں پولیس اہکاروں کو نشانہ بنانے والا ٹارگٹ کلر کیسے پکڑا گیا؟

نومبر 2024 میں جنوبی وزیرستان سے حکیم اللہ محسود کاروان نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور فروری میں کراچی میں پولیس پر حملہ کیا۔ یہ حافظ گل بہادر گروپ کی خیبر پختونخوا سے باہر پہلی کارروائی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹی ٹی پی حافظ گل بہادر گروپ دہشتگرد تنظیموں میں انضمام کالعدم تنظیمیں لشکر جھنگوی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹی ٹی پی دہشتگرد تنظیموں میں انضمام کالعدم تنظیمیں لشکر جھنگوی جماعت الاحرار میں ٹی ٹی پی ٹی ٹی پی میں کے ساتھ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

چین امریکا کی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندہ مسعود خان نے کہا ہے کہ چین امریکا کی جانب سے شروع کی گئی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتا ہے۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں چینی حکام ٹیرف کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اِس بار وہ تیار ہیں اور وہ جوابی قدم اُٹھائیں گے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ نے چین کی برآمدات و درآمدات پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ٹیرف وار نہ امریکا کے مفاد میں ہے نہ چین کے۔ اگر صدر ٹرمپ کی چین سے متعلق پالیسی جاری رہتی ہے تو دنیا میں ایک بھونچال ہوگا۔‘

اِس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، ہماری حکومت اور ہمارے دفتر خارجہ کو یہ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کثیرالجہتی تعلقات ہیں۔ ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیاں بائیڈن انتظامیہ نے لگائیں جبکہ ہماری تعریف ٹرمپ انتظامیہ نے کی، تو ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے اوپر مزید کوئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔

مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے چاہییں، ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم کے ضِمن میں امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا امریکا پاکستان ٹیرف مذاکرات سے پاک چین تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں؟

مسعود خان نے کہاکہ ٹیرف مذاکرات کا محور درآمدات و برآمدات سے متعلق ہوگا، اُس میں شاید ہی پاک چین تعلقات کا ذکر آئے، امریکا میں بائیڈن انتظامیہ ہو یا ٹرمپ انتظامیہ، بعض اوقات وہ کُھل کر نہیں بھی کہتے ہیں پر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات بہت قریبی ہیں اور اتنے قریبی تعلقات کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات کا اسکوپ بہت کم رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے بہت زیادہ قریب نہ جائے، پاک امریکا اور پاک چین ان دو متنوع تعلقات کے ضِمن میں ایک تناؤ موجود ہے لیکن اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم نے ان دونوں کو کیسے لے کر چلنا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان اور امریکا مِل کر اِس معمے کو حل کر سکتے ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کی سب سے بڑی منڈی ہے، جب میں امریکا میں سفیر تھا تو ہم نے دیگر 27 ممالک کے ساتھ مِل کر کوشش کی امریکا ہمارا جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس بحال کرے، لیکن جی ایس پی بحال ہونے کے بجائے ٹیرف عائد کردیا گیا جس پر پاکستان حکومت نے فوری طور امریکی محکمہ تجارت کے حکام سے رابطہ کیا اور اب ایک بڑا وفد اِس سلسلے میں مذاکرات کے لیے امریکہ جا رہا ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ایسے حل کی طرف بڑھا جائے جس سے امریکا کو بھی فائدہ ہو لیکن پاکستان کو نقصان نہ ہو۔

’امریکا کو افغان مسئلے سے دامن چُھڑانا نہیں چاہیے‘

افغانستان میں امریکا کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کیا پاکستان کے مفاد میں ہے یا پاکستان کے مفاد کے خلاف؟ اِس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ امریکا کیا قدم اُٹھا رہا ہے، اور اِس سے متعلق خبروں میں کتنی سچائی اور کیا حقیقت ہے۔

انہوں نے کہاکہ داعش کے دہشتگرد شریف اللہ کو پکڑنے میں تعاون پر امریکا نے ہمارا شکریہ ادا کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے، امریکا کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے معاملات پر ہمارے مذاکرات بھی ہوتے رہتے ہیں، میری خواہش ہے کہ یہ تعلقات بڑھیں لیکن اِس کی کوئی عملی صورت بھی سامنے آنی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا تو 2021 میں افغانستان سے چلا گیا اب وہ دہشتگردوں کے نشانے پر نہیں ہے، لیکن ہم ہر روز، ہر مہینے اور ہر سال دہشتگردی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دہشتگردی میں دو چیزیں بہت واضح ہیں، ایک یہ کہ دہشتگرد افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اُنہیں بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ دہشتگردی پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ ہے جبکہ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ خطّے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، نہ صرف خطے بلکہ امریکا کے اتحادیوں اور حلیفوں کے لیے بھی یہ خطرہ ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو اِس سے اپنا دامن چُھڑانا نہیں چاہیے، خاص طور پر جب امریکی افواج 07 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر گئی ہیں، جس میں کافی سارا اسلحہ تقسیم ہو چُکا ہے اور خاص طور پر چھوٹے ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔

اںہوں نے کہاکہ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو اعتماد میں لے کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت جو کہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر دہشتگردی میں ملوث ہے اُس کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ اِس خطّے میں امن قائم ہو سکے۔

اقوام متحدہ فلسطینیوں کا قتلِ عام روکنے میں کیوں ناکام ہے؟

اس سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہاکہ اقوام متحدہ اِس لیے ناکام ہے کیونکہ اسرائیل اور نیتن یاہو کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ امریکا جو کہ دنیا کا طاقتور ترین مُلک ہے اور عرب ممالک سے متعلق پالیسی سازی میں اُس کا خصوصی کردار ہے، اس وجہ سے اقوام متحدہ بے بس ہے۔

انہوں نے کہاکہ امریکا کے ساتھ برطانیہ اور فرانس بھی امریکا کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں، اگر امریکا اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے، فلسطین کی وجہ سے امریکی قیادت پر حرف آ رہا ہے، اقوام متحدہ کا وجود ہی اِس لیے قائم ہوا کہ جنگی جرائم اور نسل کُشی نہ ہو سکے اور امریکا اس سارے نظام کا مؤجد اور ضامن تھا۔

مسعود خان نے کہاکہ امریکا کی زیرِپرستی اگر اِس طرح کے اقدامات ہوں گے تو امریکا کی قیادت کمزور ہوگی، واشنگٹن کو اِس بات کا احساس ہے لیکن اندرونی سیاسی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ امریکا میں ڈیموکریٹ اور ریپبلکنز نے اسرائیل کی حمایت کو اپنی مجبوری بنا لیا ہے۔

’بھارت کی جانب سے بی ایل اے کی حمایت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے‘

انہوں نے کہاکہ بی ایل اے جو کہ بین الاقوامی طور پر ایک کالعدم عسکری جماعت ہے، بھارت کی جانب سے اُس کی حمایت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زُمرے میں آتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بھارت دوطرفہ تعلقات کی خلاف ورزی کررہا ہے جو کہ ناقابلِ معافی جُرم ہے۔

مسعود خان نے کہاکہ بھارت بی ایل اے کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے، عالمی سیاست کی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھارت کی جوابدہی نہیں ہو پا رہی، پاکستان نے کئی بار اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز کو شواہد پیش کیے ہیں، صرف اِس واقعے کے نہیں بلکہ اِس سے قبل پیش آنے والے حادثات میں بھی بھارتی مداخلت کے ثبوت ہم جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی فورمز پر پیش کرتے رہے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ ایک مستحکم پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے اور ایک مستحکم جنوبی ایشیا ساری دنیا کے مفاد میں ہے، ہندوستان یہ سمجھ رہا ہے کہ اِس طرح پاکستان کو نیچا دکھائے گا، گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک ہم ایک قوم ہیں اور اِس طرح دہشتگردی کے واقعات سے ہمیں زیادہ فرق نہیں پڑےگا۔

’امریکہ کی جانب سے پاکستانی معدنیات میں سرمایہ کاری خوش آئند ہے‘

مسعود خان نے کہا کہ امریکا کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا تجربہ ہے، پاکستان کے پاس لیتھئم اور تانبے کے ذخائر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے خوش آئند ہیں، اگر امریکا یہاں سرمایہ کاری کرتا ہے تو دونوں مُلکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوسکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امریکا پاک امریکا تعلقات پاک چین تعلقات پاکستان ٹیرف وار سابق سفیر سفارتکار سی پیک مسعود خان معدنیات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  •  جماعت اسلامی نے حماس کے ساتھ یکجہتی کے لئے ملک گیر ہڑتال کروانے کا اعلان کر دیا
  • چائنا میڈیا گروپ کی طرف سے “آئیڈیاز کی طاقت چین اور آسیان” کے موضوع پر خصوصی مکالمے کانعقاد
  • امت مسلمہ متحد ہو جائے تو فلسطین آج آزاد ہو سکتا ہے: طاہر محمود اشرفی
  • چین امریکا کی ٹیرف وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مسعود خان
  • پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے آبادی میں اضافے کو مربوط کرناناگزیر ہے. ویلتھ پاک
  • ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کتنا جرمانہ ہو سکتا ہے؟جانیں
  • امریکی پاگل پن” کا مقابلہ “چائنا استحکام” کے ساتھ کر رہا ہے، چینی میڈیا
  • “امریکی پاگل پن” کا مقابلہ “چائنا استحکام” کے ساتھ کر رہا ہے، چینی میڈیا
  • سینئر افسر کو مدت ملازمت بڑھانے کیلئے ذاتی ڈیٹا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا مہنگا پڑگیا
  • دنیا کا مظلوم ترین بادشاہ