فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: لارجر بینچ پہلے فیصلے کا پابند نہیں ہوتا، جسٹس امین الدین خان کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے
سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کیخلاف 5 رکنی بینچ کے ایک نہیں بلکہ 3 فیصلے ہیں، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے فیصلے لکھے لیکن تمام ججز نے ایک دوسرے کے فیصلے سے اتفاق کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، تحریری حکمنامے میں کیا کہا گیا ہے؟
فیصل صدیقی کے مطابق ججز کے فیصلے یکساں اور وجوہات مختلف ہوں تو تمام وجوہات فیصلہ کا حصہ تصور ہوتی ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ججز نے اضافی نوٹ نہیں بلکہ فیصلے لکھے تھے، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ تمام 5 ججز متفق تھے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے انٹراکورٹ اپیل کا دائرہ اختیار محدود ہونے کا موقف اپنایا جس سے وہ اتفاق نہیں کرتے، عزیر بھنڈاری کا انحصار پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ پر تھا۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ جسٹس منصور نے ماضی سے اپیل کا حق درست قرار دیا تھا میں نے اختلاف کیا، ماضی سے اپیل کا حق مل جاتا تو 1973 سے اپیلیں آنا شروع ہو جاتیں، فیصل صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اپیل کا دائرہ محدود کردیا تو ہماری کئی اپیلیں بھی خارج ہوجائیں گی۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی فیصلہ دینے والا جب کہ انٹرا کورٹ اپیل لارجر بینچ سنتا ہے، لارجر بینچ مقدمہ پہلی بار سن رہا ہوتا ہے اس لیے پہلے فیصلے کا پابند نہیں ہوتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس عائشہ ملک جسٹس محمد علی مظہر جسٹس منیب اختر جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس عائشہ ملک جسٹس محمد علی مظہر جسٹس یحیی ا فریدی سپریم کورٹ جسٹس امین الدین خان فوجی عدالتوں میں سویلینز کا فیصل صدیقی اپیل کا
پڑھیں:
عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں کہا ہے کہ اے آئی کو کسی صورت عدلیہ میں مکمل انسانی فیصلے کی خودمختاری کا متبادل نہیں ہونا چاہیے، اے آئی صرف اسمارٹ قانونی ریسرچ میں سہولت کے لیے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر اہم فیصلہ جاری کردیا اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش کر دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے جاری 18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ایپلیکیشنز چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک عدالتی استعدادکار بڑھا سکتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کئی ججز کی جانب سے اے آئی کے استعمال سے فیصلوں میں معاونت کا اعتراف کیا گیا ہے۔
فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ایک جج کی فیصلہ سازی کا متبادل نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں کہا ہے کہ اے آئی کو کسی صورت عدلیہ میں مکمل انسانی فیصلے کی خودمختاری کا متبادل نہیں ہونا چاہیے، اے آئی صرف اسمارٹ قانونی ریسرچ میں سہولت کے لیے ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی اصلاحاتی کمیٹی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو گائیڈ لائنز تیار کرنا چاہئیں، گائیڈ لائننز میں طے کیا جائے جوڈیشل سسٹم میں اے آئی کا کتنا استعمال ہوگا، اے آئی کو فیصلہ لکھنے میں ریسرچ اور ڈرافٹ تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اے آئی صرف معاون آلہ ہے۔