ایک میثاق پاکستان کے لیے
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے تحریک انصاف کو سسٹم کے اندر رہنے اور بائیکاٹ سے گریز کا مشورہ دیا ہے یہ مشورہ انھوں نے عدالتی معلامات پر تحریک انصاف کی جانب سے بائیکاٹ کرنے پر دیا ہے ۔
کیا تحریک انصاف اس قیمتی مشورے پر عمل کر پائے گی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے حتیٰ کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے چیف جسٹس آف پاکستان کی دعوت پر ان سے ملاقات کی جہاں پر ان کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے آخری اجلاس میں شریک ہوتے تو عدلیہ میں کی جانے والی حالیہ تقرریاں کچھ مختلف ہو سکتی تھیں ۔ اس ملاقات کا بنیادی مقصدعدالتی نظام میں اصلاحات کا ایجنڈاتھا ۔ تحریک کی قیادت نے اپنے تحفظات چیف جسٹس کے گوش گزار کیے اور اپنے بانی رہنماء سمیت دیگر کارکنان کو درپیش مسائل سے بھی آگاہ کیا۔
گزشتہ فروری میں ہونے والے الیکشن کے بعد تحریک انصاف مسلسل میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہے ۔ گزشتہ انتخابات سے پہلے ہی نو مئی ہو چکا تھا اور بانی چیئرمین جیل میں تھے۔ بلاشبہ پی ٹی آئی نے اپنے بانی کے جیل میں ہوتے ہوئے بھی عام انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ تو یہ ہے انھوں نے تاریخی کامیابی حاصل کی لیکن ان کا مینڈیٹ تسلیم نہ کیا گیا ۔ پی ٹی آئی نے اس دوران احتجاج بھی کیا لیکن جلسے جلوس، دھرنوں اور اسلام آباد پر چڑھائیوں کے باوجود تحریک انصاف ابھی تک سیاسی محاذ پر کوئی خاص تو دور کی بات معمولی کامیابی بھی حاصل نہیں کر سکی ۔
البتہ ان کی یہ احتجاجی سیاست مزید بگاڑ کا باعث بن چکی ہے اور اس احتجاجی سیاست وہ اپنے کارکنوں کا مزید نقصان ضرور کر ابیٹھی ہے ۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا لیکن جیسے کہ پہلے عرض کیا تھا کہ اس کے بھی کوئی مثبت نتائج کی توقع نہیں تھی اور ہوا بھی یوں ہی اور یہ مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے تحریک انصاف کی جانب سے ہی ختم کر دیے گئے۔
سیاست میں مذاکرات کی ایک اہمیت ہوتی ہے اور سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل نکال لیتی ہیں یا ان مذاکرات سے اپنے لیے کوئی راہ نکال لیتی ہیں لیکن تحریک انصاف حکومت یا مقتدرہ سے اپنی سیاست کو جلا بخشنے کے لیے کوئی راستہ نہ نکال پائی بلکہ اپنی سیاست کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔
تحریک انصاف نے ملکی اور بین الاقوامی مختلف حلقوں میںاپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے بھی دیکھ لیا ہے لیکن کہیں سے بھی ان کو ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا بھی میسر نہیں آسکا۔بانی تحریک کی جانب سے خطوط کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے، تادم تحریر جن خطوط کا چرچا ہے، ان خطوط کے مخاطب کا تو کہنا ہے کہ ایسا کو ئی بھی خط ان کو نہیں ملا اور اگر مل بھی گیاتو وہ پڑھے بغیر ہی وزیر اعظم کو بھیج دیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی سیاست کا دارومدار احتجاجی سیاست پر ہے اور وہ اس احتجاجی طرز عمل کو اپنائے ہوئے ہیں جس میں ملک کے بااثر حلقے ہدف تنقید ہیں۔ بانی چیئر مین قید میں ہیں، اور ان کو وہ خبریں نہیں مل رہیں جن کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے وہ کوئی واضح حکمت عملی طے کر سکیں۔
ان کی معلومات کا مکمل دارومدار ان کے جماعتی عہدیداروں کی ملاقاتوں پر ہے، ان کی وساطت سے جو معلومات ان تک پہنچتی ہیں، اس کے مطابق وہ حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں ۔ تحریک انصاف کی سیاست میں ایک ہیجانی کیفیت ہے ، آئے روز وہ اپنے عہدیداروں میں ردو بدل کرتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے پاس مصدقہ معلومات نہیں ہیں جس کے وجہ سے ان کو فیصلوں میں دشواری درپیش ہے اور ان کی جماعت ابتری کی جانب گامزن ہے۔
سیاسی میدان میں موجود رہ کر ہی سیاسی لڑائی لڑی جا سکتی ہے اور اپنے لیے سیاسی میدان میں گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیںہے کہ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے کارکنوں پر سختیوں کے باوجود بھی ان کے کارکن ابھی تک ثابت قدم نظر آتے ہیںلیکن ان کواپنی جماعت کی مشکلات میں کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
اسی رائے عامہ کے بل بوتے پر تحریک انصاف تکیہ کیے ہوئے ہے گو کہ حکومتی ایوانوں کی جانب سے عوام الناس کو حکومتی کار گردگی سے متاثر کرنے کے لیے اور ان کی بہتری اور فلاح کے کئی منصوبوں کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے جس کا مطمع نظر عوامی رائے کو اپنی جانب متوجہ اور راغب کرنا ہے لیکن ابھی تک ان منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچ نہیں پائے ، مہنگائی اور بے روزگاری بدستور موجود ہے۔ امیر لوگ ملک سے نقل مکانی کر رہے ہیں ۔ کارخانے کا پہیہ جام ہے گو کہ حکومت کی جانب سے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں لیکن یہ کوششیں جب تک ثمر آور ہوں گی تب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا۔
اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف گرینڈ الائنس بنانے کی باتیں کی جارہی ہیں، اگر اپوزیشن کی یہ کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو سیاسی میدان میں مزید ابتری کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ، اپوزیشن اور ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز میں صلح جوئی کے لیے کوئی تعمیری کوششیں کی جائیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اپنی اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں تا کہ ملک کو آگے لے جانے کی کوئی سبیل پیدا کی جا سکے ۔
ہمارے وزیر اعظم نے ببانگ دہل یہ تو کہہ دیا ہے کہ وہ بھارت کو ہر میدان پیچھے چھوڑ دیں گے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ احتجاجی سیاست کے خاتمے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ ملکی ترقی کے لیے پر عزم وزیر اعظم کو اپنے سیاسی زعماء اور مقتدرہ کے ساتھ مل کر سیاسی افہام و تفہیم پر بھی توجہ دینی چاہیے تا کہ ان کا بھارت کو ترقی میں پیچھے چھوڑنے کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکے ۔
اس عمل کے لیے محترم چیف جسٹس صاحب نے جس صائب مشورے یا رائے کا اظہار کیا ہے ، اس پر عمل ہونا چاہیے ۔ موجودہ سیاسی افراتفری کا حل نکلنا چاہیے، اس کے لیے محب وطن اور پاکستان کے لیے درددل رکھنے والوں کو سامنے آنا چاہیے۔ خدارا ایک میثاق پاکستان کے لیے بھی کر لیں۔ ہماری آیندہ نسلیں آپ کی شکر گزار ہوں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کی جانب سے چیف جسٹس کہ حکومت ہے اور کے لیے
پڑھیں:
تحریک انصاف نے پانی کے مسئلے پر سندھ کی حمایت کردی
فائل فوٹو۔تحریک انصاف نے پانی کے مسئلے پر سندھ کی حمایت کر دی، محمود اچکزئی کی سربراہی میں تحریک تحفظ آئین پاکستان سلمان اکرم راجہ اور اسد قیصر نے قادر مگسی اور ایاز لطیف پلیجو سے ملاقات کی۔
اس موقع پر ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان کی سندھ کی جماعتوں سے اتحاد بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پانی سے بڑا کوئی حق نہیں، اب یہ حق بھی چھینا جا رہا ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ دریائے سندھ کے پانی کا رُخ موڑ کر سندھ کو حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نہ چاہے تو یہ حکومت دو دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔
قادر مگسی نے کہا کہ پانی سے متعلق ہمارا موقف مشترک ہے۔
ایاز لطیف پلیجو کا کہنا تھا کہ انھوں نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے وفد سے استدعا کی ہے کہ وہ سندھ کے پانی کے مسئلے پر اسٹینڈ لے۔ ماضی میں بھی ن لیگ نے سندھ کے لوگوں کو نظر انداز کیا اور اب بھی کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کا وفد دیگر جماعتوں سے بات چیت کے لیے سندھ کے دورے پر ہے، اور اس سے پہلے انھوں نے فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا سے بھی ملاقات کی۔