حادثات کی ذمے دار سڑکیں بھی ہیں
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
کراچی میں ٹریفک حادثات ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اورکوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن حادثے میں کسی جانی نقصان کی خبر میڈیا میں نہ ہوتی ہو ۔ کراچی میں اسلام آباد و لاہور جیسی تو شاید ہی کوئی سڑک ہو جہاں سڑک کی سطح ہموار اور ٹوٹ پھوٹ سے پاک ہو جہاں ٹریفک کی روانی کسی بھی وجہ سے متاثر نہ ہوتی ہو۔
ایسی سڑکیں کراچی کے پوش ایریاز میں تو ممکن ہیں مگر شہر کی دیگر شاہراہیں ایسی نہیں ہیں جہاں تیز رفتار ٹریفک کی روانی میں کوئی حادثہ نہ ہوتا ہو۔ بڑی سڑکوں پر تیز رفتار گاڑیاں ضرورت سے تیز رفتاری سے گزرتی ہیں اور مقررہ اسپیڈ کی دھجیاں وہاں اڑتی نظر آتی ہیں۔ ایسی شاہراہوں پر اسپیڈ چیک کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ کراچی کی اکثر سڑکیں وہاں روشنی کا نظام اور ٹریفک سسٹم ملک بھر میں سب سے بدتر ہے۔ وہاں ٹریفک اہلکاروں کا زور ٹریفک روانی بحال کرنے سے زیادہ چالانوں پر ہے اور ان کا نشانہ چھوٹی گاڑیاں اور بائیک سوار زیادہ ہیں۔
مہنگی اور قیمتی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کو روکنے کے لیے ان کے ہاتھ کھڑے ہی نہیں ہوتے جو چھوٹی گاڑیوں اور بائیک سواروں کو روک روک کر تھک جاتے ہیں اور غریب و متوسط طبقہ ہی ان سے زیادہ چالان ہوتا ہے جن پر بیٹھے لوگ رعب دار شخصیت بیورو کریٹس اور نہایت بااثر ہوتے ہیں اور ان کی لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے والی اولاد کو ہی اگر غلطی سے ٹریفک اہلکار اگر روک لے تو جھاڑ پڑنے پر وہ ان سے معذرت کر کے سلیوٹ بھی کرتا ہے ورنہ ان وی آئی پیز کو چالان کرنا تو دور کی بات اگر روک بھی لے تو انھیں روکنا اس کے گلے پڑ جاتا ہے اور انھیں سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔
ٹریفک چالان اور جرمانے اثر و رسوخ نہ رکھنے والوں کا مقدر ہے اور اب تو وکلا حضرات بھی اپنی گاڑیوں پر نمایاں طور پر ایڈووکیٹ لکھواتے ہیں اور پولیس اہلکار ان کی گاڑیوں کو روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چھوٹی گاڑیاں اور بائیکس چالان کرنے پر ٹریفک پولیس کو معقول کمیشن ملتا ہے اس لیے ان کا زور بھی سفارش نہ رکھنے والوں پر ہی زیادہ چلتا ہے۔
کراچی شہر کی اندرونی بڑی سڑکیں جن سے اندرون شہر کی تباہ حال سڑکیں ہی رابطے کا ذریعہ ہیں، وہ زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جہاں کھلے ہوئے گٹر بھی عام ملیں گے جگہ جگہ سیوریج کا پانی بہتا یا کھڑا نظر آئے گا۔ اندرونی سڑکوں پر گٹر بھی درمیان میں ہوتے ہیں اور نشیب میں گٹروں کا پانی دور تک پھیلا ہوتا ہے۔
کراچی میں سپر ہائی وے سے ملانے والا روڈ ہو یا نارتھ ناظم آباد سے گزر کر نارتھ کراچی، سرجانی والی شاہراہیں یا شارع فیصل، گلشن اقبال، گلستان جوہر سے سہراب گوٹھ و نیو کراچی جانے والی معروف سڑکیں وہاں بھی سڑکیں ہموار نہیں بلکہ جگہ جگہ کہیں گڑھے آ جائیں گے، کہیں سڑک ٹوٹی ملے گی جو اچانک نظر آ جانے پر گاڑی یا بائیک والوں کو رفتار کم کرنا پڑتی ہے تو نتیجہ میں پیچھے سے آنے والی گاڑیاں اچانک رکنے یا سلو ہونے سے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں جس سے لوگوں کا نقصان ہی نہیں بلکہ جھگڑے بھی ہوتے ہیں اور ٹریفک کی روانی متاثر ہونے سے پیچھے گاڑیوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔
بڑی شاہراہوں سے ملانے والی جو اندرونی سڑکیں ہیں وہ زیادہ تباہ حالی کا شکار اور حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔ یوں تو پورے شہر کا یہی حال ہے اورکراچی کے مقدر میں سرکاری تاخیر زیادہ لکھی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی منصوبہ وقت پر مکمل نہیں ہوتا جس کی مثال یونیورسٹی روڈ ہے جس پر چار سالوں سے تعمیری کام چل رہا ہے جہاں مزار قائد چورنگی سے صفورا، گلستان جوہر روٹ پر بسیں چلنی ہیں جو نمائش چورنگی پر آپس میں ملائی جائیں گی جس کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ کی طویل سڑک پر روزانہ ٹریفک جام رہنا معمول اور حادثات کا سبب بن رہا ہے۔
حسن اسکوائر سے ہر وقت سیکڑوں گاڑیاں اور بائیک سوار ایف بی ایریا، نیو کراچی، سہراب گوٹھ، گلشن چورنگی و دیگر علاقوں میں جانے کے لیے گلشن اقبال، بلاک 13 ڈی کے علاقے سے گزرتے ہیں جہاں سڑک کی مرمت تو کرا دی گئی مگر نئے ریلوے پل سے سر شاہ سلیمان روڈ اور یونیورسٹی روڈ سے ملانے والی تھوڑے فاصلے کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت چھوڑ دی گئی جہاں سڑکیں تباہ حالی کا شکار ہیں اگر ان کی بھی مرمت کرا دی جاتی تو ٹریفک رواں ہو جاتی۔ یہ ایک مثال ہے اور ہر اہم سڑک کے اطراف یہی حال ہے۔
کراچی میں تقریباً 80 فی صد سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور تباہی کا شکار ہیں جو حادثات کی بڑی وجہ ہے۔ بلدیاتی اداروں کے متعلقہ انجینئرز بھی ان سڑکوں سے گزرتے ہیں،لیکن شاید وہ بھی نوٹس نہیں لیتے کہ سڑکوں کی لمبی تعمیر یا پیچ ورک ہو رہا ہو وہاں چند گز کے مزید گڑھے بند یا مرمت کرا کر سڑک کو بہتر بنا دیں۔ ٹوٹی و تباہ حال سڑکوں کی مرمت میں کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے مگر نہ جانے یہ گٹر اور ٹوٹی سڑک کیوں نہیں بنائی جاتی اگر یہ بھی مرمت ہو جائے تو ٹریفک حادثات کم ہو سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور بائیک کراچی میں تباہ حال ہیں اور کا شکار ہے اور
پڑھیں:
ملک میں 55 فیصد ریلوے کراسنگز پھاٹک سے محروم، حادثات میں اضافہ
پشاور/ لاہور/ کراچی:گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاکستان ریلویز، صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ملکر لیول کراسنگز پر سڑکوں اور پھاٹکوں کی تعمیر اور مرمت کیلئے ایک موثر حکمت عملی بنانے میں ناکام ہے۔
پشاور کے رہائشی محمد فقیر کو آج بھی اپنے والد کی المناک موت یاد ہے جو ٹرین کی زد میں آ کر جاں بحق ہوئے تھے، انھوں نے کہا کہ پھاٹک نہ ہونے سے شہری علاقوں سے گزرنے والی ٹرینوں کیلیے حفاظتی انتظامات نہیں،صدیوں پرانا نظام ہی اب بھی چل رہا ہے۔
لاہور کے علاقے لال پل کے رہائشی حسن رحیم سنی کے مطابق کینال روڈ موڑ پر پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اور کاریں وقتاً فوقتاً حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
دی ایکسپریس ٹریبیون کی معلومات کے مطابق ملک بھر میں پھیلی 11,881 کلومیٹر طویل ریلوے پٹڑیوں پر کل 3,783 لیول کراسنگز موجود ہیں جن میں سے بمشکل 1,700 پر گیٹ ہیں،باقی 55 فیصد گیٹ کے بغیر ہیں۔
اس بارے سابق چیف انجینئر ریلوے افضل باجوہ کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے لیول کراسنگ پر سڑک کی تعمیر متعلقہ صوبے کی حکومت کی ذمہ داری رہی ہے، بدقسمتی سے متعلقہ محکمے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2013 ء سے2021ء تک مختلف شہروں میں ریلوے حادثات کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ رہی ہے۔
لاہور 296 واقعات کے ساتھ سرفہرست، اس کے بعد ملتان 246 اور سکھر 235 کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا، پشاور میں 27 حادثات ریکارڈ ہوئے جبکہ دیگر شہروں راولپنڈی، کوئٹہ اور کراچی میں بالترتیب 100، 37 اور 156 حادثات رپورٹ ہوئے۔
کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری احمد کمال نے دعویٰ کیا کہ ریلوے حکام کی جانب سے ریلوے پٹڑیوں کی مرمت میں ناکامی نے ان کے محکمے سی اینڈ ڈبلیو کو اپنا کام کرنے سے روک رکھا ہے۔
ریلوے حکام کے پاس صوبہ خیبر پختونخواہ میں جنکشنز کی حالت کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار دستیاب نہیں ۔