Express News:
2025-02-25@23:33:03 GMT

جوش ملیح آبادی ایک بے باک شاعر

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

جوش ملیح آبادی کا نام اردو شاعری میں ایک ایسے شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے جو زبان و بیان کے جوہر کے ساتھ ساتھ فکر و شعور کے بھی علَم بردار تھے۔ وہ نہ صرف عشق و محبت کے شاعر تھے بلکہ حریت فکر انسانی وقار سچائی اور بغاوت کے بھی نمایندہ تھے۔ ان کی شاعری میں جہاں الفاظ کا جادو نظر آتا ہے وہیں ایک بے باک اور غیر روایتی سوچ بھی جھلکتی ہے۔ جوش کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو مصلحت کشی سے دور اپنی راہ خود متعین کرنے والے تھے۔ ان کی شخصیت ان کے نظریات اور ان کے طرزِ سخن نے انھیں دوسروں سے منفرد کردیا تھا۔

ان کی شاعری میں ایک ایسا انقلابی جوش نظر آتا ہے جو انسان کو غلامی اور جبر کی زنجیریں توڑنے پر مجبورکردیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں خود کو محض ایک شاعر نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے شعروں کے ذریعے وہ معاشرے کے مسائل انسانی حقوق اور آزادی کے بنیادی اصولوں کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔ ان کے قلم میں آگ تھی جو صرف روشنائی کے ساتھ نہیں بلکہ خونِ جگر سے لکھی گئی تھی۔ وہ سچ بولنے سے کبھی نہیں گھبرائے نہ ہی کسی مصلحت نے انھیں حق گوئی سے روکا۔

 جوش ملیح آبادی کے کلام میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ تاریخ کے مختلف ادوار سے لے کر اپنے معاصر حالات تک پرگہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں واقعہ کربلا اور حضرت امام حسینؑ کی قربانی کو بھی بڑے فکری اور انقلابی انداز میں بیان کیا گیا۔ جوش کے نزدیک امام حسینؑ محض ایک مذہبی شخصیت نہیں بلکہ حق اور سچائی کے استعارے تھے ایک ایسا انقلاب جس نے ہمیشہ کے لیے ظالم کے خلاف لڑنے کی جرات پیدا کردی۔ وہ لکھتے ہیں۔

کربلا اک فکر ہے، تاریخ کا آئینہ ہے

سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں

یہی جوش کا نظریہ تھا جو انھوں نے اپنی زندگی بھر اپنائے رکھا۔ وہ ظلم و جبرکے آگے جھکنے والے نہیں تھے چاہے وہ سماجی ناانصافیاں ہوں یا سیاسی جبر۔ ان کا یہ انقلابی انداز نہ صرف ان کے اشعار میں نظر آتا ہے بلکہ ان کی شخصیت میں بھی نمایاں تھا، وہ ہمیشہ استحصالی قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہے چاہے وہ انگریزوں کا استعمار ہو یا بعد میں آنے والی استبدادی قوتیں۔

جوش کی شاعری میں ایک اور پہلو جو نمایاں تھا، وہ ان کی وسیع المشربی اور انسان دوستی تھی۔ وہ فرقہ واریت اور تنگ نظری سے شدید نفرت کرتے تھے۔ ان کے نزدیک انسانیت سب سے بڑا مذہب تھا اور وہ انسان کو انسان کے مقام پر دیکھنا چاہتے تھے نہ کہ ذات پات فرقے یا مذہب کے دائروں میں قید۔ ان کے یہ اشعار آج بھی ہماری سماجی صورت حال پر ایک چبھتا ہوا طنز معلوم ہوتے ہیں

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

 یہی سوچ تھی جو انھیں ایک بڑے شاعر کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مفکر کے درجے پر فائز کرتی ہے۔ ان کا شعری سفر محض غزل و قصیدہ تک محدود نہیں تھا بلکہ انھوں نے نظم رباعیات اور طویل انقلابی نظموں میں بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ ان کے الفاظ میں جو شدت اور اثر تھا وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آیا۔

جوش ملیح آبادی کے سیاسی اور سماجی نظریات کی وجہ سے انھیں کئی بار مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے بے باک خیالات ہمیشہ سے اقتدار کے ایوانوں کے لیے خطرہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کئی بار جلاوطنی نظر بندی اور مختلف طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنی روش سے نہ ہٹے۔ وہ پاکستان آئے تو یہاں بھی ان کی شخصیت اور خیالات کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی مگر ان کے چاہنے والوں نے ہمیشہ انھیں ایک عظیم شاعر اور دانشور کے طور پر یاد رکھا۔

 ان کا تعلق ایک علمی اور خاندانی گھرانے سے تھا اور اسی وجہ سے انھیں تعلیم و تربیت کا بہترین ماحول ملا۔ وہ ابتدا ہی سے ذہین اور متجسس طبیعت کے مالک تھے۔ شاعری کا آغاز بھی کم عمری میں کردیا تھا اور پھر یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔ ان کی زبان دانی تاریخی شعور اور الفاظ کے چناؤ نے انھیں اس دورکے دوسرے شاعروں سے ممتازکردیا۔

 جوش نے نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعے قوم میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ نثر میں بھی ان کا کام غیر معمولی ہے۔ ان کی خود نوشت’’ یادوں کی برات‘‘ اردو ادب میں ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے جس میں انھوں نے اپنے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو نہایت بے باکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ادبی سرمایہ ہے بلکہ برصغیر کی تاریخ اور اس وقت کے سیاسی و سماجی حالات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم دستاویز بھی ہے۔

 ان کی شاعری میں الفاظ کی جو شعلہ بیانی تھی وہ آج بھی سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں کوگرما دیتی ہے۔ وہ ایک خطیب بھی تھے اور جب وہ اپنے اشعار ترنم کے ساتھ پڑھتے تو مجمع دم بخود رہ جاتا۔ ان کے اشعار محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تحریک تھے، ایک عزم ایک حوصلہ جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔

 ان کی شاعری میں محبت، انقلاب، احتجاج، آزادی، حق پرستی اور انسانی عظمت جیسے موضوعات نمایاں رہے۔ وہ کسی مخصوص طبقے کے شاعر نہیں تھے بلکہ ہر اس شخص کے شاعر تھے جو جبرکے خلاف تھا جو انسانی آزادی کا قائل تھا اور جو اپنی پہچان کو فرقہ واریت اور تعصب سے بالاتر سمجھتا تھا۔

 یہی وجہ ہے کہ جوش آج بھی زندہ ہیں۔ وہ صرف ماضی کے شاعر نہیں بلکہ مستقبل کی امید بھی ہیں۔ ان کی شاعری ان کے نظریات اور ان کا بے باک انداز آج بھی نوجوان نسل کو حوصلہ دیتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں حق کے لیے آواز بلند کریں اور کبھی کسی طاقت کے آگے نہ جھکیں۔

خون میں جوش ہے الفاظ میں تلواریں ہیں

ہم وہی لوگ ہیں جو وقت کی دھاریں ہیں

 یہی جوش ملیح آبادی تھے ایک بے باک شاعر ایک بیدار ذہن جو اپنی زندگی میں بھی چراغ کی طرح جلتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے آج بھی روشنی پھیلا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوش ملیح ا بادی ان کی شاعری میں نہیں بلکہ کے ساتھ کے خلاف میں بھی کے شاعر میں ایک تھا اور ا ج بھی اور ان بے باک

پڑھیں:

’’نوائے وقت‘‘ کے کالم نگار، سینئر صحافی، دانشور، شاعر اثر چوہان انتقال کر گئے

لاہور (نیوز رپورٹر) سینئر صحافی، دانشور، شاعر اور نوائے وقت کے کالم نگار اثر چوہان طویل علالت کے بعد گزشتہ شام قضائے الہیٰ سے انتقال کر گئے۔ مرحوم نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز سرگودھا میں نوائے وقت کے نامہ نگار کی حیثیت سے کیا تھا۔ بعد ازاں وہ لاہور منتقل ہو گئے اور اردو روزنامہ سیاست اور پھر ایک پنجابی جریدہ چانن نکالا۔ ان کی اہلیہ نجمہ اثر چوہان پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں پنجاب اسمبلی کی رکن اور پیپلز پارٹی شعبہ خواتین پنجاب کی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئیں۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد انہوں نے دوسری شادی کی تاہم ان کی دوسری اہلیہ بھی انہیں داغ مفارقت دے گئیں۔ جبکہ ان کے بیٹے اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ برطانیہ اور امریکہ میں مقیم ہیں۔ اثر چوہان بااصول اور بیباک صحافی جنہوں نے صحافت ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ مرحوم مجید نظامی کے ساتھ ان کی خصوصی انسیت تھی جنہوں نے انہیں شاعر نظریہ پاکستان کا لقب دیا تھا۔ انہوں نے 90ء کی دہائی میں ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم ’’سیاست نامہ‘‘ کا آغاز کیا اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کی عمر 86 برس تھی۔ وہ اپنی سوانح حیات مرتب کر رہے تھے تاہم فرشتہ اجل نے تکمیل کی مہلت نہیں دی۔ ان کی نماز جنازہ ان کے صاحبزادوں کی برطانیہ اور امریکہ سے پاکستان آمد پر ادا کی جائے گی۔ وہ گذشتہ تین سال سے 447 عمر بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں مقیم تھے اور علالت کے باعث ان کی نقل و حرکت گھر تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • ماہ رمضان: روح کے لیے ایک الہامی ریفریشر کورس
  • صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک کی مزاحمتی زندگی
  • لاہور، ممتاز صحافی، شاعر اور کالم نگار اثر چوہان انتقال کر گئے
  • صوفی شاعر رومی کے نام پر پشاور کا کیفے: ’یہاں آکر روح کو سکون ملتا ہے‘۔
  • ’’نوائے وقت‘‘ کے کالم نگار، سینئر صحافی، دانشور، شاعر اثر چوہان انتقال کر گئے
  • آبادی کنٹرول کرنے سے متعلق وی نیوز کی کوریج
  • امن کی تلاش، دنیا سعودی عرب پر کیوں بھروسہ کرتی ہے؟
  • ’’فلم انڈسٹری میں کامیابی کےلیے صرف محنت کافی نہیں!‘‘ تاپسی پنو کا تلخ انکشاف
  • تحرین نابینا کمزوری بننے نہیں ہیںاصل روشنی آنکھوں میں نہیں، بلکہ دل اور دماغ میں ہوتی ہے