Daily Ausaf:
2025-02-25@14:31:16 GMT

ایران،حزب اللہ اورامریکی پالیسی

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
تاہم حزب اللہ کے خلاف کارروائی خطرات سے بھرپور ہوگی۔حزب اللہ کی عسکری طاقت کی وجہ سے یہ گروہ تشددکی ڈھکی چھپی دھمکی استعمال کرتاتھاکہ اگرانہیں دیوارسے لگانے کی کوشش کی گئی تووہ بہت سخت جواب دیں گے‘‘۔ایک مغربی سفارت کارنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ’’ہم لبنان کی اپوزیشن اوردیگرممالک میں لوگوں کوبتارہے ہیں کہ حزب اللہ کودیوار سے لگانے کی کوشش کاالٹااثرہوسکتاہے اور تشدد کا خطرہ ممکن ہے‘‘۔تاہم لبنان میں ایک نیاباب لکھا جارہاہے جہاں کرپشن اورحکومتی مسائل سمیت تشددکی نہ ختم ہونے والی لہرسے لوگ تھک چکے ہیں۔
یہ مسائل کاایساانبارہے جس کی وجہ سے ریاست غیرفعال ہوچکی ہے۔پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں نئے صدرنے اصلاحات لانے کا وعدہ کیا جن کے بغیرملک کوبچانامشکل ہوگا۔ انہوں نے حکومتی اداروں کی تعمیر نو،معیشت کی بحالی اورفوج کوملک کی واحدمسلح طاقت بنانے کاوعدہ بھی کیا۔ انہوں نے حزب اللہ کانام تونہیں لیالیکن ان کااشارہ اسی کی جانب تھا۔پارلیمان میں تالیوں کی گونج کے بیچ حزب اللہ کے اراکین خاموش بیٹھے رہے۔
حزب اللہ کے مستقبل کاانحصارلبنان کے داخلی حالات،ایران کی پالیسی،اوراسرائیل کی عسکری حکمت عملی پرہوگا۔اگرلبنان میں اقتصادی بحران بڑھتاہے توحزب اللہ کی عوامی حمایت میں کمی آسکتی ہے لیکن اگراسرائیل دباؤبڑھاتاہے توتنظیم اپنی عسکری سرگرمیوں میں شدت لاسکتی ہے، جس سے خطے میں مزیدعدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے لیکن حزب اللہ کی عسکری طاقت کے مستقبل کا فیصلہ شاید لبنان سے بہت دورایران کے دارالحکومت میں ہوگاجہاں سے دہائیوں تک اسلحے اورپیسے کی مددسے مزاحمت کے محورنامی علاقائی اتحادکی پرورش کی گئی اور اسرائیل کاآتشیں گھیراؤقائم کیا گیا۔ اس اتحاد کا ایک اہم کھلاڑی حزب اللہ ہے جس کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کاانبار موجود ہے۔اس گروہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے خلاف ایک طاقت کے طورپرکام کیاہے لیکن وہ طاقت اب بکھرچکی ہے اوراگرایران چاہے بھی تواس طاقت کو بحال کرنا آسان نہ ہوگا۔
شام میں بشارالاسدکی حکومت کے گر جانے کے بعد،جس کی ایک وجہ حزب اللہ کوپہنچنے والی چوٹ بھی تھی،تہران کاوہ زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے جس سے حزب اللہ تک اسلحہ اورپیسہ پہنچایا جاتا تھا۔اسرائیل،جس نے حزب اللہ کے خلاف وسیع پیمانے پر خفیہ اطلاعات اکٹھی کی ہیں،کے مطابق وہ حزب اللہ کونشانہ بناتارہے گاتاکہ یہ دوبارہ پہلے جیسی طاقت حاصل نہ کرسکے۔تاہم بلین فورڈکے مطابق ’’حزب اللہ کے بارے میں بنیادی سوالوں کے جواب ایران ہی دے سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایران یاحزب اللہ کچھ مختلف سوچیں، غیر مسلح ہونے کے بارے میں اورصرف ایک سیاسی اورسماجی تحریک کی شکل میں برقرار رہیں۔لیکن یہ حزب اللہ کانہیں،ایران کافیصلہ ہوگا‘‘۔
حزب اللہ کے اندرونی معاملات سے واقفیت رکھنے والے ذرائع سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا ایساممکن ہوسکتاہے توبتایاگیاکہ’’یہ ایک بڑے علاقائی حل کاحصہ ضرورہوسکتاہے۔ یہ بظاہر ایک اشارہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پرمغرب سے معاہدہ کرنے کاخواہش مند ہے۔ ذرائع کے مطابق ’’اسلحہ مکمل طورپر چھوڑنے اورریاست کے اندرضابطوںمیں رہتے ہوئے ان کے استعمال میں فرق ہے اورایسابھی ممکن ہے‘‘۔
خطے کے سیاسی تجزیہ نگاروں کامانناہے کہ ایران ممکنہ طورپرحزب اللہ کوایک ’’پریشر پوائنٹ‘‘ کے طورپراستعمال کررہاہے تاکہ امریکا اور مغرب کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں بہترشرائط حاصل کرسکے۔ جب بھی ایران محسوس کرتاہے کہ اس پربین الاقوامی دباؤ بڑھ رہاہے یامعاہدے کی شرائط اس کے مفادات کے خلاف ہیں،تووہ حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرتا ہے اس طرح،ایران حزب اللہ کو ایک غیررسمی سفارتی ہتھیارکے طورپراستعمال کرتارہاہے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھاکر مغرب کومذاکرات کی میزپرلانے کی کوششوں میں کامیاب رہالیکن اب سوال یہ ہے کہ خطے میں جنگ بندی کے بعدکیا ایران جواب زمینی رابطے سے بھی محروم ہوچکا ہے، کیاحزب اللہ کوایک مؤثر ہتھیار کے طورپراستعمال کرنے کی استطاعت رکھتا ہے جبکہ لبنان میں بھی کئی اہم تبدیلیوں رونماہوچکی ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ نے اپنامنصب سنبھالتے ہی اپنے جارحانہ بیانات سے امریکاکے نئے چہرے سے متعارف کروایاہے اورایران کے بارے میں بیانات کی تلخی سے معلوم ہوتاہے کہ امریکا کبھی بھی اپنی دھمکیوں کوعملی جامہ پہنانے کیلئے’’آئندہ امریکا کوئی نئی جنگ شروع نہیں کرے گااورجاری جنگوں سے امریکاکوباہرنکالے گا‘‘ جیسے اپنے تمام انتخابی وعدوں سے یکسرمنحرف ہوکراپنے مقاصد کیلئے نئی جنگوں کاآغازکرسکتاہے لیکن ٹرمپ کے سابقہ کردارسے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے دھمکیوں کی آڑمیں افغانستان میں مقاصدکے حصول کیلئے پہلے بھی یہ کرداراداکیالیکن بعدازاں اس کا رسوا کن انجام بھی دنیانے دیکھالیکن لگتایہ ہے کہ یہاں معاملات کوایک اوراندازمیں استعمال کیاجاسکتاہے کہ خطے میں دیگر امیرعرب ریاستوں پردباجاری رکھنے کیلئے خطے میں ایران کے خطرے کے نام پراپنے مقاصدکے حصول کی تکمیل کی جاسکے اوریہ بھی عین ممکن ہے کہ ایران کوحزب اللہ کی عسکری امداد سے الگ کرکے مجوزہ ایرانی ایٹمی پروگرام پرکوئی ایسا معاہدہ کرلیا جائے۔ تاہم، موجودہ حالات میں ایران کیلئے حزب اللہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کاحصہ ہے،جسے وہ خطے میں اپنی موجودگی اوراثرورسوخ برقراررکھنے کیلئے استعمال کرتارہے گا۔
لیکن دوسری طرف لبنان کے نئے رہنمائوں پرجلدازجلدکچھ کرنے کادباؤبڑھ رہا ہے۔ بیرونی اتحادی مشرق وسطی میں طاقت کی نئی بساط کوایک موقع کے طورپردیکھ رہے ہیں جس میں ایران کومزیدکمزورکیاجاسکتاہے جبکہ لبنان میں استحکام کیلئے لوگ پریشان ہیں۔لوگ اب اس بات کو پسندنہیں کرتے جب یہ کہاجاتاہے کہ تباہی کے باوجودانہوں نے زندگی کورواں دواں رکھا ہواہے۔ حزب اللہ کی پسپائی کے بعدبیروت کے مسیحی علاقے میں بسنے والے رہائشی بھی اس خواہش کا اظہارکررہے ہیں’’ہم ایک ایسے عام سے ملک میں رہنا چاہتے ہیں جہاں جنگ کا دور دورتک نام ونشان نہ ہو،ہم کئی دہائیوں سے جنگ کی ہولناکیوں سے نجات چاہتے ہیں‘‘۔شایداتنی مشکل دیکھنے کے بعدحزب اللہ کے حامی بھی اب یہ سوال اٹھائیں کہ اس گروہ کامستقبل میں کیا کردار ہونا چاہیے۔حزب اللہ شایدجنگ سے پہلے والی تنظیم کبھی نہ بن پائے ۔ اسے غیرمسلح کرنااب ماضی کی طرح ایک ایسامعاملہ نہیں جس کے بارے میں سوچنابھی محال ہواکرتاتھا۔
ادھردوسری طرف ٹرمپ کی پالیسیز ہمیشہ اسرائیل نوازرہی ہیں،جس کاواضح مظاہرہ ’’صدی کی ڈیل ‘‘میں دیکھاگیا۔ٹرمپ اب پھر قصر سفیدمیں فرعونی طاقت کے نشہ میں براجمان ہوکر ہر روز اپنے بیانات سے دنیابھرمیں تہلکہ پیدا کر رہے ہیں،ان کی پالیسیوں کااثراب ایک مرتبہ پھر امریکی خارجہ پالیسی میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غزہ پرتسلط کاکوئی بھی منصوبہ فلسطینی عوام اور حماس کی سخت مزاحمت کاسامناکرے گا۔
ٹرمپ کے منصوبے کوخطے کے بیشتر ممالک، حتی کہ امریکاکے روایتی اتحادیوں جیسے اردن اور مصرنے بھی مستردکیاہے۔اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے بھی فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کی ہے۔عرب دنیامیں عوامی سطح پرفلسطینی کاز کیلئے ہمدردی موجودہے،جوکسی بھی امریکی یا اسرائیلی جارحیت کے خلاف ردعمل کاسبب بن سکتی ہے۔اگرامریکااوراسرائیل غزہ پرمزیددباؤ ڈالتے ہیں تواس کانتیجہ خطے میں بڑے پیمانے پرتشددکی صورت میں نکل سکتاہے۔حزب اللہ جیسے گروہ،جو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کاعزم رکھتے ہیں، مزید فعال ہوسکتے ہیں،جس سے اسرائیل کی شمالی سرحدپرکشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ حزب اللہ کی سرگرمیوں اورایران-امریکاتعلقات کے درمیان گہرا تعلق ہے،جومشرقِ وسطی کی مستقبل کی سیاست پراثراندازہوگا۔حزب اللہ کی طاقت کو محدودکرنے کی اسرائیلی کوششوں اورامریکی پالیسیوں کے تحت غزہ پردباکے نتیجے میں خطہ مزیدعدم استحکام کاشکارہوسکتاہے۔عالمی برادری کی جانب سے ان پالیسیوں کی مخالفت ظاہرکرتی ہے کہ مشرقِ وسطی میں امن کیلئے یکطرفہ اقدامات کارگرثابت نہیں ہوں گے،بلکہ ایک جامع اور متوازن سفارتی حل ہی دیرپاامن کی بنیادرکھ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حزب اللہ کی کے بارے میں حزب اللہ کے حزب اللہ کو ہے کہ ایران کی عسکری ممکن ہے ہے لیکن کے خلاف ہیں جس

پڑھیں:

جرمن انتخابات: انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) جرمنی کے مشرقی حصے میں بہت سے جرمن شہری یوکرین کی حمایت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور روس کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ یہی چیز سیکسنی، تھورنگیا اور برانڈن برگ میں انتخابات سے پہلے انتخابی مہم میں بھی حاوی نظر آئی۔

خارجہ پالیسی: ایک طویل عرصے تک، یہ ایک ایسا مسئلہ سمجھا جاتا تھا جس پر غور و خوض جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہوتا تھا۔

کیونکہ ملک کی سلامتی اور خارجہ پالیسی جیسے معاملات کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے بارے میں بحث بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان کی انتخابی مہموں میں حاوی رہی۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ تین جرمن ریاستوں کے سربراہاں حکومت اب یوکرین میں جنگ کے بارے میں اور روس کے صدر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی یا جنگ کے خاتمے کے امکان کے بارے میں زورو شور شے بات کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت تین مشرقی ریاستوں میں ایک اہم موضوع

وجہ: جرمن ریاستوں تھورنگیا، سیکسنی اور برانڈنبرگ میں ریاستی پارلیمانی انتخابات وفاقی انتخابات کے چند ہفتوں بعد ہی ہونا ہیں۔ اسی لیے ان تین مشرقی جرمن ریاستوں میں، یوکرین میں روسی جارحیت کی جنگ اور کییف کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی کا معاملہ ایک اہم سوال بن گیا ہے، یا شاید اس وقت کا سب سے اہم سوال۔

اور یہ سوال بھی کہ کیا بنڈس ویئر یعنی جرمن فوج کو اپ گریڈ کیا جانا چاہیے اور نئے امریکی ہتھیاروں کی تنصیب ہونی چاہیے؟ ان تمام سوالات پر جرمنی کے مشرقی حصے پر تذبذب اور بڑے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح ریاستی سیاست دان ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ جنگ یا امن کے سوال پر ووٹ؟

نئی وجود میں آنے والی جماعت ''بنڈنس سارہ واگن کنیشٹ‘ (بی ایس ڈبلیو) کی سربراہ سارہ واگن کنیشٹ نے اس سلسلے میں سب سے سے زیادہ شہرت حاصل کی۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی سابق سیاست دان کی اس نئی پارٹی کو، جس کی بنیاد اسی سال کے آغاز میں رکھی گئی، انتخابات سے دو ہفتے قبل ریاست تھورنگیا میں تقریبا 20 فیصد ووٹ حاصل تھے۔ لہٰذا توقع ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل میں اس جماعت کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔ واگن کنیشٹ نے حال ہی میں متعدد موقع پر کہا تھا کہ بی ایس ڈبلیو صرف اسی صورت میں ریاستی حکومت کا حصہ بنے گی جب نئی حکومت 2026 سے جرمنی میں نئے امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی کے منصوبوں کو واضح طور پر مسترد کرے۔

حالانکہ اس کا فیصلہ تھورنگیا کے ریاستی دارالحکومت ایئرفورٹ میں نہیں ہونا۔ روس کی جارحانہ پالیسی کے پیش نظر یہ ہتھیار 2026 سے جرمنی میں نصب کیے جانا ہیں۔ ڈوئچ لینڈ فنک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واگن کنیشٹ نے اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے نشاندہی کی: ''مشرقی حصے میں ہونے والے انتخابات جنگ اور امن کے سوال پر بھی ووٹنگ ہیں۔‘‘ دوسرے لفظوں میں، جو کوئی بھی جنگ کے شکار ملک یوکرین کی حمایت کرتا ہے، وہ جنگ کے حق میں ہے۔

واگن کنیشٹ نے کہا کہ ان کے ووٹرز توقع کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں کہ خود جرمنی میں جنگ کا خطرہ نہ بڑھے۔ چین اور بھارت کو پوٹن پر اثر انداز ہونا چاہیے، کریشمر

سیکسنی اور برانڈنبرگ کے وزرائے اعلیٰ، مائیکل کریشمر (سی ڈی یو) اور ڈیٹمر ووئیڈکے (ایس پی ڈی) نے بھی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے بیانات سے توجہ حاصل کی۔

مثال کے طور پر کریشمر نے وفاقی بجٹ کے پیش نظر یوکرین کو اسلحے کی امداد میں کمی کا مطالبہ کیا اور یوکرین تنازعے میں سفارتی اقدامات کو فروغ دینے کی بات کی۔ انہوں نے جرمنی کے ایڈیٹوریل نیٹ ورک آر این ڈی کو بتایا: ''میں ایک بار پھر سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر ہمیں چین اور بھارت کے ساتھ ایسے اتحاد کی ضرورت ہے جو پوٹن کو جنگ بندی کے لیے تیار کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکیں۔

ووئیڈکے نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا۔ سروے میں یوکرین کی حمایت کے بارے میں سخت شکوک و شبہات

ریاستی سیاست دانوں کی طرف سے خارجہ پالیسی کے بارے میں اظہار رائے کی وجہ عوام میں، ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی وفاقی اتحادی حکومت کی طرف سے یوکرین کے بارے میں پالیسی سے جڑے شکوک و شبہات ہیں، خاص طور پر، مشرقی جرمن ریاستوں میں۔

2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے، جرمنی نے انسانی بنیادوں پر امداد، ہتھیاروں اور براہ راست نقد ادائیگیوں کے زریعے، تقریباﹰ 23 بلین یورو کے ساتھ یوکرین کی مدد کی۔ یوں جرمنی امریکہ کے بعد یوکرین کی مدد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ رائے عامہ پر تحقیق کرنے والے ادارے فورسا کے مطابق مشرقی جرمنی میں 34 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ جرمنی یوکرین کی حمایت کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔

جبکہ 32 فیصد ٹینکوں جیسے بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کے حق میں ہیں۔ اے ایف ڈی اور بی ایس ڈبلیو، حکومت کی یوکرین پالیسی کے خلاف

اگرچہ وفاقی سطح پر سی ڈی یو اور سی ایس یو کی قدامت پسند اپوزیشن بڑی حد تک یوکرین کے حوالے سے حکومت کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے، لیکن دو جماعتیں ہیں جو یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کو مسترد کرتی ہیں اور روس کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرتی ہیں، ان میں حال ہی میں خاص طور پر مشرقی ریاستوں میں قوت پکڑنے والی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند 'متبادل برائے جرمنی‘ یعنی اے ایف ڈی اور سارہ واگن کنیشٹ الائنس۔

برلن کی حکمراں جماعت دی گرینز کے وفاقی چیئرمین اومید نوری پور خاص طور پر ان دونوں جماعتوں کے اس مطالبے سے ناراض ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے رابطہ کیا جائے اور انہیں امن مذاکرات کی پیش کش کی جائے۔ کریشمر کے علاوہ تھورنگیا کے حکمراں بائیں بازو کے وزیر اعظم بوڈو رامیلو کے بیانات کے جواب میں انہوں نے آر این ڈی سے کہا: ''آپ ایسا برتاؤ کر رہے ہیں جیسے آپ اپنا سر ریت میں گھسا کر امن حاصل کر سکتے ہوں۔

لیکن بزدلی سے امن نہیں آتا۔‘‘ درحقیقت پوٹن نے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ تھورنگیا میں امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی، ایس پی ڈی کے لیے تحفظات کا سبب

اس بحث کے زور پکڑنے کی ایک اور وجہ روسی جارحیت کے پیش نظر جرمنی میں 2026 سے نئے امریکی درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تعینات کیے جائیں گے۔

اس کا اعلان سب سے پہلے جولائی کے وسط میں امریکہ میں نیٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر کیا گیا تھا اور رواں ہفتے کے آغاز میں ایس پی ڈی نے، جو چانسلر اولاف شولس کی پارٹی ہے، اس تعیناتی پر اتفاق کیا۔ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ جارج مائر نے تاہم ڈوئچ لینڈ فنک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس فیصلے سے انتخابی مہم میں ہمارے لیے کوئی آسانی نہیں ہوگی۔

تاہم، حقیقت میں، انہیں اس تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں: ''قومی سلامتی کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے، میرے تحفظات اس بات پر ہیں کہ یہ بات کیسے سامنے آئی اور اسے کیسے بتایا گیا۔‘‘ اے ایف ڈی اور بی ایس ڈبلیو امریکہ مخالف اور روس مخالف ہیں، کیزے ویٹر

سی ڈی یو کے پارلیمانی گروپ کے خارجہ امور کے ماہر روڈرش کِیزے ویٹر نے تازہ صورتحال پر کہیں زیادہ پرسکون انداز میں ردعمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''یہ اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ جرمنی میں سکیورٹی پالیسی کی بحث کس قدر گھمبیر ہے، جہاں سکیورٹی پالیسی یا ڈیٹرنس کے بنیادی اصولوں کو ہر جگہ، یہاں تک کہ سیاسی طور پر بھی نہیں سمجھا جاتا اور اس کی بجائے فوری طور پر ایک جنونی رد عمل سامنے آتا ہے۔ میری رائے میں ہتھیاروں کی تعیناتی کے اس معاملے کا انتخابات پر اثر محدود ہے، کیونکہ بی ایس ڈبلیو اور اے ایف ڈی پہلے ہی امریکہ مخالف اور روس کے حوالے سے اپنے نکتہ نظر کے زریعے زیادہ سے زیادہ ووٹرز کو متاثر کرنے کی حد تک پہنچ چکی ہیں، اور یوں اس طرح کے فیصلے پر اتفاق رائے بڑھے گا۔

‘‘

یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس سے ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی حکمران جماعتوں کے بہت سے نمائندوں کے ساتھ ساتھ قدامت پسند سی ڈی یو نمائندے بھی مشرقی ریاستوں میں اپنی انتخابی مہم میں اتفاق نہیں کرتے۔ یہ جماعتیں یوکرین کی مزید حمایت اور جرمنی میں نئے امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی کے معاملے میں تیزی سے اکیلی ہوتی جا رہی ہیں۔

ژینس تھوراؤ (ا ب ا/ک م)

متعلقہ مضامین

  • چین کی آلودگی کے خلاف جنگ: عالمی تحفظ ماحول میں مشرقی طاقت کا اضافہ
  • خانہ فرہنگ ایران کراچی میں شہدائے قدس شہید حسن نصراللہ و شہید ہاشم صفی الدین کی یاد میں جلسہ
  • قیدیوں کے حقوق و بحالی کو یقینی بنانے کیلئے جامع قومی جیل پالیسی مرتب کی جائے گی، چیف جسٹس
  • دہشتگردی اور انتہاء پسندی انسانی حقوق کیلئے سنگین خطرہ ہے، سید عباس عراقچی
  • اسرائیلی فورسز نے حسن نصراللہ کو شہید کرنے کیلئے کی گئی بمباری کی ویڈیو جاری کردی
  • بھارت میں بھائی چارے کو مضبوط کرنے کیلئے مسلم مجلسِ مشاورت کام کریگا، سید نور اللہ
  • سید حسن نصر اللہ کا جنازہ حزب اللہ اور ایران کی سیاسی قوت کا مظہر ہے، فراسیسی چینل
  • امریکی سرکاری ملازمین کیلئے ایلون مسک کی نئی پالیسی نے کھلبلی مچا دی
  • جرمن انتخابات: انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی