سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران  جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ تمام 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ  کا 7 رکنی آئینی بینچ مقدمے کی سماعت  کر رہا ہے۔

سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کر دیا اور مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں کیخلاف پانچ رکنی بنچ کا ایک نہیں تین فیصلے ہیں، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے فیصلے لکھے۔

انہوں نے دلیل دی کہ تمام ججز کا ایک دوسرے کے فیصلے سے اتفاق تھا، ججز کے فیصلے یکساں اور وجوہات مختلف ہوں تو تمام وجوہات فیصلہ کا حصہ تصور ہوتی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ  ججز نے اضافی نوٹ نہیں بلکہ فیصلے لکھے تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تمام پانچ ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

فیصل صدیقی  نے مؤقف اپنایا کہ عذیر بھنڈاری نے انٹراکورٹ اپیل کا دائرہ اختیار محدود  ہونے کا موقف اپنایا، عذیر بھنڈاری کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتا، عذیر بھنڈاری کا انحصار پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں جسٹس منصور شاہ کے نوٹ پر تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں ماضی سے اپیل کا حق مل جاتا تو 1973 سے اپیلیں آنا شروع ہو جاتیں، فیصل صدیقی نے استدلال کیا کہ اپیل کا دائرہ محدود کر دیا تو ہماری کئی اپیلیں بھی خارج ہوجائیں گی۔

 جسٹس امین الدین خان  نے کہا کہ نظرثانی فیصلہ دینے والا جب کہ انٹرا کورٹ اپیل لارجر بنچ سنتا ہے، لارجر بنچ مقدمہ پہلی بار سن رہا ہوتا اس لیے پہلے فیصلے کا پابند نہیں ہوتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں ہو

پڑھیں:

عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر اہم فیصلہ جاری

سپریم کورٹ نے آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش کر دی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس ( اے آئی) کے استعمال پر 18 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے کے مطابق چیٹ جی پی ٹی اورڈیپ سیک عدالتی استعدادکار بڑھا سکتے ہیں۔ دنیا میں کئی ججز کی جانب سے اے آئی استعمال سے  فیصلوں میں معاونت کا اعتراف کیا گیا۔ اے آئی کو فیصلہ لکھنے میں ریسرچ اور ڈرافٹ تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: 9 مئی کے مقدمات سپریم کورٹ میں سماعت کیلیے مقرر

فیصلے کے مطابق اے آئی صرف معاون "ٹول" ہے اورایک جج کی فیصلہ سازی کا متبادل نہیں۔ اے آئی کو کسی صورت عدلیہ میں مکمل انسانی فیصلے کی خودمختاری کامتبادل نہیں ہونا چاہیے۔ اے آئی صرف اسمارٹ قانونی ریسرچ میں سہولت کیلئے ہے۔ عدالتی اصلاحاتی کمیٹی اورلااینڈ جسٹس کمیشن کا گائیڈ لائنز تیار کرنا چاہییں۔ گائیڈ لائننز میں طے کیا جائے جوڈیشل سسٹم میں اے آئی کا کتنا استعمال ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلیں فوری سماعت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع
  • عدالتی نظام میں اے آئی کے استعمال پر سپریم کورٹ کی سفارش گائیڈ لائنز بنانے کی ہدایت
  • ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد آئے ججز کو واپس بھیجنے کے فیصلے کیخلاف اپیل پر نوٹس جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا کیس سنگل سے ڈویژن بینچ منتقل نہ کرنے کا حکم
  • ذہنی معذور لڑکی کے ساتھ زیادتی کا مقدمہ، لاہور ہائیکورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا 
  • عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر اہم فیصلہ جاری
  • سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ: عدالتی نظام میں اے آئی کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش
  • کنٹونمنٹ میں شاپنگ مالز بن گئے، میں زبردستی اندر جاؤں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہو گا: جسٹس افغان
  • گلگت بلتستان ججز تعیناتی وفاق کو آرڈر پسند نہیں تو دوسرا بنا لے، کچھ تو کرے: جسٹس جمال