غیر قانونی دراندازوں کو بھارت سے جلد واپس بھیجا جائیگا، سپریم کورٹ آف انڈیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
عدالت نے اپنی سابقہ ہدایات کی تعمیل کو یقینی بنانے کیلئے بھارتی حکومت سے جواب طلب کیا ہے، سماعت کے دوران عدالت نے 21 مارچ کی ڈیڈ لائن مقرر کرتے ہوئے کہا کہ مزید وقت نہیں دیا جائیگا۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے آسام کے ٹرانزٹ کیمپوں میں زیر حراست 270 غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر منگل کو سخت موقف اختیار کیا۔ عدالت نے اپنی سابقہ ہدایات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لئے بھارتی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے 21 مارچ کی ڈیڈ لائن مقرر کرتے ہوئے کہا کہ مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اس معاملے پر بات چیت جاری ہے اور اضافی وقت درکار ہے۔ جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجول بھویان کی بنچ نے سالیسٹر جنرل کی اپیل پر سماعت ملتوی کر دی۔
اس سے قبل بنچ نے کہا تھا کہ غیر ملکیوں کی ملک بدری کا معاملہ اعلیٰ سطح پر نمٹا جا رہا ہے اور اگر ممکن ہو تو حکومت کو اس سلسلے میں سرکاری فیصلہ ریکارڈ پر رکھنا چاہیئے۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل بھی آسام حکومت کی سرزنش کی تھی کہ وہ غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے بجائے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھے۔ عدالت نے حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ان لوگوں کو واپس بھیجنے کے لئے کسی اچھے وقت کا انتظار کر رہی ہے۔ بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ آسام حکومت حقائق کو چھپا رہی ہے اور حراست میں لئے گئے افراد کو غیر ملکی ہونے کی تصدیق کے فوراً بعد ملک بدر کر دیا جانا چاہیئے۔
عدالت نے آسام حکومت کی اس وضاحت پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ وہ وزارت خارجہ کو قومیت کی تصدیق کا فارم نہیں بھیج رہی ہے کیونکہ بیرون ملک نظربندوں کے پتے معلوم نہیں تھے۔ اس پر عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ملک بدری کا عمل شروع کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ان کے پتے معلوم نہیں ہیں۔ یہ ہماری فکر کیوں ہونی چاہیئے، آپ انہیں ان کے ملک واپس بھیج دیں، کیا آپ کسی اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو اب تک ملک بدر کئے گئے لوگوں کی تفصیلات فراہم کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ اس کے ساتھ عدالت نے یہ بھی واضح کرنے کو کہا ہے کہ حکومت ایسے قیدیوں کے ساتھ کیسے نمٹے گی جن کی قومیت معلوم نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عدالت نے ملک بدر کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
غیر قانونی اراضی ریفرنس میں ملک ریاض اور علی ریاض کے وارنٹ گرفتاری جاری
کراچی(نیوز ڈیسک)احتساب عدالت کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی اراضی ریفرنس میں ملزم ملک ریاض، علی ریاض اور زین ملک سمیت 10 ملزمان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔احتساب عدالت کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی اراضی کے ریفرنس کی سماعت ہوئی ملزم ملک ریاض، علی ریاض اور زین ملک سمیت 10 ملزمان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے۔احتساب عدالت نے سماعت پندرہ اپریل تک ملتوی کردی۔تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ دو ملزموں نے سندھ ہائیکورٹ سے حکم امتناعی حاصل کررکھا ہے، 10 ملزموں کو عدالتی سمن کی تعمیل نہیں ہوئی۔ ملک ریاض راولپنڈی کے دو ریفرنس میں مفرور ہے۔
محموداخترنقوی نے کہا کہ میں اس کیس کامدعی ہوں مجھے نقول فراہم کی جائیں، احتساب عدالت نے ملزموں کو نقول فراہم کرنےکاحکم دے دیا، احتساب عدالت نےسماعت 15اپریل تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے ملک ریاض کے مزید اثاثوں کو ضبط کرنے کیلئے قانونی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ترجمان نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، راولپنڈی اور نیو مری میں اراضی پر بغیر این اوسی قبضہ کیا گیا ہے اور ملک ریاض نے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے جبکہ نیب ملک ریاض کے مزید اثاثوں کو ضبط کرنے کیلئے قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہے اور وہ اس وقت عدالتی مفرور کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں۔
ترجمان نیب کا کہنا تھا کہ ملک ریاض اور دیگر افراد کیخلاف دھوکا دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں، ملک ریاض نے پشاور اور جام شورو میں بھی زمینوں پر قبضے کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کیں اور اب بھی لوگوں سے دھوکا دہی کے ذریعے بھاری رقوم وصول کی جا رہی ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض این سی اے کے مقدمے میں عدالتی مفرور اور عدالت اور نیب کو مطلوب ہے۔ترجمان نے کہا کہ نیب بحریہ ٹاؤن کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے پہلے ہی ضبط کرچکا ہے اور اب ملک ریاض کے مزید اثاثوں کو ضبط کرنے کیلئے بھی قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔
ترجمان نیب کے مطابق ملک ریاض نے حال ہی میں دبئی میں بھی لگژری اپارٹمنٹ کا نیا منصوبہ شروع کیا ہے اور عوام مذکورہ پراجیکٹ میں سرمایہ کاری سے خود کو دور رکھیں کیونکہ ایسا فعل منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئے گا۔ترجمان نے مزید کہا کہ پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور حکومت بھی اس معاملے پر دبئی حکومت سے رابطہ کر کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
تاریخ کی سب سے بڑی ڈیجیٹل چوری: ہیکرز 420 ارب روپے لے اڑے