WE News:
2025-04-13@15:26:54 GMT

کراچی: ہاتھیوں میں انسان سے ٹی بی کی منتقلی کا پہلا مشتبہ کیس

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

کراچی: ہاتھیوں میں انسان سے ٹی بی کی منتقلی کا پہلا مشتبہ کیس

کراچی سفاری پارک کی 2 ہتھنیاں ملائیکہ اور مدھوبالا میں تپ دق (ٹی بی) کی تشخیص ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ دونوں ہتھنیاں کراچی چڑیا گھر میں اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد میں سے کسی سے متاثر ہوئی ہیں۔

یہ پاکستان میں انسان سے جانوروں میں ٹی بی کی منتقلی کا پہلا دستاویزی کیس ہوسکتا ہے، جو جانوروں اور انسانوں کے لیے خطرات پیدا کرنے والے زونوٹک بیماریوں اور صحت کے خطرات کے بارے میں سنجیدہ خدشات کو اجاگر کرتا ہے۔

انفیکشنز کے ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ تمام 4 ہاتھیوں میں، جن میں وہ 2 بھی شامل ہیں جو پہلے مر چکے ہیں، کراچی چڑیا گھر کے اپنے دیکھ بھال کرنے والوں سے ٹی بی منتقل ہوئی۔ اب ملائیکہ اور مدھوبالا بھی اس مرض کا شکار ہیں اور ان کا علاج کرنے کے لیے کم از کم ایک سال کی ضرورت ہوگی۔

مزید پڑھیں: پوجا سے سونیا تک

متعدد ٹیسٹوں نے تصدیق کی کہ دونوں ہاتھیوں میں مائیکو بیکٹیریم ٹی بی کمپلیکس (MTBC) نامی بیکٹیریا موجود ہے، جو انسانوں اور جانوروں میں ٹی بی کی وجہ بنتا ہے۔ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق MTBC دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے، جو انسانوں اور جنگلی حیات دونوں کو متاثر کرتا ہے۔

ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کے ٹیسٹ بھی کیے گئے لیکن ان میں کوئی فعال ٹی بی کا کیس نہیں ملا۔ تاہم، انہوں نے کراچی چڑیا گھر کے تمام عملے کی اسکریننگ کرنے کی سخت سفارش کی تاکہ کسی بھی غیر علامتی کیریئر کا پتا چلایا جا سکے جو بیکٹیریا جانوروں تک منتقل کرسکتا ہو۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے وضاحت کی کہ عام طور پر مویشی مائیکو بیکٹیریم سے متاثر ہوتے ہیں جو ٹی بی کا باعث بنتا ہے لیکن کراچی کے ہاتھیوں کے کیس میں ہم نے دوا مزاحم ٹی بی پائی ہے جو انسانوں سے جانوروں میں منتقل ہوچکی ہے۔ اس قسم کی ٹی بی پہلے بھی 2 ہاتھیوں کی موت کا سبب بنی تھی۔

مزید پڑھیں: سفاری پارک میں ہتھنی سونیا کی موت کیسے ہوئی؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اہم انکشاف

ہاتھیوں میں ٹی بی کی تصدیق کے بعد کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (KMC)نے متاثرہ جانوروں کے علاج کے لیے سندھ اسپتال، آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور دیگر اداروں کے سینیئر انفیکشن ڈیزیز ماہرین سے مدد طلب کی ہے۔

طبی ماہرین کو ہاتھیوں میں ٹی بی کے علاج کا کوئی تجربہ نہیں تھا، انہوں نے عالمی ادارہ صحت (WHO) سے رابطہ کیا، جس نے انہیں سری لنکا میں قومی زولوجیکل گارڈن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راجاپکسلے چندانا راجا پکشا کے بارے میں بتایا جنہیں ہاتھیوں میں ٹی بی کے علاج کا وسیع تجربہ ہے۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے کہا کہ ہم نے ملائیکہ اور مدھوبالا کے علاج کے لیے ایک نسخہ تیار کیا ہے اور اسے ڈاکٹر راجاپکشا کو سری لنکا بھیجا ہے تاکہ وہ اس کا جائزہ لیں۔ ان کی منظوری ملنے کے بعد ہم ادویات کی فراہمی اور انہیں ہاتھیوں کو دینے کے لیے انتظامات شروع کریں گے۔

مزید پڑھیں: کراچی سفاری پارک کی ہتھنی سونیا کیسے مری؟

انہوں نے بتایا کہ ہر ہاتھی کو روزانہ کم از کم 300 گولیاں اینٹی ٹی بی ادویات کی درکار ہوں گی، اس کے ساتھ اضافی علاج جیسے اینٹی پیراسٹک ادویات، اینٹی بایوٹکس، اور بہتر غذا بھی دی جائے گی۔ علاج کا یہ کورس کم از کم ایک سال تک جاری رہنے کا امکان ہے، جس سے یہ عمل نہایت چیلنجنگ اور وسائل کی کمی کا سامنا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاتھیوں کا علاج کرنا ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ ہم نے اس قسم کا کیس پہلے کبھی نہیں دیکھا اور پاکستان میں کسی کو ہاتھیوں میں ٹی بی کے علاج کا تجربہ نہیں۔ ہم روزانہ سری لنکن ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں اور ایک حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ حکام ادویات اور دیگر ضروری وسائل کا انتظام کس طرح کریں گے۔

مزید پڑھیں: اپنی ساتھی ’سونیا‘ کی موت کے بعد ’ملکہ‘ غم سے دوچار

اسلام آباد کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کے عہدیداروں نے تسلیم کیا کہ انسان، ٹی بی جانوروں میں منتقل کر سکتے ہیں، لیکن ان کے پاس ابھی تک پاکستان میں چڑیا گھر کے جانوروں یا مویشیوں میں مائیکو بیکٹیریم ٹی بی کمپلیکس سے متاثر ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔

قومی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی وزارت صحت نے حال ہی میں ’ون ہیلتھ ورک فورس ڈویلپمنٹ پروجیکٹ‘ شروع کیا ہے تاکہ زونوٹک بیماریوں، اینٹی مائیکروبائل مزاحمت اور موسمیاتی صحت کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہنر مند ورک فورس کو تربیت دی جا سکے۔ زونوٹک بیماریاں، جو جانوروں اور انسانوں کے درمیان منتقل ہو سکتی ہیں، ایک حقیقی اور بڑھتا ہوا خطرہ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پوجا ٹی بی سونیا کراچی چڑیا گھر کراچی سفاری پارک مدھوبالا ملائیکہ ملکہ ہاتھی ہتھنی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پوجا ٹی بی سونیا کراچی چڑیا گھر کراچی سفاری پارک مدھوبالا ملائیکہ ملکہ ہاتھی ہتھنی ڈاکٹر نسیم صلاح الدین مزید پڑھیں سفاری پارک ٹی بی کی علاج کا کے علاج اور ان کے لیے

پڑھیں:

وجائنا کا علاج کیسے کرنا ہے؟

گزشتہ ہفتے ہم نے وجائنا کی بیماری کی بات کی ۔ وجائنا کی مشکلات میں سب سے بڑی مشکل  یہ ہے کہ اس کے آس پاس پیشاب اور پاخانے کے خروج کے راستے ہیں اور دونوں سے نکلنے والا فضلہ جرثوموں سے لدا ہوتا ہے۔

حوائج سے فراغت کے بعد اگرچہ دونوں جگہ کو دھویا جاتا ہے لیکن جرثوموں کی کچھ نہ کچھ تعداد وجائنا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتی ہے، یہ جرثومے کے حملے کی ایک وجہ ہے ، باقی ہم پچھلی بار بیان کرچکے ہیں۔

وجائنا میں موجود حفاظتی دستے جرثوموں کا راستہ روکتے ہیں اور انہیں مار بھگاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے انگلیوں کے ساتھ منہ میں جراثیم داخل ہوں اور منہ کا حفاظتی دستہ اپنا کام کرے۔

لیکن اگر وجائنا کی اپنی صحت ٹھیک نہ ہو اور دفاعی دستے کے کارکنوں کی تعداد میں کمی ہوچکی ہو تو جرثومے وجائنا کو بیمار کردیتے ہیں ۔ وہ مارچ کرتے ہوئے بچے دانی کی طرف بڑھتے ہیں، بچے دانی میں حمل موجود ہو یا نہ ہو ، جرثوموں کا حملہ انفیکشن کا موجب بنتا ہے اور اسی انفکشن کی وجہ سے اگر خاتون حاملہ ہو تو وقت سے پہلے درد زہ شروع ہوجاتا ہے اور پری ٹرم ڈلیوری ہوتی ہے۔

اگر خاتون حاملہ نہ ہو تو جرثومے بچے دانی سے ہوتے ہوئے ٹیوبز میں داخل ہوکر پی آئی ڈی کرسکتے ہیں جو جاں لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

جرثوموں سے بچنے کے کچھ طریقے ہم نے اسباب کے ساتھ بیان کردیے  تھے کہ جسم میں خون کی کمی نہ ہونے پائے ، ہیموگلوبن بارہ سے نیچے نہ ہو، فولاد کی گولیاں کھائی جائیں، ماہواری میں گندے پیڈز استعمال نہ کیے جائیں، پانی زیادہ سے زیادہ پیا جائے اور شوگر کو کنٹرول میں رکھا جائے ۔

اس کے علاوہ اگر انفکشن ہو جائے تو وجائنا کا معائنہ کر کے تشخیص کیا جائے کہ کونسی دوا استعمال کروائی جائے ؟

پاکستان میں صحت کے معاملات دگرگوں ہوچکے ہیں کہ بیشتر کو کوالیفائڈ ڈاکٹرز میسر نہیں اور اگر ہیں بھی تو جیب میں اتنے پیسے نہیں کہ ان کی خدمات حاصل کی جاسکیں، سرکاری اسپتالوں میں اس قدر ازدہام ہے کہ ایک انار ، سو بیمار والی صورت حال ہے ۔

تو پھر کیا کیا جائے؟

مسئلہ چونکہ گھمبیر ہے اس لیے ہم وہ کررہے جو آج تک ہم نے نہیں کیا۔

ہم کچھ ایسی دواؤں کا نام لکھ رہے ہیں جو حمل میں کھائی جاسکتی ہیں اور بچے کی پری ٹرم ڈلیوری کو مؤخر کیا جاسکتا ہے ۔ حمل نہ ہو تب بھی یہ دوائیں خواتین کی بہترین دوست ہیں ۔

پہلی دوا فلیجل flagyl ہے ۔ تقریباً 90 فیصد لوگ اس سے واقف ہیں ۔ یہ دوا وجائنا کو اس کا نارمل کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے ۔ اسے حمل کے پہلے 3 مہینوں میں نہیں کھانا چاہیے لیکن اگلے 6 مہینوں میں جب بھی وجائنا سے بو آئے، خارش ہو، گدلا پانی خارج ہو یا درد زہ شروع ہونے کا شائبہ ہو،  فلیجل کا ایک کورس کر لینا چاہیے ۔ 500 ملی گرام کی گولی صبح دوپہر شام 5 دن کے لیے۔

دوسری دوا erythromycin ہے یہ بھی وجائنل صحت کو لوٹانے میں اکسیر کی حثیت رکھتی ہے۔ اس دوا کو حمل کے پہلے 3 مہینوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے یعنی پورے 9 مہینے ۔ بچے کو کسی بھی نقصان کا اندیشہ نہیں۔  500 ملی گرام کی ایک گولی صبح دوپہر شام 5 دن کے لیے ۔

تیسری دوا ایک کریم ہے جسے وجائنا میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ رات کو سونے سے پہلے دوا ایک پلاسٹک کی سرنج میں بھریں اور وجائنا میں سرنج داخل کر کے دوا کو وہاں انڈیل دیں ۔ یہ کریم بھی حمل کے لحاظ سے محفوظ ہے ۔ کریم کا نام ہے Clindamycin vaginal cream اور اسے 7 راتوں کے لیے وجائنا میں استعمال کرنا ہے۔

خواتین ان دواؤں کے نام حفظ کر لیں۔ وجائنا کے متعلق تمام وہ شکایات جو عام طور پہ ڈاکڑ سے کی جاتی ہیں، یہ ان کا علاج ہیں ۔

یہ تینوں دوائیں بچے کے لیے محفوظ ہیں ، صرف فلیجل کو حمل کے پہلے 3 ماہ استمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے ۔

جب بھی دوائیں خریدیں ، کوشش کریں کہ کسی اچھی کمپنی کی ہوں ۔ بازار میں بے شمار دوائیں نقلی ہوتی ہیں اور اگر اصلی ہوں بھی تو اسٹوریج اس قدر نکمی ہوگی کہ دوا کے اثرات کافی حد تک ضائع ہوچکے ہوں گے۔

ان تینوں دواؤں کا نام گوگل کر کے یہ دیکھ لیں کہ انہیں اصل میں کس کمپنی نے بنایا تھا یعنی کس کمپنی کی پیٹنٹ دوا ہے؟ وہ تھوڑی سی مہنگی تو ہوگی مگر اس کے ارد گرد جو رنگ برنگی ، ہلکی کوالٹی کی دوائیں پڑی ہوں گی آپ ان سے بچ جائیں گے۔

فلیجل کا ایک سائیڈ ایفکٹ جی متلانا ہےاور کچھ لوگوں کو اس میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن اس دوا کا کوئی متبادل نہیں، سو کڑوا گھونٹ بھر کے اسے کھا لینا چاہیے ۔

ارتھرومائیسن سے کچھ لوگوں کو اسہال شروع ہو جاتا ہے لیکن اس دوا کے بھی فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ ہماری پسندیدہ دواؤں میں شامل ہے ۔

رہی کلنڈامائسن تو وہ تو ہے ہی جان جگر!

یہ تینوں دوائیں وہ خواتین بھی استمال کرسکتی ہیں جن کا بار بار اسقاط حمل ہوجاتا ہو ۔ گرچہ اسقاط حمل کے اور بھی بہت سے اسباب ہیں لیکن بیمار وجائنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ہم نے کوشش کی ہے کہ آپ صحت کے معاملات کو سمجھ سکیں اور کچھ نہ کچھ مسائل حل کرنے کے قابل ہوسکیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

we news حمل ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صحت فلیجل وجائنا

متعلقہ مضامین

  • کراچی؛ جانوروں کے فضلے سے بائیو گیس کے بڑے منصوبے کیلیے حکمت عملی مرتب
  • معافی اور توبہ
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • ڈائر وولف کے بعد قدیم ہاتھیوں کو بھی دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ شروع
  • وسطی یورپی ممالک میں مویشیوں میں منہ کھر کی وبا، سرحدیں بند
  • وجائنا کا علاج کیسے کرنا ہے؟
  • سندھ کے کچھ اضلاع میں جانوروں میں لمپی کی بیماری پھیلنے کی اطلاعات
  • چولستان میں خشک سالی کے اثرات نمودار، پانی کے ذخائر خشک
  • پی ایس ایل جیتنے کیلئے پہلا قدم کل کا میچ ہے، ڈیوڈ وارنر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو کیسز کی غیر ضروری منتقلی سے روکنے کا حکم