WE News:
2025-04-15@04:48:19 GMT

ہوا کا دروازہ گوادر، ماضی حال اور مستقبل کے آئینے میں

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

میری ٹائم سلک روڈ (ایم ایس آر) سمندری راستوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تھا، جو چین کو دنیا کے دیگر حصوں بالخصوص بحر ہند اور بحیرہ روم سےملاتا تھا۔ یہ تجارتی، ثقافتی تبادلے اور مشرقی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کے درمیان معاملات کے پھیلاؤ کے لیے ایک اہم چینل تھا جو تانگ اور سونگ (960-1279 CE) خاندانوں کے دوران پروان چڑھا۔

چینی بحری جہاز ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی مختلف بندرگاہوں پر روانہ ہوتے تھے۔ اس راستے نے بین الاقوامی تجارت کی ترقی، سامان کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

میری ٹائم سلک روڈ کے ساتھ ساتھ کچھ اہم بندرگاہوں اور اسٹاپس جن میں گوانگزو (چین) کے علاوہ ملاکا (ملائیشیا)، کالی کٹ (بھارت)، بہار (بمبئی)، عدن (یمن)، اسکندریہ (مصر) اور قسطنطنیہ (ترکی) میری ٹائم سلک روڈ شامل تھے۔

یہاں سے بین الاقوامی تجارت عروج پر رہی ہے، تاہم یہ 16ویں صدی میں یورپی سمندری طاقتوں کے عروج کے ساتھ زوال پذیر ہوئی، لیکن اس کی میراث عالمی تجارتی اور ثقافتی تبادلے کی تشکیل جاری رہی۔ اسی سمندری راستے کے ایک اہم اسٹاپ گوادر (ہوا کا دروازہ) ایک اہم درجہ رکھتا تھا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ مچھلی اور جھینگا کی تجارت کا یہ اہم مرکز کے ساتھ ساتھ جنگوں میں ایک اہم کردار بھی ادا کر تی رہی ہے، خصوصا جنگ عظیمِ اول کے فوری بعد گوادر ایئرپورٹ اور سی پورٹ نے اتحادی افواج کے لیے کافی کام کیا۔

برطانیہ نے گوادر ایئرپورٹ جو اس وقت عمان کے کنٹرول میں تھا، سے بہت سے فوائد حاصل کیے، اور اس بین الاقوامی ہوائی اور سمندری راستوں پر تسلط قائم رکھا۔

یاد رہے کہ لفظ ‘گوادر’ 2 بلوچی الفاظ کا مجموعہ ہے، گوادر کا مطلب ہے ‘ہوا’ اور در کا مطلب ہے ‘گیٹ وے’ یا ‘دروازہ’۔ اس طرح  ‘گوادر’ کا ترجمہ ‘ہوا کا دروازہ’ یا ‘ہوا کا راستہ’ ہے۔

گوادر دراصل ماضی میں ریاست قلات بلوچستان کا اہم حصہ تھا۔ اور اس کو ریاست قلات کے والی نے عمان کے شہزادے کو (جو اپنے ملک سے جان بچا کر والی قلات کی پناہ میں تھا) تحفے کے طور پر دے دیا، بعد میں عمان کے اسی شہزادے نے جب سلطنت کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تو اس نے 1783 میں  گوادر میں اپنا گورنر لگا دیا۔

1922 کے نزدیک پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کی گوادر میں ایک ایئرپورٹ بنا کر خطے میں بڑی اور بحری تسلط قائم کرلیا۔

اسی طرح 1950 کی دہائی میں امریکا نے بھی گوادر میں اسٹریٹجک وجوہات کی بنا پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے باقاعدہ آغاز کیا۔ وہ بہت سی وجوہات کی بنا پر یہاں ایک مواصلاتی بوسٹر نصب کرنا چاہتا تھا۔

سرد جنگ کا پروپیگنڈا

سرد جنگ کے دوران VOA  امریکا کے لیے اپنے نظریے کو نشر کرنے اور سابق سوویت یونین کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ تھا۔  گوادر میں ایک بوسٹر وائس آف امریکا کو مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں وسیع تر سامعین تک پہنچنے کے قابل بنانا

  سابق سوویت اثر و رسوخ کا مقابلہ

 امریکا کو خطے میں خاص طور پر ایران اور افغانستان میں سوویت اثر و رسوخ کے پھیلاو پر تشویش تھی۔ گوادر میں VOA کے ایک بوسٹر  سوویت پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور امریکی مفادات کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا تھا۔

مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا تک رسائی

خلیجِ فارس کے منہ پر واقع گوادر کے اسٹریٹجک مقام نے اسے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا تک نشریات کے لیے ایک مثالی مقام بنانا۔

امریکا اپنے نظریاتی اور ثقافتی اثر و رسوخ کو وسعت دینے کے لیے اس جغرافیائی فائدہ سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

سابق سوویت بحری سرگرمیوں کی نگران

اس وقت خطے میں سوویت یونین کے بحری اڈوں سے گوادر کی قربت نے اسے سوویت بحری سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے ایک پرکشش مقام بنا دیا۔  VOA  بوسٹر نے انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کی کارروائیوں کے لیے ایک آسان کور فراہم کرنا تھا۔

تاہم گوادر میں VOA بوسٹر لگانے کا منصوبہ بالآخر ناکام ہوگیا، کیونکہ عمانیوں نے حیرت انگیز طور پراس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ تاہم، یہ واقعہ سرد جنگ اور امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان عظیم طاقت کی دشمنی کے تناظر میں گوادر کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

تاہم حیرت انگیز طور پر 1950 کی دہائی کے اوائل میں ہی ہندوستان کو بھی گوادر کے حصول میں مضبوط مفادات تھے، کیونکہ اس مصنف نے  ایک بہت ہی چشم کشاد رپورٹ دیکھی کہ 50 کی دہائی کے اواخر میں ایک ہندوستانی ایلچی گوادر میں تقریباً 6 ماہ رہا اور دفتر خارجہ پاکستان نے بھی اس پر تشویش ظاہر کی اور اسے وہاں سے واپس بلا لیا، جس سے ثابت ہوا کہ ہندوستان کو شروع سے گوادر میں گہری دلچسپی تھی اور اب بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک تمام ہندوستانی بلوچستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کے پیچھے مبینہ طور پر ملوث ہیں۔

بھار ت کی گوادر میں دلچسپی کی وجوہات اسٹریٹیجک مقام

خلیج فارس کے منہ پر گوادر کا محل وقوع اسے ہندوستان کی سمندری تجارت کے لیے ایک اہم مقام بناتا ہے۔ گوادر کے حصول سے بھارت کو خطے میں اسٹریٹجک قدم جمانے کا موقع ملتا۔

وسطی ایشیا تک رسائی

گوادر نے پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے ہندوستان کو وسطی ایشیا کے لیے براہ راست راستے کی پیشکش کی۔ یہ سرد جنگ کے دور میں خاص طور پر اہم تھا، کیونکہ بھارت نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔

2.

پاکستان کا مقابلہ

 1947 میں تقسیم کے بعد سے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات تھے۔ گوادر کے حصول سے ہندوستان کو پاکستان پر اسٹریٹجک فائدہ حاصل ہوتا، جس سے وہ پاکستان کی سمندری تجارت کی نگرانی اور کنٹرول کرسکتا تھا۔

معاشی مفادات

گوادر کی قدرتی بندرگاہ اور اسٹریٹجک محل وقوع نے اسے ہندوستان کی تجارت اور تجارت کے لیے ایک پرکشش مقام بنا دیا۔ گوادر کے حصول سے بھارت کو اہم اقتصادی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

مہاراجہ جموں و کشمیر کے مفادات

جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی گوادر کو حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ گوادر کا اسٹریٹجک مقام ان کی سلطنت کو بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی فراہم کرے گا۔ گوادر میں اس کی آج بھی مداخلت اسی شورش کا تسلسل ہے۔

گوادر کو حاصل کرنے کے لیے بھارت کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، ہندوستان کی ان ناکام کوششوں کو پاکستان نظر رکھے ہوئے تھا، اور بین الاقوامی تعلقات اور علاقائی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں گوادر کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے لگا۔

اسی طرح پاکستان جو خطے میں خاص طور پر نظر رکھے ہوئے تھا، اور مستقبل کی پلاننگ کر رہا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ مستقبل میں گوادر اس کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر ے گا، اسی لیے گوادر کو واپس لانے کی کوشش شروع کر دی گئی۔

آخر کار بے انتہا سفارتی کوششوں کے بعد اور سعودی عرب کے عظیم بادشاہ شاہ فیصل کی مدد سے 1955 گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو تقریباً 40 لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔

گوادر پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد اس وقت کی حکومت پاکستان نے سمندری بندرگاہ اور ہوائی اڈے کو ترقی دینے کے لیے کاغذی منصوبہ بندی شروع کردی۔

تاہم بہت سست ہے، کیونکہ حکومت ملک میں مختلف دیگر غیر ترقی کے مسائل میں ڈوبی ہوئی ہے، بعد میں سب کچھ کولڈ اسٹوریج میں پڑا۔  1970 کی دہائی تک ہوائی اڈے کو ترقی نہیں دی جاسکی اور یہ بے قابو ہوکر رہ گیا۔

1982 کے بعد جب پی سی اے اے کا قیام عمل میں آیا تو اس ہوائی اڈے کو کچھ اہمیت دی گئی اور مسقط کے لیے پہلی پرواز کو 2 ملکی پروازوں کے ساتھ کمزور حالت میں روانہ کیا گیا۔ تاہم، نئے گوادور ہوائی اڈے کی منصوبہ بندی بھی 90 کی دہائی کے آخر میں کاغذوں پر شروع ہوئی۔ اور وہ گھونگھے کی طرح رہ گیا۔ آخر کار تقریباً 25 سال بعد نیا فواد ہوائی اڈہ چین کے وزیر اعظم اور پاکستانی وزیر اعظم نے مکمل کیا۔

درحقیقت گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے لیے۔ تاہم مبصرین کے مطابق درج زیل کچھ طریقے ہیں، جن سے GIA پاکستان کی ترقی میں تعاون کر سکتا ہے۔

 CPEC Hub: GIA 1.پاکستان اور چین کے درمیان ، ایک اہم لنک کے  طور پر کام کرنا، تجارت اور لوگوں کے درمیان تبادلے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔

معاشی نمو

توقع ہے کہ ہوائی اڈے سے تجارتی حجم میں اضافہ، ملازمتیں پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے پاکستان کی معیشت کو فروغ ملے گا۔

علاقائی رابطہ

 GIA پاکستان، چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان رابطے کو بڑھاتا ہے، علاقائی تعاون اور ترقی کو فروغ دیتا ہے۔

سیاحت اور صنعت

ہوائی اڈے کی جدید ترین سہولیات بلوچستان میں بڑھتی ہوئی سیاحت کی صنعت کو پورا کرے گی، جبکہ ماہی گیری، کان کنی اور مینوفیکچرنگ جیسی صنعتوں کی ترقی میں بھی معاونت کرے گی۔

انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ

GIA کی تعمیر نے گوادر کو ایک جدید شہر میں تبدیل کرتے ہوئے سڑکوں، ہوٹلوں اور دیگر سہولیات سمیت معاون انفراسٹرکچر کی ترقی کو متحرک کیا ہے۔

گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کی معیشت اور علاقائی رابطوں کے لیے گیم چینجر بننے کے لیے تیار ہے۔ گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈہ (GIA) گوادر سی پورٹ کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

کنیکٹیویٹی کو بڑھانا

GIA گوادر اور پاکستان، چین اور مشرق وسطیٰ کے بڑے شہروں کے درمیان براہ راست فضائی روابط فراہم کرے گا، تجارت اور تجارت کے مواقع میں اضافہ کرے گا۔

ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت

ہوائی اڈہ پاکستان، چین اور وسطی ایشیا کے درمیان سامان اور کارگو کی نقل و حمل کو قابل بنائے گا، جس سے گوادر سی پورٹ ایک اہم ٹرانزٹ حب بن جائے گا۔

کارگو ہینڈلنگ کی صلاحیت میں اضافہ

GIA کی کارگو ہینڈلنگ کی سہولیات گوادر سی پورٹ کی صلاحیت کو پورا کرے گی، جس سے سامان اور کارگو کی موثر نقل و حرکت ممکن ہو سکے گی۔

سرمایہ کاری اور صنعتوں کو راغب کرنا

ہوائی اڈے کی موجودگی ماہی گیری، مینوفیکچرنگ اور لاجسٹکس جیسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرے گی، نئے معاشی مواقع اور ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کی معاونت

GIA گوادر میں مجوزہ آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کے لیے سامان، عملے اور کارگو کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کرے گا۔

سیاحت اور مہمان نوازی کو بڑھانا

ہوائی اڈے سے خطے میں سیاحت میں اضافہ ہوگا، ہوٹلوں، ریزورٹس اور مہمان نوازی کی دیگر خدمات کی مانگ پیدا ہوگی، جس سے مقامی معیشت میں حصہ ڈالا جائے گا۔

سیکیورٹی اور نگرانی کو بہتر بنانا

GIA کی جدید ترین حفاظتی خصوصیات گوادر سی پورٹ اور آس پاس کے علاقوں کی مجموعی سیکیورٹی اور نگرانی کو بہتر بنائیں گی۔

ہوائی اور سمندری نقل و حمل کو مربوط کرکے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ گوادر سی پورٹ کی مکمل صلاحیت کو کھول دے گا، اقتصادی ترقی کو آگے بڑھا دے گا اور خطے کو ایک بڑے تجارتی و تجارتی مرکز میں تبدیل کر دے گا۔

اسی کے ساتھ گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے اور گوادر سی پورٹ کی ترقی سے عالمی کاروبار پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔

نئے تجارتی راستے

گوادر چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک اہم رابطے کے طور پر ابھرے گا، جس سے نئے تجارتی راستے اور مواقع پیدا ہوں گے۔

عالمی رابطے میں اضافہ

ہوائی اڈے اور بندرگاہ پاکستان اور چین کو عالمی منڈیوں سے جوڑیں گے، جس سے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے درمیان تجارت اور تجارت میں اضافہ ہوگا۔

عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیلی

ایک بڑے تجارتی مرکز کے طور پر گوادر کا ابھرنا چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ میں مدد دے گا، ممکنہ طور پر عالمی اقتصادی طاقت کی حرکیات کو تبدیل کرے گا۔

 2.میری ٹائم تجارت پر اثر

گوادر سمندری بندرگاہ بحری تجارت میں ایک کلیدی کھلاڑی بن جائے گی، جو خطے میں موجودہ بندرگاہوں کے غلبہ کو ممکنہ طور پر چیلنج کرے گی۔

سرمایہ کاری کے مواقع میں اضافہ

گوادر کی ترقی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے گی، جس سے کاروبار اور کاروباری افراد کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

علاقائی اقتصادی انضمام

گوادر علاقائی ممالک بشمول پاکستان، چین، ایران اور افغانستان کے درمیان اقتصادی انضمام کی سہولت فراہم کرے گا۔

گلوبل سپلائی چین ریلائنمنٹ

گوادر کا تجارتی مرکز کے طور پر ابھرنے سے کمپنیوں اور صنعتوں کے لیے ممکنہ فوائد کے ساتھ عالمی سپلائی چین میں دوبارہ صف بندی ہوگی۔

توانائی اور قدرتی وسائل کی تجارت

گوادر کا اسٹریٹجک مقام تیل، گیس اور معدنیات سمیت توانائی اور قدرتی وسائل کی تجارت کو آسان بنائے گا۔

 گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور گوادر سی پورٹ کی ترقی کے عالمی کاروبار، تجارت اور تجارت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ افسوس ناک طور پر تربت میں 18 فوجیوں کی حالیہ ہلاکت نے خطے میں سیکیورٹی کی صورت حال اور گوادر کے نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔  یہ حملہ جس کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) نے قبول کی ہے، بلوچستان میں ایک وسیع تر شورش کا حصہ ہے۔

 بی ایل اے گوادر بندرگاہ اور ہوائی اڈے سمیت خطے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہی ہے۔ گروپ کے ترجمان جیند بلوچ نے بلوچستان پر پاکستانی فوج کے “قبضے” اور اس کے وسائل کے استحصال کا حوالہ دیتے ہوئے مزید حملوں کی وارننگ دی ہے۔

 نئے گوادر ہوائی اڈے کے ارد گرد سیکورٹی خدشات کثیر جہتی ہیں دہشت گردی کے خطرات

بی ایل اے اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نے پہلے ہی ہوائی اڈے اور آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بنایا ہے، جس سے مستقبل میں حملوں کے خطرے کو نمایاں کیا گیا ہے۔

بغاوت

بلوچستان میں جاری شورش خطے میں عدم استحکام اور تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، ممکنہ طور پر ہوائی اڈے کی کارروائیوں میں خلل پڑ سکتی ہے۔

جیو پولیٹیکل تناؤ

گوادر بندرگاہ اور ہوائی اڈہ اسٹریٹجک اثاثے ہیں، چین خطے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس نے جغرافیائی سیاسی تناو کے تنازعات میں بڑھنے کے امکانات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔

 ان خطرات کو کم کرنے کے لیے، پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو موثر حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی، جیسے:

انٹیلی جنس اکٹھا کرنا

عسکریت پسندوں کے حملوں کی توقع اور روک تھام کے لیے انٹیلی جنس جمع کرنے اور اشتراک کو بہتر بنانا۔

سیکیورٹی پروٹوکول

ہوائی اڈے پر سیکیورٹی پروٹوکول کو بڑھانا، بشمول رسائی کنٹرول، نگرانی، اور ہنگامی ردعمل کے منصوبے۔

کمیونٹی مصروفیت

اعتماد اور تعاون پیدا کرنے کے لیے مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مشغول ہونا، ممکنہ طور پر عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کو کم کرنا۔ سیاحت کے شعبے سے وابستہ زینب کے مطابق حکومت فوری طور پر گوادر سے کم از کم ایک حج فلائٹ شروع کرے۔ اسے کوئٹہ سے منسلک کیا جا سکتا ہے جہاں پہلے ہی ایک حج فلائٹ چل رہی ہے۔

مزید ایک ڈومیسٹک فلائٹ اسلام آباد سے فوری طور پر چلائی جائے، اس سلسلے میں پرائیویٹ ایئر لائنز پر کم از کم گوادر تک ایک پرواز چلانے کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذریعے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سیاحت میں اضافہ ہوگا، بلکہ گوادر اور ملحقہ اضلاع اور شہروں کے ہزاروں لوگ مستفید ہوں گے، بلکہ اس خطے کی محرومی میں بھی کمی واقع ہو سکتی ھے۔

اسی طرح گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی حکومت، سیکیورٹی فورسز، اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مسلسل اور کثیر جہتی کوششوں کی ضرورت گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ (GIA)کو سود مند بنا سکتی ہے۔ بصورت دیگر 400000 مسافروں کی capacity والا 450 ملین ڈالر کی لاگت والا ایرپورٹ ملک کا مہنگا ترین ایرپورٹ خالی ہی رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ گوادر سی پورٹ کی تجارت اور تجارت اور مشرق وسطی بلوچستان میں ہوائی اڈے کی فراہم کرے گا بندرگاہ اور اور پاکستان سرمایہ کاری ہندوستان کو وسطی ایشیا پاکستان کی کے لیے ایک اہم کردار گوادر میں کا مقابلہ میری ٹائم کے درمیان میں اضافہ کے طور پر کی دہائی کرنے اور گوادر کو گوادر کی گوادر کا کی تجارت کرنے کے کو راغب میں ایک کے ساتھ کی ترقی ایک اہم رہی ہے ہوا کا ہوں گے کے بعد کرے گی اور اس

پڑھیں:

حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ

کراچی:

سندھ حکومت کی روایتی سست روی اور غیر سنجیدگی نے کراچی کے ہزاروں طلبہ کے تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے پورے سندھ کی طرح کراچی میں بھی انٹر سال اول و دوئم کے سالانہ امتحانات طے شدہ فیصلے کے تحت 28 اپریل سے شروع ہونے ہیں اور اس پہلے مرحلے کے امتحانات میں 1 لاکھ کے قریب طلبہ صرف انٹر بورڈ کراچی کے تحت امتحانات دیں گے امتحانات میں اب صرف 13 روز باقی ہیں لیکن چیئرمین بورڈ نہ ہونے سے امتحانی شیڈول اور مراکز کی تفصیلات جاری ہوسکی ہیں اور نا ہی اراکین اسمبلی کی سفارشات پر انٹر سال اول کے طلبہ کو گریس مارکس دیے گئے ہیں۔

انٹر سال دوئم پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے پرچوں میں شرکت کے خواہشمند تقریبا 50 ہزار طلبہ یہ بات ہی نہیں جانتے کہ انھیں اپنے فیل شدہ انٹر سال اول کے پرچے بھی دوبارہ دینے ہیں یا پھر سندھ اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں انھیں انٹر سال اول میں گریس مارکس دے کر پاس کردیا جائے گا۔

وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ کی کنوینر شپ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی کراچی کے انٹر سال اول پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے فزکس، کیمسٹری اور ریاضی کے پرچوں میں طلبہ کو 20 فیصد تک گریس مارکس دینے کی سفارش کر چکی ہے۔

 یہ سفارش این ای ڈی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تجویز پر کی گئی تھی اور اس حوالے سے 25 مارچ کو سندھ اسمبلی میں منعقدہ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اراکین اسمبلی نے اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ طلبہ کو یہ گریس مارکس دیے جارہے ہیں اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اس سلسلے میں سمری بنا کر وزیر اعلیٰ سندھ سے منظوری کے بعد اس فیصلے کو نوٹیفائی کردے گا۔تاہم اب کم از کم 20 روز گزرنے کےبعد بھی معاملہ جوں کا توں ہے اور محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز تاحال اس فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکا۔

"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں سیکریٹری محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز عباس بلوچ سے رابطہ کیا، تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

ادھر صورتحال یہ ہے کہ اب اگر اس فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو انٹر بورڈ کراچی کو انٹر سال اول کے نتائج تبدیل کرنے اور طلبہ کو گریس مارکس دینے میں ایک بڑی مشق سے گزرنا ہوگا نتائج کی ٹیبولیشن دوبارہ ہوگی ایک بار پھر مارک شیٹس پرنٹ ہوں گی اور طلبہ کو جاری کی جائیں گی جس کے لیے کم از کم 1 ماہ کا وقت درکار ہے جبکہ 28 اپریل سے انٹر سال دوئم کا امتحان دینے والے طلبہ اپنے امتحانی فارم پر انٹر سال اول کے فیل شدہ پرچوں کی تفصیلات درج کرچکے ہیں۔

مزید براں گزشتہ تقریبا دو ہفتے سے انٹر بورڈ کراچی میں کوئی چیئرمین موجود نہیں ہے حکومت سندھ قائم مقام چیئرمین پروفیسر شرف علی شاہ کو سبکدوش کر چکی ہے جس کے بعد نئے چیئرمین کی تقرری کی گئی تھی انھوں نے چارج نہیں سنبھالا، اب حکومت سندھ متوقع امیدوار ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی فقیر لاکھو کو چارج دینے میں تذبذب کا شکار ہے۔

 امتحانات میں 13 روز باقی ہیں لیکن چیئرمین بورڈ نہ ہونے سے اب تک امتحانی شیڈول کا اجراء ہوسکا ہے اور نہ ہی سینٹر لسٹ جاری کی گئی ہے کیونکہ ان دونوں اہم فیصلوں کی منظوری چیئرمین بورڈ کی جانب سے دی جاتی ہے اور امتحانات سے 13 روز قبل بھی کراچی کے طلبہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا امتحانی سینٹر کہاں بنایا گیا ہے اور 28 اپریل اور ازاں بعد انھیں کس مضمون کا پرچہ کس تاریخ کو دینا ہے۔

"ایکسپریس" نے قائم مقام ناظم امتحانات زرینہ چوہدری سے بھی اس سلسلے میں بات کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہوم ورک تو مکمل ہے لیکن چیئرمین بورڈ ہمارا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اس کی منظوری کے بغیر امتحانات کا شیڈول جاری کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سینٹر کی تفصیلات طلبہ کو بتائی جا سکتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
  • امریکی اراکین کانگریس نے دورۂ پاکستان کو انتہائی کامیاب اورمستقبل کےحوالے سے اہم قرار دیدیا
  • امریکی اراکین کانگریس نے دورہ پاکستان کو کامیاب اور مثبت قرار دیدیا
  • کراچی، کورنگی ڈھائی نمبر میں رات گئے بااثر افراد کی ہوائی فائرنگ
  • قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
  • اعلیٰ قیادت میں اختلافات کے بعد پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟ نصرت جاوید کا اہم تجزیہ
  • لاہور میں اے آئی یونیورسٹی کا قیام، مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے، مریم نواز
  • پاکستانی نوجوانوں کیلئےبیرون ملک روزگار کا دروازہ کھل گیا
  • گوادر: پسنی میں گاڑی سے 54 کلو آئس برآمد