انڈیا میں غیرمساویانہ اور غیر متوازن معاشی ترقی ہورہی ہے، رپورٹ میں انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں بھارت میں غیر مساویانہ اور غیر متوازن معاشی ترقی کا انکشاف ہوا ہے۔
انڈیا کے کاروباری جریدے ’بلوم‘ کے مطابق انڈیا کی 1.4 ارب آبادی میں سے ایک ارب لوگوں کے پاس انتہائی بنیادی ضروریات کے علاوہ دوسی اشیا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ڈاکٹرمن موہن سنگھ، جدید بھارتی معیشت کے معمار
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کی آباد ڈیڑھ ارب کے قریب ہونے کے باوجود اس کی مارکیٹ قریباً میکسیکو کے برابر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ انڈیا میں حالیہ سالوں میں معاشی ترقی غیرمساویانہ اور غیرمعتدل رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت میں امیر اور معاشی طور پر خوشحال لوگوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ پہلے سے موجود امیر لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔
یوں بھارت کی معاشی پالیسیاں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آبادی کو اوپر لانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان کا زیادہ فائدہ ملک کی امیر آبادی کو پہنچا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
india poverty امیر طبقہ بھارت غربت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت
پڑھیں:
فلاپ بیٹنگ لائن اپ: دہائیوں کا یہ قصہ ہے، سال دو سال کی بات نہیں
طویل عرصے بعد ملنے والے کسی بھی آئی سی سی ملٹی ٹیمز ایونٹ کی میزبانی کا پاکستانیوں نے جتنا طویل اور صبر آزما انتظارکیا، قومی ٹیم نے میگا ایونٹ سے باہر ہونے میں اتنی ہی جلد بازی دکھائی۔
اتوار کو جب کنگ کوہلی نے کور ڈرائیو پر خوشدل شاہ کو چوکا رسید کیا تب ہی قومی ٹیم کا چمپئنز ٹرافی کا سفر تمام ہوگیا تھا، مگر اس پر مہر کیویز نے ثبت کی۔
جب بنگال ٹائیگرز کا پنڈی میں ‘کریا کرم’ کیا گیا کسی بھی میگا ایونٹ میں اگر مگر اور پاکستانی ٹیم کی پیش قدمی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر اس با ر تو گرین شرٹس نے کسی اگر مگر کو بھی زیادہ زحمت نہیں دی۔
پاکستان کی شکست پر پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر تبصروں، تجزیوں کی بہتات ہے، جن کو دیکھ اور پڑھ کر خیال آتا ہے کہ اتنے ماہرین کرکٹ کی موجودگی میں یہ زوال آخر کیوں ہے۔
ہر کوئی قومی ٹیم کی شکست کے پیچھے چھپی پیچیدہ اور خفیہ وجوہات کی تلاش میں ہے، مگر سامنے پڑی حقیقت یہ ہے کہ چاہیے ٹرائی نیشن سیریز کا فائنل ہو، نیوزی لینڈ کے خلاف چیمپیئن ٹرافی کا پہلا میچ ہو، یا انڈیا کے ہاتھوں دبئی میں ملنے والی ہزیمت، ہر ایک شکست کے پیچھے پاکستانی بیٹنگ لائن اپ کی ناکامی کہتی سنائی دیتی ہے۔ ‘دہائیوں کا قصہ ہے، سال دو سال کی بات نہیں’۔
پاکستانی بیٹنگ کو درپیش لاعلاج مرض: پارنٹر شپس کی کمی، سست بیٹنگ اور ہدف کے تعاقب میں گھبراہٹ
جب سے پاکستان کرکٹ ٹیم نے کرکٹ بالخصوص ون ڈے فارمیٹ میں دنیا کوچیلنج کرنا شروع کیا، تب سے اب تک گزشتہ 40،45 سالوں میں قومی ٹیم کی ہر بڑی ناکامی کے پیچھے بیٹنگ لائن کا ہاتھ ہے۔
سکرینیوں پر بابر اعظم، محمد رضوان، سعود شکیل یا طیب طاہر کو لعن طعن کرتے ساتھ سابق اسٹارز خود بھی کبھی اسی گھن چکر کے موجد تھے۔
پاکستانی بیٹنگ کے 3 مسائل اجتماعی طور پر کبھی حل ہوتے نظر نہیں آئے، چاہے پھروہ گریٹ جاوید میانداد کا زمانہ ہو یا انضمام الحق کا، محمد یوسف ہوں یا سعید انور، یونس خان، مصباح الحق کے ہوتے ہوئے بھی پارنٹر شپس کی کمی، فی اوور ایوریج اور ہدف کے تعاقب میں گھبراہٹ ہر شکست کے بعد یہی وجوہات دوہرائی، لکھی اور بولی گئیں۔
انڈیا کی قدرے کمزور بولنگ کا متبادل: جاندار قیادت، موثر گیم پلان اور دستیاب صلاحیتوں کا درست استعمال
پاکستان نے اپنی کرکٹ کی تاریخ میں کئی بڑے نام پیدا کیے، جنہوں نے انفردی طور پر ٹیم کو میچز جتوائے، مگر اجتماعی طور پر قومی ٹیم نے وہ عرصہ کم ہی دیکھا ہے جب مستقل مزاجی سے اسکور کرنے والے بلے باز اسکواڈ کا حصہ ہوں۔ اسی لیے پاکستان کی ماضی اور حال کی زیادہ تر فتوحات کا سہرا بولرز کے سر رہا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے در میان ہمیشہ ‘باولنگ بمقابلہ بیٹنگ’ کی ٹکر رہی ہے، جہاں انڈیا نے پاکستان کے مقابلے میں بہتر بلے باز پیدا کیے، وہیں بولنگ میں پاکستان کا پلڑہ ہمیشہ بھاری رہا، مگر انڈیا نے قدرے کمزور بولنگ کا توڑ جاندار قیادت، موثر گیم پلان اور دستیاب صلاحیتوں کے درست استعمال کے ذریعے نکالا۔
ون ڈے کرکٹ کے ٹاپ 12 بلے بازوں میں صرف ایک پاکستانی بیٹنگ کے ماضی اور حال کا عکاس۔
بیٹنگ کے شعبے میں پاکستان کی تاریخی کمتری کا وہ چارٹ شاہد ہے، جس میں دنیا کی بڑی ٹیموں کے ان 12 بیٹرز کے نام ہیں، جنہوں نے سب سے زیادہ رنز اسکور کیے ہیں۔
اس فہرست میں پاکستان کا واحد نام انضمام الحق ہیں، جو 11739 رنز کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہیں، جبکہ انڈیا کے اس ٹاپ بیٹرز کی فہرست میں 6 کھلاڑی موجود ہیں، جس میں سچن ٹنڈولکر 18 ہزار سے زائد رنز کے ساتھ پہلے اور 14085 رنز کے ساتھ ویرات کوہلی تیسرے نمبر پر ہیں۔
اسی طرح ٹاپ 12 ناموں میں نویں سے بارھویں نمبر پر بھی گنگولی، روہت شرما، ڈریوڈ اور ایم ایس دھونی کی صورت میں انڈین ہی قابض ہیں۔
یہ چارٹ ثابت کرتا ہے کہ انفرادی طور پر تو پاکستانیوں نے کئی شاندار اور ریکارڈ پرفارمسز دی ہیں، مگر اجتماعی طور پر’بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت’ جیسی سرخیاں صرف آج کل کی دریافت نہیں، بلکہ یہ قصہ ماضی بعید سے ہی چلا آرہا ہے۔
بیٹنگ لائن کی خامیوں پر قابو پانے کے لیے کیوں نہ پڑوسیوں کی حکمت عملی چرائی جائے؟
پاکستان بیٹنگ لائن اپ کا مسئلہ کیسے حل کرسکتا ہے؟ اس سوال کے کل سے سینکڑوں، ہزاروں جواب اسکرینیوں پر دستیاب ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس قومی سطح پر اور پورے ڈومیسٹک نظام میں کچھ وافر ایسے بڑے نام دستیاب ہی نہیں، جن کے مستقبل میں ٹنڈولکر، کوہلی، روہت شرما یا ایم ایس دھونی بننے کا گمان کیا جا سکے۔
تو کیوں نہ اس کا حل بھی انڈیا کے اسی فارمولے سے نکالا جائے، جس میں اس نے قدرے کمزور بولنگ لائن اپ کو سہارا دیا۔
جاندار قیادت، موثر گیم پلان اور دستیاب صلاحیتوں کا درست استعمال ہی پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ کے اس موروثی مسئلے کا قطعی حل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں