واشنگٹن ڈی سی — 

’’جب میں بیس بائیس سال قبل کراچی سے امریکہ کے نیو یارک ائیرپورٹ پر اتری تو مجھے پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ اس ملک میں قطار توڑنا کتنی بڑی غلطی ہے چاہے قطار کسی بزرگ خاتون یا سینئیر سٹیزن کی مدد کے لیے ہی کیوں نہ توڑی جائے۔‘‘

یہ کہانی ہے نیو یارک میں مقیم کراچی کے ایک موقر کالج کی پرنسپل ماہ جبیں کی جو امریکہ میں مستقل رہائش سے قبل پہلی بار امریکہ میں اپنے چھ سالہ بیٹے کے ساتھ اپنے رشتے داروں سے ملنے امریکہ آئی تھیں ۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جس جہاز سے امریکہ آرہی تھیں اس میں ان کی نشست کے ساتھ ایک خاصی معمر پاکستانی خاتون سفر کر رہی تھیں جنہیں انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ انہیں انگریزی نہیں آتی تو میں نیو یارک ائیر پورٹ پر سامان وغیرہ اتارنے اور ائیر پورٹ سے باہر نکلنے میں ان کی مدد کر دوں۔

ہم ، جنہیں اپنے تعلیم یافتہ ہونے پر فخر تھا اور دوسروں کی مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ، فورا حامی بھر لی کہ آپ فکر نہ کریں ہم آپ کی مدد کریں گے۔

ماہ جبیں کی ایک پرانی تصویر

جب میں نے ائیر پورٹ پر قطار توڑی

ہم نیو یارک ائیر پورٹ پر اترے ، اور کاغذی کارروائی کے لیے قطار میں لگ گئے۔ لیکن ہوا یوں کہ ان بزرگ خاتون کو ہماری لائن میں جگہ نہ مل سکی اور انہیں ہمارے ساتھ والی ایک اور قطار میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑا ہونا پڑا۔ انہوں نے بہت بے چارگی سے اشارہ کیا کہ ہم ان کی مدد کریں ۔ ہمیں یہ تو معلوم ہی تھا کہ امریکہ میں انسانیت کی بہت قدر ہے اور معمر شہریوں کا خاص طور پر معمر خواتین کا بہت خیال رکھا جاتا ہے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ اس سے بھی زیادہ خیال اس بات کا رکھا جاتا ہے کہ کوئی اپنی قطار نہ توڑے ۔

تو ہوا یوں ، ماہ جبین نے مسکراتے ہوئے اپنی کہانی جاری رکھی، ایک تعلیم یافتہ پاکستانی خاتون نے امریکی سرزمین پر امریکی اقدار کے بارے میں اپنی پہلی کم علمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور خدمت کے پاکستانی جذبے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی قطار بدلی اور اپنے سامان اور بیٹے سمیت ان معمر خاتون کی قطار میں ان کی مدد کے لئے جا کھڑی ہوئی ۔

بس پھر کیا تھا؟ ایسا کرنا تھا کہ ائیر پورٹ کے عملے کا ایک رکن میری طرف بڑھا اور مجھے میرے سامان سمیت الگ کھڑا کر دیا اور پوچھا کہ تم نے قطار کیوں توڑی؟ میں ںے لاکھ سمجھایا کہ ہم نے ایک خاتون کی مدد کےلیے ایسا کیا تھا لیکن اس نے ایک نہ سنی اور مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک ویٹنگ روم میں بٹھایا اور میرے سامان کی تلاشی شروع کر دی ۔ اس نے میرے پرس میں سے الائچی تک کو سونگھ کر دیکھا ۔

ماہ جبیں کی ایک پرانی کی تصویر

میرے ہوش اڑے ہوئے تھے اور ارد گرد کے لوگوں کی خود پر مبذول شک بھری نگاہوں سے اپنے بے عزتی کا شدید احساس الگ تنگ کر رہا تھا ۔ خدا خدا کر کے ہمار ی تلاشی ختم ہوئی اور ہم اطمعنان اور سکون کا سانس لے کر ائیر پورٹ سے باہر آئے جہاں امریکہ میں مقیم ہمارے بہت سے رشتے داروں میں سے ایک عزیز ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

امریکہ کی ہوا کی تازگی پہلا خوشگوار احساس

ائیر پورٹ سے کار تک جاتے ہوئے جو پہلی چیز ہمیں کراچی سے بہت زیادہ مختلف محسوس ہوئی وہ تھی ایسی خوشگوار اور صاف ستھری ہوا جو شایداپنے بچپن کے بعد ،جب کراچی کی ہوا آلودہ نہیں ہوا کرتی تھی ، پہلی بار ہمارے وجود کو ایک خوشگوار تازگی کا احساس دلا رہی تھی ۔

لیکن تازگی کے اس خوشگوار احساس کےساتھ حیرانی کے ایک جذبے نےاس وقت جنم لیا جب ہم اپنے عزیز کی پرانی سی کار میں بیٹھے، جو کراچی میں رہتے ہوئے بہترین کار کے مالک تھے ۔

امریکہ واقعی ترقی یافتہ ملک ہے: دوسرا احساس

لیکن اس سوال پر زیادہ دیر غور کا وقت نہ ملا کیوں کہ ہمیں وہاں کی صاف ستھری ، چوڑی سڑکوں اور اونچی اونچی عمارتوں ، سڑکوں کے اطراف میں ہرے بھرے درختوں اور خوبصورت مسحو ر کن سر سبز مناظر نے اپنی جانب کھینچ لیا تھا جنہیں دیکھ کر ہمیں یقین آگیا کہ امریکہ واقعی ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کے بارے میں جو کچھ سنا اور فلموں میں دیکھا تھا اس کو حقیقت میں دیکھ کر عجیب سی خوشی اور مسرت کے احساس کے ساتھ اس ملک میں جانے کا موقع ملنے پر فخر کا احساس بھی ہوا۔

پاکستانی امریکہ آکر چھوٹے گھر میں بھی خوشی خوشی کیوں رہتے ہیں؟ پہلا معقول سوال

لیکن یہ احساس اس وقت ایک عجیب سی حیرت میں بدل گیا جب ہم اپنے اس عزیز کے گھر پہنچے۔جی ہاں ہم حیران رہ گئے کہ وہ جو کراچی کے ایک پوش علاقے میں عالیشان بنگلے میں رہتے تھے یہاں صرف دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گھر میں پوری فیملی کے ساتھ مقیم تھے۔

ہم کبھی ان کو کبھی ان کے گھر کو دیکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے چہروں پر خوشی کی وہ چمک بھی دیکھ رہے تھے جو صرف ہماری آمد کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس سکون کی عکاسی بھی کر رہی تھی جو انہیں دو کمروں کے اس گھر میں حاصل تھا۔




معقول سوال کامعقول جواب

اور ہمیں ان کے سکون واطمعنان کی وجہ جلد ہی سمجھ میں آگئی جب انہوں نے ہمارے تجسس کو بھانپتے ہوئے کہا کہ ہمارا گھر کراچی کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے لیکن ہم یہاں بہت خوش ہیں ، کیوں کہ یہاں کبھی بجلی نہیں جاتی ، کبھی پانی کے بغیر نہیں رہنا پڑتا ، کبھی کھانا پکانے کے لیے سوئی گیس کا مسئلہ نہیں ہوتا ۔ کبھی ان کے بلوں کی ادائیگی کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں انتظار نہیں کرنا پڑتا، یہاں گھر کا کچرا گھر کے سامنے نہیں پڑا رہتا ۔

انہوں نے کہا برتن دھونے کے لیےڈش واشر ہے ، کھانے پینے کی ہر چیز ملاوٹ سے پاک اور بالکل خالص ہے ، بہترین طبی سہولیات حاصل ہیں اور ہم ان تمام پریشانیوں سے آزاد خوش باش زندگی گزار رہے ہیں جو ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے گھیرے رہتی تھیں۔

اور یوں انہوں نے ہمارے ذہن میں اٹھنے والے اس معقول سوال کا جواب دے دیا کہ آخر پاکستان کے بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والے دولتمند لوگ امریکہ میں دو کمروں کے گھر میں رہ کر بھی کیوں یہاں اپنی پوری زندگی خوشی خوشی گزارتے ہیں ۔




پاکستانی امریکہوں کی شاندار زندگیاں

لیکن فورا ہی دو اور سوال ذہن میں کلبلائے۔ کیا امریکہ میں سبھی پاکستانی اتنے ہی چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں؟ اور اگر ہم نے یہاں مستقل رہائش اختیار کی تو کیا ہمیں بھی کسی چھوٹے سےگھر میں ساری عمر گزارنی پڑے گی؟

لیکن اگلی صبح ہمیں ہمارے سوال کا جواب مل گیا جب ہم اپنے ایک اور رشتے دار کے گھر پہنچے جو ایک بڑے سےشاندار اور بہترین انداز سے سجے ایک گھر میں مقیم تھے اور ہمارا یہ خدشہ دور ہو گیا کہ امریکہ میں سارے پاکستانی چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور یہ کہ ہم یہاں کراچی جیسی اپنی رہائش گاہ کی امید رکھ سکتے ہیں۔

ماہ جبیں نے بتایا کہ اس سفرکے بعد وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ مستقل طور پرا مریکہ شفٹ ہوگئیں اور ان کے دونوں بچے اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہترین ملازمتوں کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہے ہیں ۔

ماہ جبیں اپنے شوہرشہر یار جلیس ، بیٹی بیٹے اور ایک فیملی فرینڈ کے ساتھ

کیا دنیا کا ہر ملک امریکہ جیسابن سکتا ہے؟ آج کا سوال

روز مرہ کی امریکی زندگی پرروشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا یہ درست ہے کہ ہم گھر کے سبھی کام کاج خود ہی کرتے ہیں لیکن اگر ہم چاہیں تو اپنے بجٹ کے اندر رہتے ہوئے جز وقتی یا کل وقتی گھریلو ملازم بھی رکھ سکتے ہیں۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ ہم گھر والے ہی اصل میں ایک دوسرے کےملازم ہوتے ہیں اور گھر کے کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیس بائیس سال کے بعد میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر امریکہ کی کچھ انتہائی شانداراقدار پاکستان میں تو کیا کسی بھی ملک میں نافذ ہو جائیں تو نہ صرف امریکہ میں تارکین وطن کا موجودہ مسئلہ ختم ہو جائے بلکہ پاکستان جیسے ملکوں سے کوئی بھی اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر امریکہ کا سفر نہ کرے، اور دنیا کا ہر ملک امریکہ بن جائے۔

مگر یہ سب کیسے اور کب ممکن ہو سکتا ہے ؟ یہ ہیں وہ معقول سوال جو آج بیس بائیس سال بعد میرے ذہن میں ان معقول سوالوں کی طرح کلبلارہے ہیں جو امریکہ آمد کے پہلے دن میرے ذہن میں جاگے تھے ۔ وہ دن جسے آج بھی جب میں یاد کرتی ہوں تو مسکراہٹ میرےلبوں پر بکھر جاتی ہے۔

ماہ جبیں کی ایک حالیہ تصویر

انہوں نے اپنی کہانی سمیٹتے ہوئے کہا ، لیکن امریکہ میں پہلے دن میں نے جو سبق سیکھا تھا اس کے بعد میں نے آج تک کبھی اپنی قطار نہیں توڑی ، کبھی راستے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی نہیں پھینکا، لیکن راہ چلتے یا کسی پارکنگ لاٹ میں سو سال تک کی عمر کی معمرخواتین کو اپنا سامان اپنی کار میں رکھتے دیکھ کر بھی ان کو مدد کی پیش کش نہیں کی ۔

جانتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہاں کوئی بھی امریکی عام طور پر کسی کی مدد لینا پسند نہیں کرتا کیوں کہ وہ کسی کا احسان لیے بغیر ایک پروقار زندگی گزارنے کو انسانیت کی معراج سمجھتا ہے۔ اور یہی کسی زندہ قوم کی اصل معراج ہے ۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا ماہ جبیں کی امریکہ میں معقول سوال ائیر پورٹ کی مدد کے میں رہتے پہلی بار نیو یارک گھر میں پورٹ پر کے گھر کے بعد اور ہم کے لیے بھی ان

پڑھیں:

کراچی، کلفٹن سے اسٹیٹ ایجنٹ کی لاش برآمد

ابتدائی تفتیش سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ لاش گاڑی میں لا کر جھاڑیوں میں رکھ دی گئی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد کے علاقے کلفٹن بلاک 2 سے ایک شخص کی لاش ملی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق 40 سال کا متوفی کل رات سے غائب تھا اور اسٹیٹ ایجنسی کا کام کرتا تھا۔ پولیس کے مطابق موبائل، بٹوا اور گھڑی سب لاش کے ساتھ موجود تھے، جبکہ تشدد کے کوئی نشانات بھی نہیں ملے۔ ابتدائی تفتیش سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ لاش گاڑی میں لا کر جھاڑیوں میں رکھ دی گئی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی موت کی اصل وجہ معلوم ہو سکے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی ٹیم کا چیمپئنز ٹرافی کا مختصر سفر، لیکن کیوں؟
  • شہری کو مُکّا کیوں مارا ؟ برطانوی رکن اسمبلی کو جیل بھیج دیا گیا
  • ’پاکستان ٹیم میں 6 سے 8 کھلاڑیوں کا ٹولہ گروپنگ کرتا ہے‘
  • انسان اپنی تخلیق کے برعکس کیوں؟
  • کراچی، کلفٹن سے اسٹیٹ ایجنٹ کی لاش برآمد
  • خاتون نے بستر پرخیمہ کیوں لگایا؟وجہ جان کرآپ دنگ رہ جائیں گے
  • پاک بھارت میچ؛ اوپن کون کرے گا، ٹیم میں کتنی تبدیلیاں ہوں گی؟
  • پاک بھارت میچ؛ گرین شرٹس کا کچھ نہیں معلوم کب کیا کردیں
  • پاکستان انڈیا میچ: دلی لاہور سے دور کیوں ہوگیا؟