اپنے مالک کو دل کھول کر قرضہ دیں
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
ملک میں زلزلہ آئے یا سیلاب یا وطنِ عزیز کے کسی بھی علاقے کے لوگ کسی بھی آفت کا شکار ہوجائیں تو ان کی مدد کے لیے آج کل سب سے پہلے جس تنظیم کے کارکن پہنچتے ہیں وہ ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ ہے۔ الخدمت کے کارکن ہی نہیں ان کے مرکزی عہدیدار بھی ’نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پرواہ‘ کی مجسّم تصویر بن کر صرف اور صرف اپنے خالق کی خوشنودی اور انسانی ہمدردی کے جذبوں سے سرشار ہو کر کام کرتے ہیں۔
نہ وہ اپنی تشہیر کے لیے صحافیوں کی پر تکلّف دعوتیں کرتے ہیں اور نہ ہی فرمائشی کالم لکھواتے ہیں۔ وہ تعریف وتحسین یا دنیاوی تمغوں سے بے نیاز ہیں اور بہت سی دوسری تنظیموں کی طرح حکومتوں سے فنڈز بھی نہیں لیتے۔ اور یہ جان کر تو ان کے لیے عزّت اور احترام میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے کہ غزہ کے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچّوں کو پاکستان کی کوئی غیر سرکاری تنظیم امداد پہنچارہی ہے تو وہ الخدمت فاؤنڈیشن ہے۔
کام خود بولتا ہے اور کارکردگی خوشبو کی طرح کوبہ کو پھیلتی ہے۔ تشہیری مہم سے لوگ وقتی طور پر راغب تو ہوسکتے ہیں مگر مال معیاری نہ ہو اور کارکردگی جینوین نہ ہو تو عوام جلد ہی بدظن بھی ہوجاتے ہیں، غریبوں اور ناداروں کو کھانا کھلانے میں کراچی کے ادارے سیلانی ٹرسٹ کی خدمات قابلِ قدر ہیں اور آفت زدہ انسانوں کی بحالی کے لیے مدد پہنچانے اور خصوصاً بیرون ممالک میں مصیبت زدہ مسلمانوں کی مدد کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات انتہائی قابلِ ستائش ہیں۔
7اکتوبر وہ بدقسمت دن تھا جب غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں پر مسلّط ہونے والی اسرائیلی جنگ نے ان کے لیے زندگی مشکل بنا دی۔ اس جنگ کے آغاز ہی سے الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور سیکریٹری جنرل سید وقاص انجم جعفری صاحب کی نگرانی میں ساڑھے 5 ارب روپے مالیت سے غزہ کے محصورین کے لیے امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئی تھیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت 16 ائیر کارگو طیارے۔3بحری جہاز،اردن قاہرہ سے 50امدادی ٹرک 3,310ٹن کھانے پینے کی اشیاء پہنچائی گئیں۔ الخدمت اکیڈمک اسکالرشپ پروگرام کے تحت 400میڈیکل و انجینئرنگ کے طلباء کی ماہانہ مالی معاونت،2الخدمت غزہ اسکول جب کہ قاہرہ میں غزہ کے مہاجرین کے لیے الخدمت اسکولز میں 300 طلبہ و طالبات کی تعلیمی معاونت کی۔
الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے تحت اہل غزہ و مہاجرین کے لیے اب تک 35000فوڈ بیگز۔ 225066 فوڈکین 171398پکے پکائے کھانے کے فوڈ کین،14000آٹے کے تھیلے،20892 چاول کے بیگ، 17442افطار پیکٹ،88000 پانی کی بوتلیں،522000 جیری کین،اور 59512دیگر فورڈ اشیاء فراہم کی گئیں،اسرائیل حماس میں جنگ بندی معاہدے کے بعد الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے غزہ میں جاری امدادی سرگرمیوں اور بحالی و تعمیرنو کے حوالے سے الخدمت کے مرکزی صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن، اور نائب صدر جناب عبدالشکور نے خصوصی اجلاس میں شرکت کی۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن نے غزہ کے مظلوم باشندوں کے لیے جاری امدادی سرگرمیوں اور بحالی و تعمیر نو کے حوالے سے آیندہ کے لائحہ عمل کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے گزشتہ 15 ماہ میں ساڑھے 5 ارب روپے کی امدادی سرگرمیوں کے بعدا گلے 15 ماہ کے لیے ریلیف اور بحالی و تعمیر کے لیے 15 ارب روپے سے "Rebuild Gaza" مہم کا آغاز کر دیا ہے جس میں متاثرین کو عارضی شیلٹر، اشیائے ضروریات، اشیائے خوردونوش، طبی سہولیات، ایمبولینس،موبائل ہیلتھ یونٹس، ادویات اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ابتدائی طور پر غزہ میں ایک اسپتال کی بحالی، مکمل یا جزوی طور پر متاثرہ 5 اسکولوں کی تعمیرِ نو اور 25 مساجد کی تعمیر و بحالی کی جائے گی۔ غزہ کے متاثرین کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے 100سے زائد صاف پانی کے منصوبہ جات، مکانات اور چھت کی فراہمی کے لیے ریزیڈینشل ٹاوراور 3000 یتیم بچوں کی مستقل کفالت منصوبے کا حصہ ہے۔
صدر الخدمت نے مزید کہا کہ غزہ کی موجودہ صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے بلکہ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہونے کے باعث لاکھوں متاثرین بے سر و سامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے عوام نے پہلے بھی اہل غزہ کے لیے دل کھول کر مدد کی ہے اور اب بھی یقین ہے کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی بحالی و تعمیر نو کے لیے آگے بڑھیں گے۔ اس سلسلے میں الخدمت اپنے پارٹنر اداروں کے اشتراک سے فیلڈ میں موجود ہے اور اہل غزہ کے لیے ہر ممکن امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔
ماہ رمضان المبارک اہل ایمان پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ الحمد لاللہ اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد میں اہلِ ثروت حضرات انفاق فی سبیل اللہ کی راہ میں اربوں روپے مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں۔
صنعت وحرفت سے تعلق رکھنے والے حضرات اور تاجر حضرات اس کارِ خیر کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ہم اس ضمن میں اہلِ ثروت خواتین وحضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں تعمیر وبحالی کے منصوبے میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے ساتھ حسبِ سابق مالی تعاون کریں۔ پاکستانی قوم نے اسلامی، ایمانی، انسانی، فلاحی جذبے کے تحت فلسطین سمیت جہاں کہیں بھی مسلم ممالک کے عوام کو ناگہانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور الخدمت فاؤنڈیشن کی ٹیم نے اہلِ پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے امانت اور دیانت کے ساتھ فلسطین کے مظلوموں اور سیلاب زلزلہ یا کسی بھی ناگہانی آفت کے متاثرین تک امداد پہنچائی ہے اس بار بھی الخدمت پر اعتماد کیجیے۔ الخدمت کا اکاؤنٹ نمبر ہے:
Al.
Bank Accnt: Faysal Bank
Accnt: 30053080000665
دو اور تنظیموں کا بھی ذکر کروں گا جن کی کارکردگی قابلِ ستائش ہے۔ قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی کئی سالوں سے کم وسائل رکھنے والے مستحق طلباء وطالبات کی مالی امداد کر ررہی ہے۔
اس فاؤنڈیشن کی مالی امداد سے سیکڑوں نوجوان ڈاکٹر اور انجینئر بن چکے ہیں، اس کارِخیر میں گوجرانوالہ کی انتہائی ممتاز اور قابلِ اعتماد شخصیات شامل ہیں جن میں ملک ظہیر الحق، اخلاق بٹ، مستنصر ساہی، میاں اقبال محمود دھاریوال، ہمایوں بٹ، محمد اعظم (Boss والے) اور عبدالرّوف مغل وغیرہ شامل ہیں۔ تمام دوستوں نے مجھے قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی صدارت کی ذمے داری سونپی ہوئی ہے۔ اب یہ فاؤنڈیشن Nust یو ای ٹی، میڈیکل کالج گوجرانوالہ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، جی سی یونیورسٹی، گفٹ یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے مستحق طلبا کو بھی اسکالر شپ فراہم کررہی ہے تاکہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی نوجوان اپنی پیشہ ورانہ تعلیم منقطع نہ کردے۔ اس فاؤنڈیشن کی بھی ضرور مدد کیجیے۔ اس کا اکاؤنٹ نمبر ہے۔قائداعظم ایجوکیشن فاؤنڈیشن
Bank of Punjab- Code = 0147
Acctt:6020220431300014
دیہاتوں میں غربت بہت زیادہ ہے، دیہاتی علاقے میں بیواؤں، بیماروں اور ناداروں کی امداد کے لیے ہماری تنظیم ’’کرن‘‘ کئی سالوں سے مصروفِ عمل ہے اور ایک سال میں تین سے چار مرتبہ سیکڑوں مستحقین کو راشن کے پیکٹ فراہم کررہی ہے۔ غرباء، بیوگان اور مستحقین کو امدادی رقم اور راشن کی تقسیم کا سارا عمل انتہائی شفاف طریقے سے ہوتا ہے جس کی نگرانی میرے علاوہ انتہائی نیک دل افراد جن میں فیاض احمد چیمہ، ڈاکٹر محمد اظہر، حاجی محمد اختر اور مولانا محمد اقبال کرتے ہیں، اس تنظیم کی بھی دل کھول کر مدد کریں اور اپنے خالق ومالک کی خوشنودی حاصل کریں۔
اللہ سبحانہُ تعالیٰ کئی گنا بڑھا کر آپ کو لوٹا دے گا۔ اس تنظیم کے ورکر مستحقین کو گھروں پر راشن کے پیکٹ پہنچاتے ہیں، کسی مرد یا خاتون کو لائن میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ امدادی سامان انتہائی باعزّت طریقے سے بیوگان اور نادار گھرانوں کو ان کے گھروں پر فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کا اکاؤنٹ مشترکہ ہے جو میرے اور مولانا محمد اقبال کے نام پر ہے۔ اس کا نمبر ہے۔
Allied Bank -Bank code = 014
Branch Code: 0567-Acctt Number: 0010014639190023
رمضان المبارک کے مقدّس مہینے میں دل کھول کر مالی مدد کیجیے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے اور اپنے مالک سے اجر حاصل کیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: الخدمت فاؤنڈیشن بحالی و تعمیر فاؤنڈیشن کی دل کھول کر کرتے ہیں کے لیے ا غزہ کے کے تحت ہے اور
پڑھیں:
ملک کا بیڑہ غرق کس نے کیا
وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباًاٹھتر برس بیت چکے ہیں مگر اس عرصے میں ہم نے ترقی سے زیادہ تنرلی کی منازل طے کی ہیں اور نتیجتاً آج اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہر وقت دیوالیہ ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔خاص کر پچھلے دس برسوں میں یہ خطرہ خطرناک حدوں کو چھونے لگا اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم حقیقتاً ڈیفالٹ کرچکے تھے بس اس کا برملا اعتراف اور اعلان کرنے سے ہچکچاتے رہے۔
خدا کا شکر ہے کہ قوم کی زبردست قربانیوں کے نتیجے میں ہم آج اس خطرے سے وقتی طور پر باہر نکل چکے ہیں،لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ابھی ٹلا نہیںہے۔تلوار ابھی بھی ہمارے سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔ کوئی بھی انہونہ واقعہ یا سیاسی عدم استحکام ہمیں پھر ایڑھیاں رگڑنے پرمجبور کرسکتا ہے۔سیاسی وابستگی کو پس پشت ڈال کر اورتعصب کی عینک اتار کر اگر ہم اپنی ان ناکامیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ ہم نے کسی بھی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے ہی نہیں دی۔
ہمارے عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ۔سیاسی رہنماؤں پر تنقید کرنے اورناکامیوں کا سارا الزام جمہوریت پر ڈالنے والے تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ دو ڈھائی برس کی حکومتوں سے ہم یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اس مختصر سے عرصے میں قوم کی کایا پلٹ کر رکھ دیں گے۔ ہم تجزیہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی فراموش کرجاتے ہیںکہ کس سیاسی رہنما نے اس تھوڑے سے عرصے میں ملک کی خوشحالی اورترقی کے لیے بلاشبہ کچھ نہ کچھ کیاہے۔
تنقید کرتے ہوئے ہم تمام سیاسی رہنماؤں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتے ہوئے سب کواِن ناکامیوں کا ذمے دار قرار دینے لگتے ہیں۔تیس برس تک بلاروک ٹوک حکمرانی کرنے والے غیر جمہوری حکمرانوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انھیں معاف کردیتے ہیں۔جب کہ دیکھا جائے تو دس دس برس تک کسی بھی مداخلت کے بنا بلا خوف وخطر اورکسی جواب دہی کے بغیر حکومت کر نے والے اگر چاہتے تو اس ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتے تھے۔جمہوری حکمرانوں پر تو دیدہ و نادیدہ بہت دباؤ ہوا کرتا ہے۔ اُسے تو اپنے سیاسی لوگ ہی چین سے حکومت کرنے نہیں دیتے ہیں۔
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جمہوری حکمرانوں نے اس ملک کے لیے کچھ بھی نہیںکیا۔وہ حتی المقدور اپنی ڈیوٹی بڑی جانفشانی سے ادا کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت ہی کو لے لیجیے ، وہ جس طرح شبانہ روز مستعدی اورمحنت سے ملک اور قوم کومالی عدم استحکام سے باہر نکالنے کی کوششیں کررہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ اس کے مخالف اسے تسلیم کرنے میں خفت اورشرم محسوس کرتے ہیںلیکن دنیا کے مالیاتی ادارے ان کوششوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کااعتراف بھی کرتے ہے۔قطع نظر اس کے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں قوم پر مہنگائی کا بہت بڑا بوجھ ڈالا گیا اورجس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کو سیاسی قربانی بھی دینی پڑی لیکن بہرحال اسی شہباز شریف نے اس ایک سال میں بہت سے اچھے کام بھی کرکے دکھادیے ہیں۔رفتہ رفتہ ملک کنگالی کے اثرات سے باہر نکل رہا ہے اورقوم کو اُمید بن چکی ہے کہ اگر اس حکومت کو چلنے دیاگیا تو ہم یقیناً 2017 والی پوزیشن پر پہنچ جائیںگے جب ہم نے IMF کو خدا حافظ کہہ دیا تھااوراپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے تھے۔ مہنگائی کا وہ عالم بھی نہیںتھا جوبڑھتے بڑھتے آج اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہرنکل چکی ہے۔
سوچا جائے کہ ایسا کیونکر ہوا۔ وہ کونسی سازشیں تھیں جس نے ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو ترقی وخوشحالی کی پٹریوں سے اتارکرتنزلی اورتباہی کی گہری کھائی میں دھکیل دیا۔الیکشن میں دھاندلی کا شوشہ کھڑا کرکے پہلے ہی برس لانگ مارچ اور ڈی چوک پردھرنے کے نام پرقبضہ کرکے اس حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اوراس میںناکامی کے بعد پاناما اسکینڈل کھڑا کردیا گیا،اس پاناما لیکس میں 480افراد کے نام درج تھے لیکن صرف ایک شخص جس کانام بھی اس فہرست میں شامل نہیں تھااسے تختہ مشق بناکرمحروم اقتدار کردیاگیا، ایسا کیوں کیاگیا ؟
یہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک سے طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کا خاتمہ کیاگیا، کراچی شہر سے بدامنی اورقتل وغارت گری ختم کی گئی ، توانائی کے بحران کا حل تلاش کیا گیا اورسب سے بڑھ کرسی پیک منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد شروع کردیا گیا۔ دشمنوں کو یہ خوف طاری ہونے لگا کہ اس شخص کو اگر چلنے دیاگیا تو پھر 2018 الیکشن میں اسے ہرانا ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا اس کا راستہ نہ صرف روک دیاگیا بلکہ اسے تاحیات نااہل قرار دیکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا۔اس کے بعد جوکچھ بھی ہوا ہم آج اسی کے نتائج اور شاخسانے بھگت رہے ہیں۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پرویزمشرف کے دور میں دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستہ کاکردار اداکرنے کی وجہ سے ہمارا ملک خود اسی دہشت گردی کی آگ میں جلنے لگا اوردس پندرہ برسوں تک جلتارہابلکہ دیکھا جائے تو ابھی تک سلگ رہا ہے۔بلوچستان اورخیبر پختون خوا میںآج بھی امن کا فقدان ہے۔
یہ اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کے لوگ ہمیں اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔وہ امریکا کا تو کچھ بگاڑ نہیںسکتے لیکن ہمارے یہاں گوریلاجنگ تولڑسکتے ہیں۔ انھیں ہم سے زیادہ بھارت عزیز لگنے لگا ہے۔ ایک طرف عدم تحفظ اور دوسری طرف سیاسی عدم استحکام ہوتو پھربھلا یہ ملک ترقی کرے تو کیسے کرے۔پرویز مشرف کے دور کو ایک بہتر دورخیال کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دور میں ہم غیر محفوظ اور خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل کردیے گئے تھے اورکوئی ملک اپنا وفد یا کھلاڑی بھی بھیجنے کو تیار نہ تھا۔ہم دس برس تک اپنے یہاں کوئی ٹورنامنٹ بھی نہیںکرواپائے ۔