ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے 2024ء میں 84 مرتبہ انٹرنیٹ بند رکھا، رپورٹ کے مطابق اس دوران منی پور میں21، ہریانہ میں 12 جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی 12مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا اور یہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم ”ایکسیس ناﺅ اور کیپ اٹ آن کولیشن“ Access Now ،Keep It On coalition کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے 2024ء میں 84 مرتبہ انٹرنیٹ بند رکھا جو ایک جمہوری ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک رہا، جہاں سال بھر میں 12 انٹرنیٹ شٹ ڈائون ریکارڈ کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق ”حوصلہ مند مجرم، خطرے سے دوچار کمیونٹیز“ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی حکام اختلاف رائے کو دبانے اور معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈیجیٹل بلیک آئوٹ کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مسلسل چھ سالوں سے انٹرنیٹ بند کرنے کا عالمی ریکارڈ اپنے پاس رکھے ہوئے تھا لیکن میانمار نے 2024ء میں 85 مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا اور یوں اس نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ تاہم بھارت 16 ریاستوں اور علاقوں میں شٹ ڈائون کے نفاذ کے ساتھ ڈیجیٹل بلیک آئوٹ مسلط کرنے والا سرکردہ جمہوری ملک رہا۔ رپورٹ کے مطابق اس دوران منی پور میں21، ہریانہ میں 12 جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی 12مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا گیا اور یہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انٹرنیٹ بند ہونے سے نہ صرف مواصلات میں خلل پڑتا ہے بلکہ بنیادی حقوق، معیشت اور ہنگامی خدمات تک رسائی پر بھی نہایت منفی اثر پڑتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رپورٹ میں کہا گیا انٹرنیٹ بند سب سے زیادہ کہ بھارت

پڑھیں:

حادثات کی ذمے دار سڑکیں بھی ہیں

کراچی میں ٹریفک حادثات ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اورکوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن حادثے میں کسی جانی نقصان کی خبر میڈیا میں نہ ہوتی ہو ۔ کراچی میں اسلام آباد و لاہور جیسی تو شاید ہی کوئی سڑک ہو جہاں سڑک کی سطح ہموار اور ٹوٹ پھوٹ سے پاک ہو جہاں ٹریفک کی روانی کسی بھی وجہ سے متاثر نہ ہوتی ہو۔

ایسی سڑکیں کراچی کے پوش ایریاز میں تو ممکن ہیں مگر شہر کی دیگر شاہراہیں ایسی نہیں ہیں جہاں تیز رفتار ٹریفک کی روانی میں کوئی حادثہ نہ ہوتا ہو۔ بڑی سڑکوں پر تیز رفتار گاڑیاں ضرورت سے تیز رفتاری سے گزرتی ہیں اور مقررہ اسپیڈ کی دھجیاں وہاں اڑتی نظر آتی ہیں۔ ایسی شاہراہوں پر اسپیڈ چیک کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ کراچی کی اکثر سڑکیں وہاں روشنی کا نظام اور ٹریفک سسٹم ملک بھر میں سب سے بدتر ہے۔ وہاں ٹریفک اہلکاروں کا زور ٹریفک روانی بحال کرنے سے زیادہ چالانوں پر ہے اور ان کا نشانہ چھوٹی گاڑیاں اور بائیک سوار زیادہ ہیں۔

مہنگی اور قیمتی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کو روکنے کے لیے ان کے ہاتھ کھڑے ہی نہیں ہوتے جو چھوٹی گاڑیوں اور بائیک سواروں کو روک روک کر تھک جاتے ہیں اور غریب و متوسط طبقہ ہی ان سے زیادہ چالان ہوتا ہے جن پر بیٹھے لوگ رعب دار شخصیت بیورو کریٹس اور نہایت بااثر ہوتے ہیں اور ان کی لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے والی اولاد کو ہی اگر غلطی سے ٹریفک اہلکار اگر روک لے تو جھاڑ پڑنے پر وہ ان سے معذرت کر کے سلیوٹ بھی کرتا ہے ورنہ ان وی آئی پیز کو چالان کرنا تو دور کی بات اگر روک بھی لے تو انھیں روکنا اس کے گلے پڑ جاتا ہے اور انھیں سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔

ٹریفک چالان اور جرمانے اثر و رسوخ نہ رکھنے والوں کا مقدر ہے اور اب تو وکلا حضرات بھی اپنی گاڑیوں پر نمایاں طور پر ایڈووکیٹ لکھواتے ہیں اور پولیس اہلکار ان کی گاڑیوں کو روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چھوٹی گاڑیاں اور بائیکس چالان کرنے پر ٹریفک پولیس کو معقول کمیشن ملتا ہے اس لیے ان کا زور بھی سفارش نہ رکھنے والوں پر ہی زیادہ چلتا ہے۔

 کراچی شہر کی اندرونی بڑی سڑکیں جن سے اندرون شہر کی تباہ حال سڑکیں ہی رابطے کا ذریعہ ہیں، وہ زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جہاں کھلے ہوئے گٹر بھی عام ملیں گے جگہ جگہ سیوریج کا پانی بہتا یا کھڑا نظر آئے گا۔ اندرونی سڑکوں پر گٹر بھی درمیان میں ہوتے ہیں اور نشیب میں گٹروں کا پانی دور تک پھیلا ہوتا ہے۔

کراچی میں سپر ہائی وے سے ملانے والا روڈ ہو یا نارتھ ناظم آباد سے گزر کر نارتھ کراچی، سرجانی والی شاہراہیں یا شارع فیصل، گلشن اقبال، گلستان جوہر سے سہراب گوٹھ و نیو کراچی جانے والی معروف سڑکیں وہاں بھی سڑکیں ہموار نہیں بلکہ جگہ جگہ کہیں گڑھے آ جائیں گے، کہیں سڑک ٹوٹی ملے گی جو اچانک نظر آ جانے پر گاڑی یا بائیک والوں کو رفتار کم کرنا پڑتی ہے تو نتیجہ میں پیچھے سے آنے والی گاڑیاں اچانک رکنے یا سلو ہونے سے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں جس سے لوگوں کا نقصان ہی نہیں بلکہ جھگڑے بھی ہوتے ہیں اور ٹریفک کی روانی متاثر ہونے سے پیچھے گاڑیوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔

بڑی شاہراہوں سے ملانے والی جو اندرونی سڑکیں ہیں وہ زیادہ تباہ حالی کا شکار اور حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔ یوں تو پورے شہر کا یہی حال ہے اورکراچی کے مقدر میں سرکاری تاخیر زیادہ لکھی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی منصوبہ وقت پر مکمل نہیں ہوتا جس کی مثال یونیورسٹی روڈ ہے جس پر چار سالوں سے تعمیری کام چل رہا ہے جہاں مزار قائد چورنگی سے صفورا، گلستان جوہر روٹ پر بسیں چلنی ہیں جو نمائش چورنگی پر آپس میں ملائی جائیں گی جس کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ کی طویل سڑک پر روزانہ ٹریفک جام رہنا معمول اور حادثات کا سبب بن رہا ہے۔

حسن اسکوائر سے ہر وقت سیکڑوں گاڑیاں اور بائیک سوار ایف بی ایریا، نیو کراچی، سہراب گوٹھ، گلشن چورنگی و دیگر علاقوں میں جانے کے لیے گلشن اقبال، بلاک 13 ڈی کے علاقے سے گزرتے ہیں جہاں سڑک کی مرمت تو کرا دی گئی مگر نئے ریلوے پل سے سر شاہ سلیمان روڈ اور یونیورسٹی روڈ سے ملانے والی تھوڑے فاصلے کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت چھوڑ دی گئی جہاں سڑکیں تباہ حالی کا شکار ہیں اگر ان کی بھی مرمت کرا دی جاتی تو ٹریفک رواں ہو جاتی۔ یہ ایک مثال ہے اور ہر اہم سڑک کے اطراف یہی حال ہے۔

  کراچی میں تقریباً 80 فی صد سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور تباہی کا شکار ہیں جو حادثات کی بڑی وجہ ہے۔ بلدیاتی اداروں کے متعلقہ انجینئرز بھی ان سڑکوں سے گزرتے ہیں،لیکن شاید وہ بھی نوٹس نہیں لیتے کہ سڑکوں کی لمبی تعمیر یا پیچ ورک ہو رہا ہو وہاں چند گز کے مزید گڑھے بند یا مرمت کرا کر سڑک کو بہتر بنا دیں۔ ٹوٹی و تباہ حال سڑکوں کی مرمت میں کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے مگر نہ جانے یہ گٹر اور ٹوٹی سڑک کیوں نہیں بنائی جاتی اگر یہ بھی مرمت ہو جائے تو ٹریفک حادثات کم ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • انڈیا میں غیرمساویانہ اور غیر متوازن معاشی ترقی ہورہی ہے، رپورٹ میں انکشاف
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کراچی،پانی و بجلی کی بندش کیخلاف شہر کے متعدد مقامات پر احتجاج
  • حادثات کی ذمے دار سڑکیں بھی ہیں
  • مظفرگڑھ: بجلی کی بندش کیخلاف انوکھا احتجاج، میپکو دفتر کے سامنے کچرا ڈال دیا گیا
  • 2018ء کے بعد پہلی بار بھارت انٹرنیٹ بند کرنے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر رہا، رپورٹ
  • پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے تمام معاملات جمہوری انداز اور مذاکرات سے ہی حل ہونے چاہئیں، عارف علوی
  • ویرات کوہلی نے ون ڈے میں ایک اور ریکارڈ اپنے نام کر لیا
  • پاک افغان طورخم بارڈر دوسرے روز بھی ہر قسم کی آمد ورفت کیلئے بند، عوام اور تاجر پریشان