Express News:
2025-04-16@02:59:01 GMT

جوش ملیح آبادی ایک بے باک شاعر

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

جوش ملیح آبادی کا نام اردو شاعری میں ایک ایسے شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے جو زبان و بیان کے جوہر کے ساتھ ساتھ فکر و شعور کے بھی علَم بردار تھے۔ وہ نہ صرف عشق و محبت کے شاعر تھے بلکہ حریت فکر انسانی وقار سچائی اور بغاوت کے بھی نمایندہ تھے۔ ان کی شاعری میں جہاں الفاظ کا جادو نظر آتا ہے وہیں ایک بے باک اور غیر روایتی سوچ بھی جھلکتی ہے۔ جوش کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو مصلحت کشی سے دور اپنی راہ خود متعین کرنے والے تھے۔ ان کی شخصیت ان کے نظریات اور ان کے طرزِ سخن نے انھیں دوسروں سے منفرد کردیا تھا۔

ان کی شاعری میں ایک ایسا انقلابی جوش نظر آتا ہے جو انسان کو غلامی اور جبر کی زنجیریں توڑنے پر مجبورکردیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں خود کو محض ایک شاعر نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے شعروں کے ذریعے وہ معاشرے کے مسائل انسانی حقوق اور آزادی کے بنیادی اصولوں کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔ ان کے قلم میں آگ تھی جو صرف روشنائی کے ساتھ نہیں بلکہ خونِ جگر سے لکھی گئی تھی۔ وہ سچ بولنے سے کبھی نہیں گھبرائے نہ ہی کسی مصلحت نے انھیں حق گوئی سے روکا۔

 جوش ملیح آبادی کے کلام میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ تاریخ کے مختلف ادوار سے لے کر اپنے معاصر حالات تک پرگہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں واقعہ کربلا اور حضرت امام حسینؑ کی قربانی کو بھی بڑے فکری اور انقلابی انداز میں بیان کیا گیا۔ جوش کے نزدیک امام حسینؑ محض ایک مذہبی شخصیت نہیں بلکہ حق اور سچائی کے استعارے تھے ایک ایسا انقلاب جس نے ہمیشہ کے لیے ظالم کے خلاف لڑنے کی جرات پیدا کردی۔ وہ لکھتے ہیں۔

کربلا اک فکر ہے، تاریخ کا آئینہ ہے

سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں

یہی جوش کا نظریہ تھا جو انھوں نے اپنی زندگی بھر اپنائے رکھا۔ وہ ظلم و جبرکے آگے جھکنے والے نہیں تھے چاہے وہ سماجی ناانصافیاں ہوں یا سیاسی جبر۔ ان کا یہ انقلابی انداز نہ صرف ان کے اشعار میں نظر آتا ہے بلکہ ان کی شخصیت میں بھی نمایاں تھا، وہ ہمیشہ استحصالی قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہے چاہے وہ انگریزوں کا استعمار ہو یا بعد میں آنے والی استبدادی قوتیں۔

جوش کی شاعری میں ایک اور پہلو جو نمایاں تھا، وہ ان کی وسیع المشربی اور انسان دوستی تھی۔ وہ فرقہ واریت اور تنگ نظری سے شدید نفرت کرتے تھے۔ ان کے نزدیک انسانیت سب سے بڑا مذہب تھا اور وہ انسان کو انسان کے مقام پر دیکھنا چاہتے تھے نہ کہ ذات پات فرقے یا مذہب کے دائروں میں قید۔ ان کے یہ اشعار آج بھی ہماری سماجی صورت حال پر ایک چبھتا ہوا طنز معلوم ہوتے ہیں

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

 یہی سوچ تھی جو انھیں ایک بڑے شاعر کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مفکر کے درجے پر فائز کرتی ہے۔ ان کا شعری سفر محض غزل و قصیدہ تک محدود نہیں تھا بلکہ انھوں نے نظم رباعیات اور طویل انقلابی نظموں میں بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ ان کے الفاظ میں جو شدت اور اثر تھا وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آیا۔

جوش ملیح آبادی کے سیاسی اور سماجی نظریات کی وجہ سے انھیں کئی بار مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے بے باک خیالات ہمیشہ سے اقتدار کے ایوانوں کے لیے خطرہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کئی بار جلاوطنی نظر بندی اور مختلف طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنی روش سے نہ ہٹے۔ وہ پاکستان آئے تو یہاں بھی ان کی شخصیت اور خیالات کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی مگر ان کے چاہنے والوں نے ہمیشہ انھیں ایک عظیم شاعر اور دانشور کے طور پر یاد رکھا۔

 ان کا تعلق ایک علمی اور خاندانی گھرانے سے تھا اور اسی وجہ سے انھیں تعلیم و تربیت کا بہترین ماحول ملا۔ وہ ابتدا ہی سے ذہین اور متجسس طبیعت کے مالک تھے۔ شاعری کا آغاز بھی کم عمری میں کردیا تھا اور پھر یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔ ان کی زبان دانی تاریخی شعور اور الفاظ کے چناؤ نے انھیں اس دورکے دوسرے شاعروں سے ممتازکردیا۔

 جوش نے نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعے قوم میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ نثر میں بھی ان کا کام غیر معمولی ہے۔ ان کی خود نوشت’’ یادوں کی برات‘‘ اردو ادب میں ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے جس میں انھوں نے اپنے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو نہایت بے باکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ادبی سرمایہ ہے بلکہ برصغیر کی تاریخ اور اس وقت کے سیاسی و سماجی حالات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم دستاویز بھی ہے۔

 ان کی شاعری میں الفاظ کی جو شعلہ بیانی تھی وہ آج بھی سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں کوگرما دیتی ہے۔ وہ ایک خطیب بھی تھے اور جب وہ اپنے اشعار ترنم کے ساتھ پڑھتے تو مجمع دم بخود رہ جاتا۔ ان کے اشعار محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تحریک تھے، ایک عزم ایک حوصلہ جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔

 ان کی شاعری میں محبت، انقلاب، احتجاج، آزادی، حق پرستی اور انسانی عظمت جیسے موضوعات نمایاں رہے۔ وہ کسی مخصوص طبقے کے شاعر نہیں تھے بلکہ ہر اس شخص کے شاعر تھے جو جبرکے خلاف تھا جو انسانی آزادی کا قائل تھا اور جو اپنی پہچان کو فرقہ واریت اور تعصب سے بالاتر سمجھتا تھا۔

 یہی وجہ ہے کہ جوش آج بھی زندہ ہیں۔ وہ صرف ماضی کے شاعر نہیں بلکہ مستقبل کی امید بھی ہیں۔ ان کی شاعری ان کے نظریات اور ان کا بے باک انداز آج بھی نوجوان نسل کو حوصلہ دیتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں حق کے لیے آواز بلند کریں اور کبھی کسی طاقت کے آگے نہ جھکیں۔

خون میں جوش ہے الفاظ میں تلواریں ہیں

ہم وہی لوگ ہیں جو وقت کی دھاریں ہیں

 یہی جوش ملیح آبادی تھے ایک بے باک شاعر ایک بیدار ذہن جو اپنی زندگی میں بھی چراغ کی طرح جلتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے آج بھی روشنی پھیلا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوش ملیح ا بادی ان کی شاعری میں نہیں بلکہ کے ساتھ کے خلاف میں بھی کے شاعر میں ایک تھا اور ا ج بھی اور ان بے باک

پڑھیں:

لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ زندہ تاریخ کا میوزیم ہے: وزیراعلیٰ مریم نواز

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف سے اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن کے 25 رکنی وفد کی ملاقات ہوئی۔ ملاقاتی  وفد میں تاجکستان، ازبکستان، ترکیہ، قازقستان، ترکمانستان، ایران، آذربائیجان اور پاکستان کے سی ایم او میں مستقل مندوب شامل تھے۔ وفد کی سربراہی ای سی او کے سیکرٹری جنرل اسد مجید خان نے کی۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا وفد کی لاہور آمد پر پرتپاک خیر مقدم کیا گیااور  وفد کے ارکان کو لاہور آمد پر خوش آمدید کہا۔سینئر منسٹر مریم اورنگ زیب نے ای سی او وفد کے شرکا کو تفصیلی بریفننگ دی۔  وزیراعلی مریم نواز شریف نے اس موقع پر لاہور کو ای سی او کیپٹل قرار دینے میں معاونت پر ترکمانستان کا شکریہ ادا کیا ۔  مریم نواز نے کہا کہ ای سی او کے معزز مہمانوں کی موجودگی ہمارے لیے باعثِ اعزاز ہے۔قدیم اور جدید ثقافت کے شہر لاہور سے محبت ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اپنی ذاتی نگرانی میں لاہور کی ثقافتی بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔   لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ زندہ تاریخ کا میوزیم ہے۔ لاہور کی گلیوں میں تہذیب کی خوشبو ہے، آثارقدیمہ ماضی کی عظمت کے گواہ ہیں۔لاہور کے لوگ پیار اور محبت کے پیکر ہیں،لاہوریوں کی میزبانی بے مثال ہے۔  لاہور کے باغات شاہی قلعے اور یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹس اس کی شان و شوکت کا ثبوت ہیں۔ لاہور نہ صرف تاریخ کا محافظ ہے بلکہ ذائقوں کا مرکز بھی ہے۔ پنجاب سیاحوں کی میزبانی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ٹورازم سیکٹر کو ایک نئی صنعت کے طور پرفروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ پنجاب حکومت نہ صرف لاہور بلکہ پورے صوبے میں سیاحتی مقامات کو اپ گریڈ کر رہی ہے۔ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔پنجاب کاروبار، ٹیکنالوجی اور سروسز کا ابھرتا ہوا مرکز بنتا جا رہا ہے۔  پنجاب میں زراعت، ٹیکنالوجی، ٹورازم، تعلیم اور انڈسٹری اور دیگر شعبوں میں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ پنجاب میں فارن انوسٹر کے لیے ہر شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے زمین ہموار کی جا چکی ہے۔

 اس موقع پر اسد مجید سیکرٹری جنرل ای سی او نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں 1992 میں پاکستان ای سی او میں شامل ہوا۔ وزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب،سیکرٹری جنرل ای سی او کا لاہور سے ہونا خوشگوار ہے۔ لاہور آکر خوشی ہوئی،شہر بے مثال ہے،شاندار استقبال اورپرتپاک خیر مقدم نہیں بھول سکتے۔ وفد کے شرکا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔  لاہور ثقافتی تنوع سے بھرپور ہے، دوبارہ آنے کی خواہش بھی ہے۔ ای سی او وفد نے لاہور کی خوبصورتی،ثقافتی بحالی،سیاحت کے فروغ کیلئے وزیراعلی مریم نوازشریف اوران کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔ وفد کے شرکاء نے وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کو شاندار خطاطی کا نمونہ اوردیگر یادگاری سوونیئر پیش کیےگئے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا پس منظر، طاقت یا مجبوری؟
  • اسرائیلی ریاست، نفسیاتی بیماریوں کا شاخسانہ
  • ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات
  • لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ زندہ تاریخ کا میوزیم ہے: وزیراعلیٰ مریم نواز
  • انطالیہ سے لاہور تک مریم نواز کی عالمی ڈپلومیسی
  • مفکرپاکستان شاعرمشرق ڈاکٹرسر علامہ محمد اقبال کا 87واں یوم وفات 21اپریل کو منایا جائے گا
  • زباں فہمی نمبر244 ؛کچھ جوشؔ کے بارے میں
  • شاہی سید کی ایم کیو ایم کے مرکز آمد،رہنماؤں سے ملاقات
  • حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • فیک نیوز: شیطانی ہتھیار جو سچائی نگل رہا ہے