WE News:
2025-02-26@10:38:49 GMT

کراچی: ہاتھیوں میں انسان سے ٹی بی کی منتقلی کا پہلا مشتبہ کیس

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

کراچی: ہاتھیوں میں انسان سے ٹی بی کی منتقلی کا پہلا مشتبہ کیس

کراچی سفاری پارک کی 2 ہتھنیاں ملائیکہ اور مدھوبالا میں تپ دق (ٹی بی) کی تشخیص ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ دونوں ہتھنیاں کراچی چڑیا گھر میں اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد میں سے کسی سے متاثر ہوئی ہیں۔

یہ پاکستان میں انسان سے جانوروں میں ٹی بی کی منتقلی کا پہلا دستاویزی کیس ہوسکتا ہے، جو جانوروں اور انسانوں کے لیے خطرات پیدا کرنے والے زونوٹک بیماریوں اور صحت کے خطرات کے بارے میں سنجیدہ خدشات کو اجاگر کرتا ہے۔

انفیکشنز کے ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ تمام 4 ہاتھیوں میں، جن میں وہ 2 بھی شامل ہیں جو پہلے مر چکے ہیں، کراچی چڑیا گھر کے اپنے دیکھ بھال کرنے والوں سے ٹی بی منتقل ہوئی۔ اب ملائیکہ اور مدھوبالا بھی اس مرض کا شکار ہیں اور ان کا علاج کرنے کے لیے کم از کم ایک سال کی ضرورت ہوگی۔

مزید پڑھیں: پوجا سے سونیا تک

متعدد ٹیسٹوں نے تصدیق کی کہ دونوں ہاتھیوں میں مائیکو بیکٹیریم ٹی بی کمپلیکس (MTBC) نامی بیکٹیریا موجود ہے، جو انسانوں اور جانوروں میں ٹی بی کی وجہ بنتا ہے۔ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق MTBC دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے، جو انسانوں اور جنگلی حیات دونوں کو متاثر کرتا ہے۔

ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کے ٹیسٹ بھی کیے گئے لیکن ان میں کوئی فعال ٹی بی کا کیس نہیں ملا۔ تاہم، انہوں نے کراچی چڑیا گھر کے تمام عملے کی اسکریننگ کرنے کی سخت سفارش کی تاکہ کسی بھی غیر علامتی کیریئر کا پتا چلایا جا سکے جو بیکٹیریا جانوروں تک منتقل کرسکتا ہو۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے وضاحت کی کہ عام طور پر مویشی مائیکو بیکٹیریم سے متاثر ہوتے ہیں جو ٹی بی کا باعث بنتا ہے لیکن کراچی کے ہاتھیوں کے کیس میں ہم نے دوا مزاحم ٹی بی پائی ہے جو انسانوں سے جانوروں میں منتقل ہوچکی ہے۔ اس قسم کی ٹی بی پہلے بھی 2 ہاتھیوں کی موت کا سبب بنی تھی۔

مزید پڑھیں: سفاری پارک میں ہتھنی سونیا کی موت کیسے ہوئی؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اہم انکشاف

ہاتھیوں میں ٹی بی کی تصدیق کے بعد کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (KMC)نے متاثرہ جانوروں کے علاج کے لیے سندھ اسپتال، آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور دیگر اداروں کے سینیئر انفیکشن ڈیزیز ماہرین سے مدد طلب کی ہے۔

طبی ماہرین کو ہاتھیوں میں ٹی بی کے علاج کا کوئی تجربہ نہیں تھا، انہوں نے عالمی ادارہ صحت (WHO) سے رابطہ کیا، جس نے انہیں سری لنکا میں قومی زولوجیکل گارڈن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راجاپکسلے چندانا راجا پکشا کے بارے میں بتایا جنہیں ہاتھیوں میں ٹی بی کے علاج کا وسیع تجربہ ہے۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے کہا کہ ہم نے ملائیکہ اور مدھوبالا کے علاج کے لیے ایک نسخہ تیار کیا ہے اور اسے ڈاکٹر راجاپکشا کو سری لنکا بھیجا ہے تاکہ وہ اس کا جائزہ لیں۔ ان کی منظوری ملنے کے بعد ہم ادویات کی فراہمی اور انہیں ہاتھیوں کو دینے کے لیے انتظامات شروع کریں گے۔

مزید پڑھیں: کراچی سفاری پارک کی ہتھنی سونیا کیسے مری؟

انہوں نے بتایا کہ ہر ہاتھی کو روزانہ کم از کم 300 گولیاں اینٹی ٹی بی ادویات کی درکار ہوں گی، اس کے ساتھ اضافی علاج جیسے اینٹی پیراسٹک ادویات، اینٹی بایوٹکس، اور بہتر غذا بھی دی جائے گی۔ علاج کا یہ کورس کم از کم ایک سال تک جاری رہنے کا امکان ہے، جس سے یہ عمل نہایت چیلنجنگ اور وسائل کی کمی کا سامنا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاتھیوں کا علاج کرنا ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ ہم نے اس قسم کا کیس پہلے کبھی نہیں دیکھا اور پاکستان میں کسی کو ہاتھیوں میں ٹی بی کے علاج کا تجربہ نہیں۔ ہم روزانہ سری لنکن ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں اور ایک حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ حکام ادویات اور دیگر ضروری وسائل کا انتظام کس طرح کریں گے۔

مزید پڑھیں: اپنی ساتھی ’سونیا‘ کی موت کے بعد ’ملکہ‘ غم سے دوچار

اسلام آباد کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کے عہدیداروں نے تسلیم کیا کہ انسان، ٹی بی جانوروں میں منتقل کر سکتے ہیں، لیکن ان کے پاس ابھی تک پاکستان میں چڑیا گھر کے جانوروں یا مویشیوں میں مائیکو بیکٹیریم ٹی بی کمپلیکس سے متاثر ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔

قومی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی وزارت صحت نے حال ہی میں ’ون ہیلتھ ورک فورس ڈویلپمنٹ پروجیکٹ‘ شروع کیا ہے تاکہ زونوٹک بیماریوں، اینٹی مائیکروبائل مزاحمت اور موسمیاتی صحت کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہنر مند ورک فورس کو تربیت دی جا سکے۔ زونوٹک بیماریاں، جو جانوروں اور انسانوں کے درمیان منتقل ہو سکتی ہیں، ایک حقیقی اور بڑھتا ہوا خطرہ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پوجا ٹی بی سونیا کراچی چڑیا گھر کراچی سفاری پارک مدھوبالا ملائیکہ ملکہ ہاتھی ہتھنی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پوجا ٹی بی سونیا کراچی چڑیا گھر کراچی سفاری پارک مدھوبالا ملائیکہ ملکہ ہاتھی ہتھنی ڈاکٹر نسیم صلاح الدین مزید پڑھیں سفاری پارک ٹی بی کی علاج کا کے علاج اور ان کے لیے

پڑھیں:

انسان کی کچھ صلاحیتیں ایسی ہیں، مشین جس کا نعم البدل نہیں بن سکتی

تعارف: جنید علی کمپیوٹر سائنس گریجویٹ اور سافٹ وئیر انجینئر ہیں ۔ ایک عشرے سے زائد عرصے سے آئی ٹی انڈسٹر ی سے وابستہ ہیں۔ کمپیوٹر سلوشنز، پروگرام ڈیزائننگ کے ماہر ہیں ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مختلف کلائنٹس کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ امریکہ، یورپ، مشرقِ وْسطیٰ کی آئی ٹی انڈسٹری میں کام کر نے کا تجربہ ہے ۔ نت نئی ٹیکنالوجیز پر نظر رکھتے ہیں ۔ کمپیوٹر میں اپنی مہارت، شوق اور جستجو کی وجہ سے سافٹ وئیرز میں اختراعات اور تجربات کرتے رہتے ہیں ۔

سوال: آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنس میں عام آدمی زیادہ فرق نہیں کر پاتا، اس میں بنیادی شعبہ جات کیا ہیں؟

جواب: جی، یہ بات درست ہے ۔ عام آدمی کیلئے اس میں فرق کرنا مشکل ہے ۔ اب اس سیکٹر میں کافی ذیلی شعبہ جات متعارف ہو چکے ہیں۔ میں نے دو ہزار پندرہ میں یہ فیلڈ جوائن کی تھی ۔ اْسو قت ہمیں تین آپشنز ملتے تھے۔ آئی ٹی، سافٹ وئیر انجینئر نگ اورکمپیوٹر سائنسز ۔

سوال: ان تینوں میں فرق کیا ہے؟

جواب: ان تینوں میں فرق یہ ہے کہ آئی ٹی والوں کو نیٹ ورکنگ، سیکورٹی سائیڈ اور پھر کچھ مخصوص سپیشلائزڈ کورسز آفر ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کو کمپیوٹر آرکیٹکچر اور کچھ ایڈوانس کورسز اور سافٹ وئیر والوں کو سافٹ ویئر ڈیویلپمینٹ، انجنیئرنگ، پروجیکٹ مینجمینٹ وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر سائینسز میں متعارف ہونے والے نت نئے رجحانات اور ٹیکنالوجیز بھی اس فیلڈ میں کام کرنے والوں کے لیے جاننا ضروری ہے۔ اس میں مختلف ٹیکنالوجیز ہیں۔ اے آئی، ایم ایل، پائی تھان، میٹا ورس ٹیکنالوجی وغیرہ۔

سوال: آج کل مصنوعی ذہانت کا بہت ذکر ہے۔ آپ آئی ٹی اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں۔ یہ بتائیں کہ آرٹیفیشل اینٹلی جینس ہے کیا؟

جواب: آسان اور سادہ لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی بھی مشین جو ہیومن اینٹلی جنس کو ہو بہو کاپی کرنے کی کوشش کرے ، وہ آرٹیفیشل اینٹلی جنس ہے ، مارکیٹ، انڈسٹری اور دنیا میں یہ اس طریقے سے متعارف ہوئی کہ یہ اے آئی ہے۔ کچھ کام جو آٹو میٹڈ ہو لیکن اس کو ہم اے آئی نہیں مان سکتے۔ کیونکہ انیس سوپچاس میں ا س پر کام شروع ہوا۔ امریکن ماہر ایلن ٹورنگ (Alan Turing) نے اس پر کام شروع کیا تھا۔ اور پہلا جو کام انہوں نے کیا وہ چیس کی گیم تھا۔ جو اْس وقت چیس تھی، وہ کھیلنے کے قابل نہیں تھی، مگر انہوں نے ایک الگو (Algo) لکھ دیا تھا۔ وہ الگو ردہم تھا۔ ہدایات کا ایک سیٹ تھا۔ اس میں یہ تھا کہ اگر کوئی بندہ یہ چال چلتا ہے، تو اس کے خلاف ہمارے پاس کیا کیاآپشنز آتی ہیں۔

ہم نے اس کے خلاف کیا چال چلنی ہے۔ یہ ایک الگو تھا۔ جب ایلن ٹورنگ نے یہ چیزیں پیش کیں تو دنیا حیران اور پریشان ہو گئی کہ یہ ہمارے سامنے کیا چیز آگئی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے کوئی بندہ شکست دے رہا ہے گیم میں، مگر حقیقت میں وہ انسان نہیں ہے۔ وہ پروگرام ہے۔

Set of Instructions ہے، جوآپ کی موومنٹ کے خلاف چل رہی ہیں۔ پھروہ ایلن ٹورنگ کیا کرتے ہیں، وہ اپنے رولز کو کمپیوٹر سائنٹسٹس سے منظور کرواتے ہیں اور وہ ٹورین ٹیسٹ کے طور پر پاس ہو جاتے ہیں۔ ٹورین ٹیسٹ کیا کہتا ہے کہ کوئی بھی چیزیا پروگرام تب تک آے آئی کے دائرہ کار میں نہیں آئے گا جب تک وہ انسان کی فیلنگ (Feeling) نہ دے۔ میں نے خود ایک پروجیکٹ کیا، جس کے آخری مراحل میں، ہم نے ٹورین ٹیسٹ کیا۔ ستر، اسی لوگ موجود تھے۔ اور ٹرانسلیشن آرہی تھی۔ لوگ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ یہ انسان کی ٹرانسلیشن ہے کہ مشین کی۔ اس لیول پر کوئی پروگرام یا سافٹ وئیر پہنچتا ہے تو وہ اے آئی کی کیٹگری میں آئے گا۔

سوال: اے آئی اور آٹو میشن میں کیا فرق ہے؟

جواب: آٹومیشن اور اے آئی میں فرق ہے۔ لوگ مشینوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ کوئی صارف کسی شکایت کے حوالے سے کمپنی کو فون کرتا ہے اور اس کو پتہ لگ جائے کہ آگے سے مشین جواب دے رہی ہے تو اس کا اعتماد کمپنی پر ختم ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کمپنی کی سروس اچھی نہیں ہے۔ حالانکہ اس بات کا امکان ہے کہ بیک اینڈ پر یہی پراسس ہو کہ اس شکایت کے حوالے سے کوئی ٹکٹ جنریٹ ہوتی ہو، اور وہ کسی بندے کو اسائن ہوتی ہو، اور وہ بندہ اس کو حل کر رہا ہو، آٹو میٹڈ سسٹم ہو۔ مشین پر لوگ اعتماد نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ مشین جواب دے رہی ہے۔

میرا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اے آئی کو متعارف کروایا گیا ۔ یہ فیلنگ(Feeling) نہ آئے کہ یہ مشین ہے۔ مثال کے طور پر میں نے کمپنی کو کال کی کہ میرا انٹرنیٹ نہیں چل رہا ہے، آگے سے مجھے نہیں پتہ کہ بندہ بول رہا ہے یا مشین۔ اب کیسے جانیں گے کہ آگے بندہ ہے یا مشین۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ ریڈلائٹ جل رہی ہے۔ میں نے آگے سے بتایا کہ ریڈ بھی نہیں جل رہی، زرد لائٹ جل رہی ہے۔ دو گرین لائٹس جل رہی ہیں۔ اب میں نے اس کو اضافی معلومات دے دیں۔ ا ب وہ کیسے ردعمل دے گا۔ یہ اس کی اے آئی کو ڈیفائن کرے گا۔ اگر میرے جواب میں، وہ کہتا ہے کہ وہ دو لائٹس کیا کر رہی ہیں۔ وہ تیسری لائٹ کیاکر رہی ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اے آئی کی حد تک ناکام ہو گیا۔ تو اس وقت دنیا میں اس بات پر سرمایہ لگایا جا رہا ہے کہ ہم آٹومشین اور اے آئی کے درمیان پائے جانے والے فرق کو ختم کر دیں۔

سوال: اگر اے آئی کا کردار معاشرے میں بڑھ جاتا ہے تو کیا وہ انسان کا متبادل بن جائیگا؟

جواب: کسی حد تک، ایسا ممکن ہے۔ اگر کسی شخص کی صلاحیت یہ ہے کہ اس کو ری پلیس کیا جا سکتا ہے تو پھر اے آئی اس کو ری پلیس کر دے گی۔ جیسے کہ جنر ل موٹرز نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اپنے سسٹم کو آٹو میٹ کر دیا تھا۔ ان کی اسمبلی لائن میں پہلا روبوٹ آ گیا تھا۔ اتنا عرصہ پہلے روبوٹ آ چکا تھا۔

اسمبلی لائن میں پہلے روبوٹ نے آ کر انسان کو ری پلیس کردیا تھا۔ اس وقت بھی وہاں کچھ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی جاب کو سیکور(Secure) کر لیا ہو گا۔ انسان کی کچھ صلاحیتوں کو مشین ری پلیس نہیں کر سکتی۔ ڈیزائن انسان کریگا، تخلیقیت انسان لے کر آئیگا، کچھ نہ کچھ انسان کے پاس رہے گا جس سے وہ مشین کو شکست دے گا۔ انسا ن اتنا باصلاحیت ہے کہ وہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اڈاپٹ (Adopt) کر لے گا۔ جو اڈاپٹ (Adopt) نہیں کرے گا ، وہ فارغ ہو جائیگا۔ مثلاً کنٹینٹ رائٹرز ہیں۔ اگر وہ Creative نہیں ہے، تو پھر اے آئی اس کو ری پلیس کر دے گا۔ اگر تو وہ کنٹینٹ رائٹرر، اِدھر،اْدھر سے چیزیں لے کر کاپی کیا کرتا تھا۔ تو اب وہ کام چیٹ جی پی ٹی بھی کر رہا ہے۔ آپ اس سے پیرا گراف لکھوا لیں، کوئی جاب ڈسکرپشن لکھوا لیں، یہ لکھ دے گا۔ ا ب فرد کو مشین کے مقابلے میں Creative ہونا پڑے گا تبھی وہ اپنی گنجائش نکال پائیگا۔

سوال: اے آئی کی وجہ سے کون سے روزگار ہیں جن کا وجود خطرے میں ہے؟

جواب: فیکٹری میں جو کام مزدور یا ورکرز کیا کرتے تھے۔ اب ان کی جگہ روبوٹس لے چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی روبوٹس متعارف ہو چکے ہیں۔ مستقبل میں آٹو پائلٹ گاڑیاں بھی آ جائیں گی اور پھر ہوائی جہازوں کو آٹو پائلٹ پر منتقل کیا جائیگا۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں زراعت کیلئے روبوٹس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈرونز کے بڑھتے ہوئے استعمال سے فوجی اہلکاروں کی تعداد میں کمی آئے گی۔ روبوٹس اب آپریشنز بھی کر رہے ہیں تو مستقبل میں ڈاکٹرز کی جگہ ہو سکتا ہے کہ کوئی روبوٹ مریض کا آپریشن کر رہا ہو۔ ٹیلی مارکیٹنگ والے اور کسی کمپنی میں حساب کتاب رکھنے کے لیے اب سافٹ وئیرز کا استعمال ہو رہا ہے۔ تو جو لوگ یہ کام کرتے ہیں تو ان کی جاب بھی چلی جائے گی ۔ پروف ریڈرز اور سیکورٹی گارڈز کا وجود بھی خطرے میں ہے کیونکہ اب ان کی جگہ سافٹ وئیرز، ایپس اور روبوٹس متعارف ہو چکے ہیں۔

سوال: اے آئی کے ساتھ ہی مشین لرننگ (  Machine Learning) کی اصطلاح بھی آتی ہے۔ کیا دونو ں میں کوئی ربط ہے؟

جواب: ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی بھی الگوردہم یا سیٹ آف انسٹرکشنز ( Set of Instructions) تب تک ریپلیکیٹ (Replicate) نہیں ہو گا جب تک پائپ لائن میں ڈیٹا نہیں ہو گا۔ اے آئی تب اے آئی ہو گی جب اس کے پاس ڈیٹا ہوگا۔ اور وہ لرننگ (Learning) کے کچھ قوانین کو بار بار دہرا رہی ہو گی۔ کچھ بڑی لرننگ مشینز ہوں گی، کچھ لرننگ کے طریقہ کار ہوتے ہیں۔ مثلاً Cognitive اور Reinforcement باربار کر کے اس کو پختہ کیا جاتا ہے۔ جیسے شروع شروع میں جب چیٹ جی پی ٹی آیا ، تو لوگوں نے بڑا مذاق اْڑایا۔ اس کو سادہ سے جمع ، تفریق اور ضرب کے سوالات دیے۔

اب آپ کیا کر رہے ہیں۔ اب آپ اس کے ساتھ کھیل رہے ہو لیکن اس کو سکھا رہے ہو۔ اس کو میچور (Mature) کر رہے ہو۔ صحیح فیڈ کر رہے ہو یا غلط کر رہے ہو، آخر کار وہ الگوردہم ڈھونڈ لے گا کہ یہ چیز ٹھیک ہے۔ یہ جو آپ ا س کو ڈیٹا فیڈ کر رہے ہو، یہ مشین لرننگ(Learning   Machine) ہے۔ اس کو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ تو اس ڈیٹا کی بنیا د پر جو وہ Intelligently انتخاب کر کے لاتا ہے وہ اے آئی ہے۔ اور جو اس کے پاس پیچھے ڈیٹا ہے،سو کے قریب چیزیں ہیں، ان میں سے دو یا تین ٹھیک ہیں تو یہ مشین لرننگ کے زْمرے میں آئے گا۔ اے آئی اور مشین لرننگ اس طرح ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

سوال: اے آئی کا استعمال زیادہ کہاں ہے؟ اور سافٹ وئیر ز کی زیادہ مانگ کہاں ہے؟

جواب: پاکستان میں تو اس کی اتنی زیادہ ڈیمانڈ نہیں ہے ۔ ہم اس وقت جتنی بھی خدمات فراہم کر رہے ہیں ، وہ سب ملک سے باہر ہے۔ اے آئی اور ایم ایل ( Learning Machine) سے متعلقہ سٹارٹ اپس ملک سے باہر ہیں ۔ اے آئی یا ایم ایل کے فوائد فوری طور پر سامنے نہیں آتے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی پروجیکٹ بنایا ، اور فوراً ہی اس کے فائد ے آ گئے ۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ آتے ہیں ۔ اب چیٹ جی پی ٹی کی مثال لے لیں ، اب ہر کسی کی زبا ن پر اس کا نام ہے، لیکن آج سے دس سال پہلے کوئی اس کا نام نہیں لیتا تھا ۔ اس سرمایہ کاری نے وقت لیا ۔ جب ایلن مسک نے دوہزار پندرہ میں، اس میں ایک ارب ڈالر کی انویسٹمینٹ کی، تو تب لوگوں نے کہا کہ اوپن اے آئی کچھ کرنے جا رہی ہے۔ لوگوں کی زندگیاں آسان کرے گی۔ جی پی ٹی، ون آیا، پھر ٹو، تھری، فورآیا ۔ اب انہوں نے اس کے Paid Version متعارف کروا دیے ہیں۔

اگر آپ نے استعمال کرنا ہے تو پھر ادائیگی کریں ۔ کیونکہ انہوں نے اس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ شروع میں انہوں نے مفت خدمات دی ہیں ۔ وہ اس کو میچور (Mature) کروا رہے تھے۔ سب سے زیاد ہ قیمتی چیز ڈیٹا ہے ۔ ہم تو اپنا ڈیٹا بھی باہر بھیج دیتے ہیں ۔ فیس بک استعمال کر رہے ہیں، ہمار ا ڈیٹا ملک سے باہر جا رہا ہے۔ اے آئی، ایم ایل کو ہم اس طریقے سے استعمال نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں چیزیں آٹو میٹ (Automat) ہو رہی ہیں۔ جیسے موٹر ویز پر ایم ٹیگ ہو رہا ہے۔ موٹر وے میں آپ کا داخلہ اور اخراج آٹو میٹ ہو گا۔ آپریٹر کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ ایک Advancement ہے۔ ہمارے ہاں جو طلباء کو فائنل ائیر پروجیکٹ کروائے جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے پروجیکٹس کروائیں جو مستقبل میں کا م آسکیں۔ ایک گروپ نے کوئی کام کیا تو بعد والے اس کو آگے نہیں لے کر جاتے۔ وہ کاغذوں اور فائلز میں ہی رہ جاتا ہے۔ ایک سیریز ہونی چاہیے تسلسل کی تاکہ کام آگے چلے اور پاکستان میں ٹیکنالوجی میں بہتری آئے۔

سوال: اگر کوئی اس فیلڈ میں آنا چاہے، اے آئی، یا مشین لرننگ میں تو اس کے لیے تعلیم کونسی درکار ہے؟

جواب: اس معاملے میں پاکستان اور دنیا میں مختلف طریقہ کار ہے۔ دنیا میں ڈگری نہیں مانگی جاتی۔ پاکستان میں طلب کی جاتی ہے۔ امریکہ میں بوٹ کیمپس ہوتے ہیں۔ لوگ اس میں جاتے ہیں اور اپنے تعلیمی پس منظر کے برعکس جاب لے لیتے ہیں۔ پاکستان میں آپ کسی کمپنی میں جاب کے لیے جائیں گے تو وہ آپ کو کمپیوٹر سائنس کا بیک گراؤنڈ چیک کریں گے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس رجحان کو تبدیل کیا جائے۔ کچھ انڈسٹری کے لوگوں سے مل کر ہم یہ تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف تعلیمی پس منظر کے لوگ اس میں آ جائیں۔

الیکٹریکل، مکینیکل ، کیمیکل انجینئرز آئیں ۔ روزگار کے اتنے مواقع نہیں ہیں۔ وہ اتنا پڑھ لکھ کر کہاں جائیں۔ تو ہم کچھ بوٹ کیمپ کے ذریعے کوشش کر ر ہے ہیں کہ وہ بنیادی چیزیں سیکھ لیں۔ بنیادی چیز ہے کہ پرابلم کو حل کرنے کا فہم، Critical Thinking درکار ہوتی ہے۔ پھر لینگوئج یا فریم ورک ، وہ بعد میں سکھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی کمپیوٹر گریجویٹ بھی آتا ہے تو وہ بھی کمپنی میں آ کر ہی سیکھتا ہے۔ اگر کمپنی میں اے آئی، اور مشین لرننگ ہے اور وہ یونیورسٹی سے سیکھ کرآیا ہے تو یہ نہیں ہو گا کہ اس کو وہی چیز کمپنی میں مل گئی۔ ہو سکتا ہے ا س کو میٹا ورس میں کام کرنا پڑجا ئے، بلاک چین میں کام کرنا پڑے۔ تو ایسے نوجوان جن کا تعلیمی پس منظر کمپیوٹر سائنس کا نہیں ، انہیں کچھ چیزیں سیکھنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ کچھ ڈیٹا ہوتا ہے، الگورتھم ہوتا ہے وہ سافٹ وئیر میں کیسے کام کرتا ہے۔ اب تو ویب سائٹس ہیں، یو ٹیوب پر لیکچرز ہیں جن سے آپ سیکھ سکتے ہیں۔ آپ کو مستند اداروں سے سیکھنا چاہیے جہاں ملکی یا بین الاقوامی اساتذہ طلباء کو سکھاتے ہیں۔

سوال: پاکستان میں ا ے آئی سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟

جواب : ہیلتھ کئیر میں بہت بہتر ی آ سکتی ہے۔ مستقبل میں اے آئی، ایم ایل اور اے آر (Augmented Reality) کا امتزاج ہو گا۔ ایپل نے پرو وژن (ProVision ) لانچ کیا ہے۔ اس میں آپ نے کچھ پہنا ہوتا ہے اور آپ انگلیوں سے اس کو کنٹڑول کر رہے ہیں۔ اس لیول کی ترقی ہو چکی ہے۔ ایپل نے شروعات کی ہے۔ آگے اس بہتری آئیگی۔ مثال کے طور پر پاکستان کو گزشتہ سال نگلیریا کا سامنا تھا۔ اس میں آپ کو پانی سے بچنا ہوتا ہے۔ تو اب کیسے بچیں۔ تو اس طرح کی مشکل اور پیچیدہ صورتحال میں ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمینٹ سے بہتری آئے گی۔ ہیلتھ سیکٹر میں سرجریز آسان ہو جائیں گی۔ دوسری بہتری یہ ہو گی کہ جو لوگ بڑے بڑے تھیٹرز جاتے ہیں۔ وہ اب گھر بیٹھ کر پوری ہو رہی ہے۔ ایک اور سیکٹر ہے آٹو موبائل سیکٹر، اس میں ٹیسلا آگے ہے۔ آٹو میٹک کار انہوں نے متعارف کروا د ی ہے۔ آپ میٹنگز کر رہے ہیں۔

آپ اپنا کام کر رہے ہیں اور گاڑی چل رہی ہے۔ خود ہی بریکس لگا رہی ہے۔ لین بھی تبدیل کر رہی ہے۔ یواے ای اور سعودی عرب اپنے دوہزار تیس کے وژن میں ہوا میں اڑنے والی گاڑیا ں چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ پائلٹ لیس گاڑیاں متعارف کروا رہے ہیں۔ آپ اپنے مقررہ مقام کے آغاز اور اختتام کا اندراج کریں گے تو گاڑی آئیگی اور آپ کو مقررہ مقام تک پہنچا دے گی۔ پاکستان میں ہم نے ابھی اس کو ایکسپلور نہیں کیا۔ اگر ہم اس میں سرمایہ کاری کریں تو یہ فائدہ دے گی۔ صحت میں ایک پیش رفت یہ ہوئی کہ حال ہی میں اے آئی کی مدد سے انہوں نے بریسٹ کینسر سے منسلک کچھ نیا دریافت کیا ہے۔ ان کے پاس کینسر کے مریضوں کی ہسٹری کا ڈیٹا تھا جس کا انہوں نے تجزیہ کیا۔ لاکھوں لوگوں کا ریکارڈ تھا۔ تجزیے کے بعد پتہ چلا کہ ایک سیل ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے۔ ہم اس سیل کی اگر تشخیص کر لیں اور اس کا تدارک کرلیں تو کینسر نہیں ہوگا۔

سوال: آ پ نے میٹا ورس ٹیکنالوجی کا ذکر کیا تھا۔ کچھ بتائیں کہ یہ کیا ہے؟

جواب: میٹاورس ایک وسیع سبجیکٹ ہے۔ اس کا سادہ اور عام فہم مفہوم یہ ہے کہ آپ سنتے ہیں کہ مریخ پر زمینیں بیچی جا رہی ہیں یا آپ اپنی مرضی کا گھر بنائیں۔ اس کی عملی مثال ایپل کا پرو وژن ہے۔ جس میں آپ اپنے دماغ میں سوچیں گے اور خیالوں میں چیزیں بناتے چلے جائیں گے۔ پاکستان میں اس فیلڈ میں کام نہیں ہو رہا مگر باہر کی دنیا میں کام ہو رہا ہے۔     

سوال: بلاک چین ٹیکنالوجی کا کیا تصور ہے؟

جواب: بلاک چین،ٹیکنالوجی کی ایک شاخ ہے۔ ہم نے کرپٹو کرنسی کے متعلق سنا ہے۔ یہ سب بلاک چین کے ماڈل پر ڈیویلپ ہوتی ہیں۔ جس میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہے۔ اور یہ اس حد تک جڑی ہوتی ہیں کہ آپ اس سے گمنام شخص کے طور پر فنانشل ٹرانزکشنز کرتے ہیں۔ کسی کو نہیں پتہ کہ کس نے کس کو پیسے دیے ہیں۔ یہ صرف تصدیق کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ اچھا فلاں نے فلاں کو پیسے دیے ہیں۔ کیونکہ اس میں بلاکس ٹرانسفر ہوتے ہیں۔ ان کی آپس میں Connectivity Chains ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ پورا عمل بلاک چین کہلاتا ہے۔

پاکستان میں اس پر تھوڑا بہت کام ہوا ہے۔ مگرا پنے طور پر نہیں ہوا۔ کسی کلائنٹ کے کہنے پر چیزوں کو ڈیزائن کیا گیا یا کچھ تبدیلیاں کی گئیں ہیں لیکن آزادانہ طور پر پاکستان میں اس پر کام نہیں ہوا۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کا مرکز شاید امریکی شہر ڈیلاس ہے۔ ا س میں انفراسٹرکچر پر کام ہو رہا ہے۔ انفراسٹرکچر میں بہتر ی پر کام ہو رہا ہے۔ وہ ایسے کہ ایسی چِپس بنائی جائیں جو کہ ٹریلینز آف آپریشن ایک سیکنڈ میں کریں۔ جس سے اے آئی کی ایڈوانسمینٹ یہ ہو گی کہ ہمارے جن سوالا ت کا جواب اے آئی پانچ منٹ، دس منٹ یا زیاد ہ میں دے رہا ہے ، وہ سیکینڈز میں ہوں سکیں۔ جس کا مطلب ہے کہ جو پرانے پیچیدہ مسائل ہیں وہ بھی اب حل ہو جائیں گے اس اختراع سے۔ میڈیکل کی فیلڈ میں بہت آسانیاں ہوں گی۔ اگر سپیڈ اتنی زیادہ ہوگی تو پھر روبوٹس یا روبوٹک انڈسٹر ی میں کام زیادہ ہو گا۔ سرجریز میں جہاں وقت بہت اہمیت کا حامل ہے، وہاں روبوٹس سے سرجریز کروائی جائیں گی۔ اب دیکھیں، اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔

سوال: چین اور امریکہ کے درمیان ٹیکنالوجی کے میدان میں مسابقت کی دوڑ کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: یہ دوڑ تو جاری رہے گی مگر میدان اْ سی کے ہاتھ رہے گا جو بدلتے تقاضوں کے مطابق ڈھال لے گا۔ کیونکہ ٹیکنالوجی نے تو تبدیل ہونا ہی ہے۔ چین دراصل فنانشلی مارکیٹ کو ہولڈ کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کم پیسوں میں وہی کوالٹی دے اور زیادہ مقدار میں دے۔ اور چین اس میں کامیاب رہا ہے۔ مین پاور اور انڈسٹری میں چین کا ابھی تک کوئی مقابلہ نہیں کر سکا۔ سافٹ وئیر انڈسڑی کا حجم بہت زیادہ ہے ۔ اربوں ڈالرز کی یہ انڈسٹری ہے۔ دنیا بھر میں اس کی مارکیٹ ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی گیپ مل جاتا ہے۔ چین اسی گیپ کو فِل کرنا چاہتا ہے۔ چین کی یہی کوشش ہے۔ امریکہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تو یہ مقابلے کی دوڑ ہے۔

سوال: یورپ اس ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنا سرگرم نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: یورپ واقعی اس دوڑ کا حصہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ یورپ معاشی طور پر مضبوط ہے۔ یورپ کی گروتھ بہتر ہے۔ یورپ اس دوڑ میں اس لیے شریک نہیں ہے کہ وہاں انسانی حقوق کا معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ڈیٹا کے تحفظ کو وہ یقینی بناتے ہیں اور اس میں جرمانہ بہت زیادہ ہے۔ وہاں ڈیٹا قابلِ شناخت ہے۔ اور Identifiable Data میں چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اے آئی ڈیٹا پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی ماڈل کی میچورٹی کیلیے ڈیٹا آپس میں شئیر کیا جاتا ہے۔ کمپلائنس کی وجہ سے وہ کوئی بھی اے آئی بیسڈ (AI Based) سلوشن نہیں اپناتے۔

اے آئی کو ڈیٹا کے بغیر Train کیسے کریں گے۔ ڈیٹا کس چیز کا لیں گے۔ ڈمی ڈیٹا نہیں لیا جا سکتا۔ رئیل لائف ڈیٹا کے بغیر مشکلات ہیں۔ مگر ابھی یورپ میں بھی اس پر کام ہو رہا ہے۔ حال ہی میں فرانس میں ہونے والی کانفرنس میں اس پر پیش رفت ہوئی ہے۔ فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں، اے آئی کی فیلڈ میں، ایک سو نو بلین یورو کی سرمایہ کاری کریں گے۔ اسی طرح یورپ کی کچھ کمپنیوں نے مل کر EU AI Champions Initiative کو لانچ کیا ہے۔

سوال : کیا پاکستان میں اے آئی سے مدد لی جا رہی ہے؟

جواب: پاکستان میں اس سے مختلف طرح کی مدد لی جا رہی ہے۔ اب لو گ اکاونٹنٹ نہیں رکھتے۔ اس کی جگہ وہ اے آئی اسسٹنٹ رکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح آرکیٹکٹ کی فیلڈ ہے ۔ اس میں اگر آپ اسے بتائیں کہ میرے پاس اتنی جگہ ہے تو وہ آپ کو نقشہ بنا دے گا۔ انٹیرئیر ڈیزائننگ بھی متاثر ہو گی۔ کیونکہ اب آپ اے آئی کو بتا دیں کہ میرے پاس اتنی جگہ ہے، اس کو ڈیزائن کر دو۔ وہ کر دے گا اور ساتھ ساتھ آپ اس کو کمانڈ کرتے جائیں وہ، کرتا چلا جائے گا تو اے آئی سے کئی شعبہ جات متاثر ہوں گے۔ ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہو گا وگرنہ ہمیں بہت مسائل کا سامنا ہوگا۔

سوال: خواتین ہر شعبہ زندگی میں آگے آ رہی ہیں۔ کیا اس آئی ٹی انڈسٹر ی میں بھی خواتین ہیں؟

جواب: عمومی طور پر خواتین کوئی پروفیشنل ڈگری لیتی ہیں تو وہ دو، تین سال فیلڈ میں کام کرتی ہیں۔ پھر شادی کے بعد خانگی مصروفیات کی وجہ سے فیلڈ میں کام کر نہیں پاتیں۔ لیکن آئی ٹی کی فیلڈ ایسی ہے کہ آپ دنیا کے جس کونے میں بھی ہوں ، آپ کے پاس قابل بھروسہ انٹرنیٹ ہو تو آپ کام کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ خواتین کے لیے آئیڈیل ہے، تحفظ ہے، کام کرنے کا ماحول بہت اچھا ہے، وائٹ کالر جاب ہے۔ اور سب سے بڑھ کر کام کرنے کے لیے بہت آزادی ہے۔ فیملی سپورٹ مل جائے تو وہ بہت اچھا کام کر سکتی ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • کراچی؛ پسند کی شادی کرنے والے شخص نے سسرال میں خودکشی کرلی
  • روزہ
  • قابل تجدید ذرائع کی منتقلی میں پسماندہ کمیونٹیز کو شامل کرنا چاہیے. ویلتھ پاک
  • انسانیت کی خدمت کی منفرد مثال،بیٹی کی کینسر سے موت ، باپ نے غیر منافع بخش اسپتال قائم کرنے کیلئے دولت عطیہ کر دی
  • انسان اپنی تخلیق کے برعکس کیوں؟
  • لوئر کرم میں شدت پسندوں کیخلاف آپریشن جاری، مزید 20 مطلوب اور مشتبہ ملزمان گرفتار
  • انسان کی کچھ صلاحیتیں ایسی ہیں، مشین جس کا نعم البدل نہیں بن سکتی
  • خیبرپختونخوا میں منکی پاکس کی مقامی طور پر منتقلی کا پہلا کیس سامنے آگیا
  • پاکستان کا امریکا منتقلی کے منتظر افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا عندیہ