آسٹریا نے یکم مارچ سے ملک بھر میں پہلے روزہ کا اعلان کردیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
آسٹریا(نیوز ڈیسک)اسلامی نظریاتی کونسل آسٹریا نے یکم مارچ سے ملک بھر میں پہلے روزہ کا اعلان کردیا۔ماہ صیام کی آمد آمد ہے،اس کےلیے ہمیشہ کی طرح لوگوں کا جوش وخروش عروج پر ہے،مسلمان اس مقدس مہینےکا پورا سال انتظار کرتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل آسٹریا نےملک بھر میں یکم مارچ بروز ہفتہ کو پہلا روزہ ہوگا،جبکہ پہلی تراویح 28 فروری کو پڑھی جائے گی۔انتظامیہ کی جانب سے نمازِ تراویح اور سحری اور افطاری کے یکم مارچ کے شیڈول بھی جاری کر دئیے گئے۔
چور 5منٹ میں ایک ارب 67 کروڑ مالیت کا سونے کا ٹوائلٹ اکھاڑ لے گئے
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
اسلامی ریاست کا تصور
اسلام کے بنیادی عقائد، اصولوں اور شریعت کے تحت اسلامی ریاست کا تصور قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد عدل و انصاف، امن، مساوات اور ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے۔ اسلامی ریاست وہ نظامِ حکومت ہے جہاں اللہ کی حاکمیت تسلیم کی جاتی ہے اور حکمرانی قرآن و سنت کے مطابق کی جاتی ہے۔
اسلامی ریاست کے بنیادی اصول‘-1 حاکمیتِ الٰہی:اسلامی ریاست کا پہلا اصول یہ ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے، اور تمام قوانین و ضوابط قرآن و سنت کے مطابق مرتب کیے جاتے ہیں۔
-2 شریعت کا نفاذ:اسلامی قوانین (شریعت) کو زندگی کے تمام پہلوئوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ عدلیہ، معیشت اور سماجی نظام سمیت ریاست کے تمام امور قرآن و سنت کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔
-3 عدل و انصاف:اسلامی ریاست میں عدل و انصاف کا قیام بنیادی اصول ہے، جہاں تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
-4 امر بالمعروف و نہی عن المنکر:اسلامی ریاست اچھائی کو فروغ دیتی ہے اور برائی کو روکنے کے لیے ایک عملی نظام رکھتی ہے تاکہ معاشرہ نیکی اور تقوی پر مبنی ہو۔
-5 مشاورت:اسلامی ریاست میں حکومت عوام کے مشورے سے چلائی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں سورہ شوری (42:38) میں مشاورت کو ایک اہم اصول قرار دیا گیا ہے، جسے اصطلاح عام میں حقِ رائے دہی کہا جاتا ہے۔
-6 بنیادی حقوق کی فراہمی:اسلامی ریاست ہر شہری کو بنیادی حقوق فراہم کرتی ہے، جیسے جان و مال، عزت، مذہبی آزادی، اور مساوات کا تحفظ۔ اس کے علاوہ، فلاحی نظام کے تحت ضرورت مندوں، یتیموں اور مساکین کی کفالت کی جاتی ہے اور زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے معاشی انصاف کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
-7 اقلیتوں کے حقوق:اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی اور تحفظ حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ نبی کریمﷺ کے مدینہ کے معاہدوں سے ثابت ہوتا ہے۔
اسلامی ریاست کی عملی مثال‘سب سے پہلی اسلامی ریاست مدینہ کی ریاست تھی، جسے نبی اکرمﷺ نے قائم کیا۔ اس ریاست کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی گئی اور اس میں مساوات، عدل اور فلاحی اصولوں کو نافذ کیا گیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی اس ماڈل کو برقرار رکھا گیا۔
اسلامی ریاست محض ایک سیاسی ڈھانچہ نہیں، بلکہ ایک مکمل اسلامی نظامِ حیات ہے، جس میں دین اور دنیا کو یکجا کرکے انسانیت کی فلاح کے لیے حکمرانی کی جاتی ہے۔ یہ نظام عدل، مساوات اور حقوق کی حفاظت پر مبنی ہوتا ہے، جس کا مقصد ایک صالح اور پرامن معاشرہ قائم کرنا ہے۔
موجودہ دور میں اسلامی ریاست کا چیلنج‘ خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوا، جس میں عوامی رائے کو نظر انداز کیا گیا۔ اگرچہ شرعی قوانین کے نفاذ اور زکو کے نظام کی وجہ سے عوام کو قدرے خوشحالی ملی اور مملکت کی حدود میں وسعت پیدا ہوئی، مگر آمریت کی وجہ سے عوام میں خوف اور صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے استحکام برقرار نہ رہ سکا۔ آج مسلمان ممالک سخت آزمائش سے دوچار ہیں اور ان میں افراتفری پائی جاتی ہے۔
امتِ مسلمہ کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید امید کی کوئی کرن نظر آئے، مگر پاکستان میں ہمیشہ عوامی رائے، یعنی جمہوریت، کو پنپنے نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے حالات دگرگوں ہوتے گئے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اجتماعی غلطیوں کی اصلاح کریں، عوامی رائے کا احترام کریں اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنائیں تاکہ بحیثیتِ امت ہم اپنا فریضہ ادا کر سکیں اور انسانیت کی رہنمائی کرسکیں۔
مغربی ممالک اور اسلامی اصول‘آج مغرب نے اسلامی ریاست کے بعض اصولوں کو اپناتے ہوئے عوامی رائے کا احترام کیا اور اپنے اداروں کو مضبوط کیا ہے۔ ایسے قوانین بنائے ہیں جن میں مساوی حقوق، عدل و انصاف، روزگار، غریبوں، بوڑھوں، معذوروں اور بے روزگاروں کی مالی امداد کے علاوہ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ریاست نے لے رکھی ہے۔ عدلیہ آزاد ہے اور آزادیِ اظہارِ رائے کی اجازت ہے۔ احتساب کا ایک مضبوط نظام موجود ہے، جس کے تحت ہر کسی کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ مغربی ممالک کے تمام اقدامات کو سراہا نہیں جا سکتا، لیکن عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے ان کے اقدامات قابلِ رشک ہیں۔ اس کے برعکس، مسلم دنیا میں ظلم کا ایسا نظام ہے جہاں طاقتور اپنے ہی لوگوں پر بے دردی سے ظلم کرتا ہے اور کمزور کو انصاف نہیں ملتا۔
اسلامی ریاست کے لیے دیانت دار قیادت ضروری‘اسلامی ریاست کے قیام کے لیے حکمرانوں کا دیانت دار ہونا لازمی ہے۔ موجودہ نظام کسی بھی اعتبار سے اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر ہم حقیقی اسلامی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں، تو ہمیں عدل و انصاف، مساوات، دیانت داری اور عوامی رائے کے احترام کو اپنا شعار بنانا ہوگا تاکہ دنیا میں ایک منصفانہ اور فلاحی اسلامی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔