Daily Ausaf:
2025-02-26@13:10:57 GMT

لٹی جو فصل بہاراں تو کیا دیکھا ؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

دجالی چینلز ، اور بے لگام سوشل میڈیا کی تباہ کاریاں پوری شدت سے جاری ہیں، روزنامہ اوصاف وہ واحد اخبار ہے کہ جس نے ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی وعریانی اور میڈیائی دجل و فریب کے خلاف نہ صرف یہ کہ آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کی،بلکہ اکابر علماء کرام اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کو بھی اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ،روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان صاحب نے ’’میڈیا اور منبرکا کردار‘‘ سلوگن کے ساتھ اس دجل وفریب کاری اور فحاشی وعریانی کے سیلاب بلا کے سامنے بند باندھنے کی بڑی کوشش کی ، مگر!اے بسا کہ آرزو خاک شد،اب تو وزیر اعظم سے لے کر آرمی چیف تک ہر کوئی سوشل میڈیا کی بے لگامی سے تنگ ہی نہیں، بلکہ پریشان ہے اور حکومت اس بے لگامی کو روکنے کے لئے نت نئے قوانین بنا رہی ہے،کاش اے کاش، اگر 2016-17ء سے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام ﷺ،آپ کے صحابہ واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخیاں کرنے والے شیطان ملعونوں کو بروقت قانون کے مطابق سزائیں دے دی جاتیں تو آج حکمرانوں ،سیاست دانوں ،علماء کرام سنجیدہ فکر انسانوں کو میڈیا کی ’’بے لگامی‘‘کا رونا نہ رونا پڑتا،مولانا عبد المنعم فائز نے بالکل درست لکھا کہ ڈاکٹر عبدالحی عارفی ؒنے حکم فرمایا،آپ دونوں بھائی جلسوں میں نہ جایا کریں۔ یہ حکم دیا گیا تھا حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی اور مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کو۔ ان حضرات کو جلسوں میں بلایا جاتا، اشتہارات میں نام شائع ہوتے اور دینی تقریبوں اور مجلسوں کی زینت بنایا جاتا۔
مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں، کریں، تقریر نہ کریں۔ اب مختلف مدارس کا اصرار اور بے شمار چاہنے والے اصرار کرنے لگے۔ حضرت کی خدمت میں عرض کیا تو فرمایا، ان کو میرا نام لے دینا کہ اس نے منع کیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے منتظمین آئے کہ عرصہ سے آپ کی تقریر نہیں ہوئی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو منع فرمادیا۔ فقہ و تصوف پربڑی محنت سے ایک تحریر لکھی، ایک روزنامہ میں وہ شائع ہونے کے لیے دیدی۔ حضرت کی نظر سے وہ تحریر گزری۔ پیر کے روز مجلس میں فرمایا، وہ مضمون جو آپ نے ایک اخبار میں چھاپ دیا ہے، اس کا تو کوئی فائدہ مجھے محسوس نہیں ہوا۔ بھئی!اخبار میں بھی مضمون نہ دیا کریں۔ مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم پر جب یہ پابندی لگی، اس وقت آپ کی عمر 41سال تھی، آپ کے چار بچے تھے اور دارالعلوم کراچی میں مہتمم تھے، دورہ حدیث میں مسلم شریف پڑھاتے تھے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی عمر اس وقت 35 سال تھی اور آپ کی کتابیں ہرجگہ پڑھی جاتی تھیں۔ مگر ان دونوں حضرات کو ڈاکٹر عبدالحی عارفی ؒنے فرمایا، ابھی آپ ناپختہ ہیں، ابھی آپ کو بلوغ نہیں۔ ابھی تقریر کرنا چھوڑ دیں، کیونکہ خدانخواستہ اگر شہرت کا شوق ہوگیا تو ساری محنت بے کار جائے گی۔ یہ پابندی چند دن یا چند سال کے لئے نہیں لگی، اگلے دس سال تک علم کے یہ ستون اور عمل کے یہ پیکر تقریر و تحریر سے دور رہے۔ دس سال تک عوامی جلسوں میں جانے، تحریر شائع کرنے پر پابندی عائد رہی۔
ہیچ کس از نزد خود چیزے نہ شد
ہیچ آہن خنجر تیزے نہ شد
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تاغلامے شمس تبریزے نہ شد
یہ آج سے تقریبا ً43سال پرانا واقعہ ہے۔ جب نہ ٹی وی، نہ کیمرہ، نہ الیکٹرانک میڈیا، نہ سوشل میڈیا تھا۔ اخبار، جلسے جلوس اور زیادہ سے زیادہ ریڈیو موجود تھا۔ آج ہم اس دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں دنیا ہتھیلی پر آچکی ہے۔ دنیا ایک کلک کی دوری پر موجود ہے۔ فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسی اپلی کیشنز پر عجب کا بازار سجاہے، حب جاہ کا میلا لگا ہے، حب مال کی منڈی گرم ہے، خودرائی کا سیلاب ہے جو ہماری نوجوان نسل کو بہائے لے جارہا ہے، ریا کاری کی آگ بھڑکی ہے جو ہماری اقدار بہالے جارہی ہے۔ میرے سوشل میڈیائی ایکٹویسٹس کے لئے یہ بات سمجھنا ہی مشکل ہورہا ہے کہ اصلاح نفس فرضِ عین ہے۔ اپنے نفس کو حب جاہ و منصب، مال و منال، عجب و خود پسندی، خود رائی اور ریاکاری سے بچانا بھی فرض ہے۔ کسی عام آدمی سے کیا شکوہ، خود اہل علم اس فتنے کا شکار ہوئے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شہرت، دکھائوے اور ریا کاری کے جتنے مواقع ہیں، وہ کسی اور جگہ نہیں رکھا ہے، شیئرز نے خرد کو چندھیا دیا ہے۔ اللہ کا یہ فرمان اوجھل ہوا جاتا ہے: آخرت کا گھر تو انہی لوگوں کا ہے جو زمین پر برتری اور تکبر نہیں چاہتے، نہ ہی فساد کرتے ہیں۔(قصص: 83 )
نیا موٹرسائیکل بھی ہوتو اس کی رننگ پوری کی جاتی ہے، اس کے بعد وہ سواری کے قابل ہوتا ہے۔ گاڑی بھی ہو تو اسے اسٹارٹ کرکے گرم کیا جاتا ہے، پھر پہلا گیئر، دوسرا گیئر اور تیسرا گیئر لگایا جاتا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیائی دوست طالب علمی کے دور میں ہی چوتھے گیئر میں گاڑی بھگا رہے ہیں۔ ابھی علمی میدان میں ایک آدھ صفحہ لکھا ہے، مگر دنیا سے رخصت ہونے والے اہل علم پر نقد و جرح کررہے ہیں۔ ابھی پڑھنے کی عمر ہے مگر لائیکس کی ہوس نے دنیا کو پڑھانے پر لگا رکھا ہے۔ بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں، ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے، لائکس اور سبسکرائبز کی میراتھن ریس ہورہی ہے۔ مگر اس ہا ہو میں ہم یہ بھول رہے ہیں کہ یہ کوڑھ کی کاشت ہے، یہ کانٹوں کی فصل ہے، یہ زہر کا بیوپار ہے، یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ اگلے دس سال میں یہ بیج درخت کا روپ دھاریں گے، یہ پھل پکے گا اور جب یہ فصل کٹے گی تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیا منظر ہوگا۔ احمد فراز کے الفاظ میں:
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاکستر سے کجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا مفتی محمد رہے ہیں

پڑھیں:

راکھی ساونت کی دبئی میں دودی خان سے ملاقات، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

بھارتی اداکارہ راکھی ساونت نے پاکستانی اداکار و ماڈل دودی خان سے کہا کہ آپ میرے ہونے والے دُلہے  ہیں. میں پاکستان کی بہو ہوں؟ دوست ہوں، کیا ہیں؟ یو ٹرن مارنے کا یہ کیا طریقہ ہے، میں دنیا کو کیا جواب دوں کیا ڈرامہ چل رہا ہے؟ میں انسان نہیں ہوںِ میں فلموں میں کام کرتی ہوں ہر چیز ڈرامہ ہی ہوگیا؟ دودی نے جواب دیا کہ میری طرف دیکھو۔ نکال لیا غصہ، نکال لی بھڑاس۔ اصل میں یہ دنیا ہے اور دنیا کو خوش کرنے کے لیے ہمیں اپنی بلی نہیں چڑھا سکتے، اس پر راکھی ساونت نے جواب دیا کہ ہم اسی دنیا میں رہتے ہیں۔  راکھی ساونت نے پھرکہا کہ دنیا میں بھارت میں میرا مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ کون لڑکا ہے پاکستان میں۔ اس پر دودی نے جواب دیا کہ میں نے کوئی مذاق نہیں بنایا، آپ میری دوست ہو۔ آپ میری دوست ہو، دوست رہوگی لیکن جورشتہ ہے اس میں دنیا ہی آڑے آ رہی ہے۔ بھارتی اداکارہ نے کہا کہ لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد تو دنیا تو ہمارے آڑے آئی ہے، آپ پاکستانی میں ہندوستانی۔ مطلب ہم نہیں مل پائیں گے۔ اس پر پھر دودی نے کہا کہ ہم دوست ہیں دوست ہی رہیں گے، شادی کا کیا ہے میں ہاتھ پکڑ کر کہیں بھی لے جاؤں لیکن جو رشتہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے وہ دوستی کا رہتا ہے۔ اور آخر میں کٹ کہا۔  اس کے بعد ایک ویڈیو میں راکھی ساونت نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آج میں کہاں ہوں، مائی بڈیز، دیکھنا چاہیں گے کہ کون ہے میرے ساتھ۔ پاکستان سے کون آیا ہے۔ ون ٹو تھری۔ اس کے ساتھ ہی ویڈیو میں دودی خان کی انٹری ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم یہاں پاک انڈیا کا میچ دیکھ رہے ہیں اور بھارت کو جتوا رہے ہیں۔ راکھی ساونت نے کہا کہ مبارک ہو، انڈیا جیت گیا، دودی خان میرے ساتھ بھارت کی جیت کے ساتھ ہے، اس کی شکل اتر گئی، دودی خان رو رہا ہے۔ کوہلی جم کر دھویا آپ کی ٹیم کو۔ اس پر دودی خان نے جواب میں راکھی سے کہا ، جب کوئی اچھا کھیلتا ہے تو اس کی تعریف کرنی چاہئے، یہی اسپورٹس مین شپ ہے۔ پاکستانی اداکار و ماڈل نے جواب دیا کہ بھارت کی ٹیم بہت اچھا کھیلی۔ میں مبارکباد دیتا ہوں، کوہلی جی گوڈ آف دی کرکٹ سلام۔ نو ڈائوٹ سچن جی کے بعد کوہلی جی گوڈ آف کرکٹ ہیں۔ راکھی نے کہا کوہلی جی مبارک ہو، انوشکا اور کوہلی جی۔ خدا آپ دونوں کی جوڑی سلامت رکھے۔ پانڈیا پر تنقید کرتے ہوئے راکھی ساونت نے کہا پانڈیا باالکل اچھا نہیں کھیلے، تُو سنبھل جا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نے مستقبل کے غزہ پر اے آئی ویڈیو جاری کردی، سوشل میڈیا پر ہنگامہ 
  • چین 2 لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دے گا: احسن اقبال
  • لاہور ہائیکورٹ میں ایک شخص نے خود کو آگ لگا لی ،ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
  • شعیب اختر نے کپتان محمد رضوان کو ’ایب نارمل‘ کہہ دیا؟ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل
  • سوشل میڈیا کی لگائی آگ اور ہماری ذمہ داریاں
  • پی ٹی آئی راء سے بڑی پاکستان کیخلاف مہم چلا رہی ہے، احسن اقبال
  • 13 سالہ امریکی لڑکا سوشل میڈیا کا چیلنج قبول کرکے مارا گیا
  • پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اور بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کے خلاف مہم جوئی کر رہی ہیں: احسن اقبال
  • راکھی ساونت کی دبئی میں دودی خان سے ملاقات، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل