سینیٹر عرفان صدیقی کی نئی کتاب ”پی۔ٹی۔آئی اور پاکستان: سائفر سے فائنل کال تک“ شائع ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آباد:مسلم لیگ (ن) کے سینئر راہنما اور سینٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر، سینیٹر عرفان صدیقی کی نئی کتاب ”پی۔ٹی۔آئی اور پاکستان: سائفر سے فائنل کال تک“ شائع ہوگئی ہے۔ یہ کتاب اپریل2022 سے دسمبر2024 تک پی۔ٹی۔آئی کی سیاست کا احاطہ کرتے ہوئے عرفان صدیقی کے کالموں کا مجموعہ ہے جو اہم قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ 56 کالموں اور 232 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ”عکس“ پبلشرز لاہور نے شائع کی ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سفرِ زیست
پروفیسر حسین صمدانی بنیادی طور پر آرٹسٹ ہیں مگر ادب، فلسفہ، شاعری پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ ان کی تازہ ترین تصنیف ’’سفرِ زیست‘‘ مضامین و افسانوں پر مشتمل ہے۔ حسین صمدانی دریا ئے سندھ کے کنارے آباد قدیم بستی کوٹری میں پیدا ہوئے۔ خاندان اور والد کے ساتھ حیدرآباد کی نئی آبادی لطیف آباد میں منتقل ہوگئے۔ سندھ یونیورسٹی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کی۔
سفرِ زیست پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے چھٹے حصے میں معروف ادیبوں اور صحافیوں نے صمدانی صاحب کے بارے میں جو مضامین تحریر کیے ہیں وہ شامل ہیں۔ ادارہ سلسلہ لوح و قلم کے روحِ رواں حسین جاوید نے سفر زیست کو پرنٹنگ کے جدید معیار کے مطابق شایع کیا ہے۔ یہ کتاب 395 صفحات پر مشتمل ہے۔ حسین صمدانی نے کتاب کا انتساب سچ کے نام جو ازل سے موجود اور ابدی ہے منسوب کیا ہے۔ پروفیسر صمدانی نے انتساب کے آغاز پر لکھا ہے کہ سچ مبہم نہیں ہے۔
خود کو شعلوں کے سپرد کرنے والوں ، دار پرگھسیٹے جانے والوں کو تپتی ریت پر ذبح ہوجانے والوں کے لیے سچ واضح ہے۔ آگ کی بھٹی میں بے گناہ جھونک دیے جانے کا منظر دیکھ کر رونے والی اور شہر کو اس کے باسیوں سمیت کھنڈر بنتا دیکھنے والی اشکبار آنکھیں یکساں طور پر غم زدہ ہیں۔ معروف عوامی مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ حسین صمدانی کی ذات پر بہت خوبیاں موجود ہیں مثلاً وہ آرٹسٹ ہیں، شاعر ہیں، افسانے اور مضامین بھی لکھتے ہیں اور شاعری کو بھی دیکھتے ہیں۔ زندگی کیا ہے، ان کے احساسات اور مشاہدات، ان کی تحریروں میں ہمیں نظر آتے ہیں۔
حسین صمدانی کے آرٹ اور ان کی تحریروں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زندگی کے جن نشیب و فراز سے گزرے ہیں وہ شاید اب ان کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ کسی بھی ادیب، شاعر یا دانشور کی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں سادگی بھی ہو اور تشنگی بھی ہو۔ ڈاکٹر مبارک لکھتے ہیںکہ صمدانی کی تحریروں میں تمام فلسفیانہ خوبیاں نظر آتی ہیں۔ کتاب کا پہلا حصہ سیاسی و سماجی مضامین پر مشتمل ہے۔ صمدانی صاحب کے پہلے مضمون کا عنوان سوشلزم، کمیونزم اور اتحاد ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال ہائی اسکول میں ایک چھوٹی سی لائبریری تھی۔ لائبریری سے اسٹوڈنٹس کتاب گھر پر لے جاسکتے تھے۔
بقول صمدانی ’’ایک مرتبہ یہاں سے ایک کتاب اشو کرائی۔ اسی پردہ کے پیچھے (مصنف کا نام یاد نہیں رہا) دراصل انقلاب روس کے بعد مملکت روس کے احوال پر مبنی تھا۔ مختصر ایک ایسی ملحد ریاست جہاں عوام کو کوئی حقوق نہیں ملے۔ اس کے برعکس ماسکو اشاعت گھر کی کتابیں (ظوئے انصاری کے بہترین ترجمے) ایک اور دنیا کی طرف مائل کردیتے تھے۔ ‘‘صمدانی مزید لکھتے ہیں کہ چونکہ ذاتی سطح پر ایک فیتھ ڈسپلن آرڈر (Faith Discipline Order) کے ساتھ رہا، لہٰذا مجھے اس قسم کے دلائل بھی دینے پڑتے تھے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی (جنھوں نے حج و عمرہ بھی کیے ہوئے تھے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوںمیں سے ایک تھے مگر ان دلائل کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ میرے ایک سینئر پڑھے لکھے پشتون دوست ہیں۔
ان سے ایک مرتبہ گفتگو رہی تو انھوں نے مجھے مدلل تاریخی و تحقیقی نکتہ نظر سے بتایا کہ کمیونسٹ ہونا اور ملحد ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ دو علیحدہ علیحدہ باتیں ہیں۔ ایک اور مضمون کا عنوان گلوبل ولیج اور مفادات کا کارنیول ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ تہذیبوں کا گلوبل ولیج (گولڈ وار کے ٹھکانے لگنے کے بعد) اب کسی نظریاتی پردہ داری کے بغیر انویسٹرز کی اکثریت اب اپنے نام یعنی پروڈکٹ اور اس سے جڑی ساکھ سے لاتعلق صرف اپنے منافع کے لیے سرگرداں ہیں۔
چنانچہ اس سلسلے میں معاشی ترقی برقرار رکھنے والی تہذیبوں نے معاشی کشمکش سے دوچار تہذیبوں و نسلوں کے ساتھ مل کر اپنے اپنے تجارتی و معاشی اہداف کو نت نئے نام دیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اس بازار کا ایک پرکشش نام صنعتی و ثقافتی کارنیول (میلہ) بھی ہے۔ اس کارنیول میں کوئی بھی شریک ہوسکتا ہے، اپنا اسٹال لگا سکتا ہے۔ سفرِ زیست کا ایک اہم ترین مضمون کا عنوان ’’بدلتے ہوئے حالات اور سماجی رشتے ‘‘ہے۔ مصنف کا کہنا ہے بدلتے ہوئے حالات بالخصوص معاشی حالات کے زیرِ اثر تبدیلیوں سے دوچار رہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں طرزِ زندگی Life Style بھی بدلاؤ سے دوچار ہوتا ہے۔
پروفیسر صمدانی نے اس تناظر میں ایک انتہائی اہم بات لکھی ہے کہ پیداواری رشتے سماجی اخلاقیات کا تعین کرتے ہیں۔ یہ ایک پاپولر تھیوری ہے۔ بقول مصنف جب کوئی تھیوری پیش کی جاتی ہے اور وہ پاپولر تھیوری میں تبدیل ہوجائے تو اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ آج کمیونسٹ چائنا کو مسلمانوں کے لیے تسبیح، جائے نماز یا مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک ممالک کو اسلحہ بیچنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی چائنا تھا جس نے کٹرکمیونسٹ ہونے کی بناء پر مغرب سے لے کر کولڈ وار کے بتدریج ریلکس کیے جانے پر سوشلسٹ سوویت یونین کو سوشلسٹ سامراج کا نام دیا تھا۔ پیداواری قوتیں معاشی حوالوں سے ہو کر انفرادی سماجی سطح پر نہایت اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ تھیوری آج بھی بہت Solid ہے مگر بقول مصنف اس کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ ہے۔ سماج میں موجود رشتوں میں بنیادی سطح پر اس بات سے جڑی ہوئی ہے کہ کس کے لیے کس قدر اور کتنا کارآمد ہوئے اور مرزا غالب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ :
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
مصنف نے ’’انسان کی ضرورتیں اور آرزوئیں ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ انسان کی ضرورتیں پیسہ کے گرد گھومتی ہیں۔ یہ کچھ غلط بھی نہیں چونکہ پیسہ ہماری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے شیخ سعدی کی ایک مثال کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ پیسہ ضرورتوں کو تو پورا کرتا ہے مگر آرزو کو نہیں، ضرورت اور آرزو میں بڑا فرق ہے مگر انسانوں کی اکثریت اپنی پوری زندگی میں اس بات میں تفریق نہیں کر پاتی کہ ضرورت کیا ہے، ضرورت کی حد کیا ہے، ضرورت اور آرزو میں کیا فرق ہے۔ صمدانی کے ایک اور مضمون کا عنوان ’’تصور قربانی اور مقدس موت‘‘ ہے۔
پروفیسر صمدانی نے Evil Genius کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ تخلیق کارکبھی بھی برا انسان نہیں ہوتا۔ اگر برا ہو تو پھر اس سے زیادہ برا کوئی اور انسان ہو ہی نہیں سکتا۔ دراصل ایک حساس انسان و تخلیق کار کی حیثیت سے جن احساسات و جذبات کا ادراک کرچکا ہوتا ہے اور سمجھ چکا ہوتا ہے اخلاقیات کی جن قدروں کو وہ جان اور مان چکا ہوتا ہے ان احساسات کو اپنی خود غرضی کی خاطر محض لالچ، حسد اور نفرت کی بناء پر کبھی خود سے جدا نہیں کرسکتا، ہرگز آسان کام نہیں ہے۔ ان سب کو رد کرنے اور لات مارنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔
عورت تہذیب کے تسلسل میں جینڈر کے حوالے سے ترتیب شدہ اخلاقیات کے عنوان سے مصنف نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ مختلف مذاہب خواہ وہ زمینی ہو یا آسمانی ، ان کی جانب سے اس کرئہ ارض پر انسان کی پیدائش سے متعلق جو نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ ان سب میں کم و بیش جینڈر کی بنیاد پر عورت اور مرد کے مابین کم تر اور ہر شہر کی کوئی نہ کوئی تشریح ضرور موجود ہے۔
ان میں وہ مذاہب بھی شامل ہیں جنھوں نے انسانوں کی دنیا میں اپنے اثر و نفود کی بنیاد پر کافی زیادہ پھیلاؤ اور برتری حاصل کی ہے جنھیں ہم آسمانی مذاہب کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اسی طرح مرد اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقہ سے پوری کرنے کے لیے مذہبی و اخلاقی قوانین کے سامنے جوابدہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ عورت ان سب سماجی ،اخلاقی و ریاستی قوانین کے سامنے جوابدہ ہونے کے علاوہ نہ صرف اپنے شوہر اور اپنی زندگی میں شامل ہمہ اقسام کے رشتوں، ان رشتوں سے جڑے ہوئے مردوں (باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا) ان کی سہولت کار عورتوں، سب کے سامنے جوابدہ سمجھی جاتی ہیں۔
چنانچہ عورت کی اپنی زندگی سے متعلق کسی بھی رشتے کے حوالہ سے موجود مرد (رشتوںکے مراتب حفظ مراتب کے ساتھ) عورت سے باز پرسی کا سماجی اور اخلاقی قانون خود محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں پروفیسر صمدانی کے کئی اور مضامین کے علاوہ ان کے بہترین افسانے بھی موجود ہیں۔ سفرِ زیست اردو لٹریچر میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔