Daily Ausaf:
2025-02-25@13:55:30 GMT

اسلامی ریاست کا تصور

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

اسلام کے بنیادی عقائد، اصولوں اور شریعت کے تحت اسلامی ریاست کا تصور قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد عدل و انصاف، امن، مساوات اور ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے۔ اسلامی ریاست وہ نظامِ حکومت ہے جہاں اللہ کی حاکمیت تسلیم کی جاتی ہے اور حکمرانی قرآن و سنت کے مطابق کی جاتی ہے۔
اسلامی ریاست کے بنیادی اصول‘-1 حاکمیتِ الٰہی:اسلامی ریاست کا پہلا اصول یہ ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے، اور تمام قوانین و ضوابط قرآن و سنت کے مطابق مرتب کیے جاتے ہیں۔
-2 شریعت کا نفاذ:اسلامی قوانین (شریعت) کو زندگی کے تمام پہلوئوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ عدلیہ، معیشت اور سماجی نظام سمیت ریاست کے تمام امور قرآن و سنت کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔
-3 عدل و انصاف:اسلامی ریاست میں عدل و انصاف کا قیام بنیادی اصول ہے، جہاں تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
-4 امر بالمعروف و نہی عن المنکر:اسلامی ریاست اچھائی کو فروغ دیتی ہے اور برائی کو روکنے کے لیے ایک عملی نظام رکھتی ہے تاکہ معاشرہ نیکی اور تقوی پر مبنی ہو۔
-5 مشاورت:اسلامی ریاست میں حکومت عوام کے مشورے سے چلائی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں سورہ شوری (42:38) میں مشاورت کو ایک اہم اصول قرار دیا گیا ہے، جسے اصطلاح عام میں حقِ رائے دہی کہا جاتا ہے۔
-6 بنیادی حقوق کی فراہمی:اسلامی ریاست ہر شہری کو بنیادی حقوق فراہم کرتی ہے، جیسے جان و مال، عزت، مذہبی آزادی، اور مساوات کا تحفظ۔ اس کے علاوہ، فلاحی نظام کے تحت ضرورت مندوں، یتیموں اور مساکین کی کفالت کی جاتی ہے اور زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے معاشی انصاف کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
-7 اقلیتوں کے حقوق:اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی اور تحفظ حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ نبی کریمﷺ کے مدینہ کے معاہدوں سے ثابت ہوتا ہے۔
اسلامی ریاست کی عملی مثال‘سب سے پہلی اسلامی ریاست مدینہ کی ریاست تھی، جسے نبی اکرمﷺ نے قائم کیا۔ اس ریاست کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی گئی اور اس میں مساوات، عدل اور فلاحی اصولوں کو نافذ کیا گیا۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی اس ماڈل کو برقرار رکھا گیا۔
اسلامی ریاست محض ایک سیاسی ڈھانچہ نہیں، بلکہ ایک مکمل اسلامی نظامِ حیات ہے، جس میں دین اور دنیا کو یکجا کرکے انسانیت کی فلاح کے لیے حکمرانی کی جاتی ہے۔ یہ نظام عدل، مساوات اور حقوق کی حفاظت پر مبنی ہوتا ہے، جس کا مقصد ایک صالح اور پرامن معاشرہ قائم کرنا ہے۔
موجودہ دور میں اسلامی ریاست کا چیلنج‘ خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوا، جس میں عوامی رائے کو نظر انداز کیا گیا۔ اگرچہ شرعی قوانین کے نفاذ اور زکو کے نظام کی وجہ سے عوام کو قدرے خوشحالی ملی اور مملکت کی حدود میں وسعت پیدا ہوئی، مگر آمریت کی وجہ سے عوام میں خوف اور صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے استحکام برقرار نہ رہ سکا۔ آج مسلمان ممالک سخت آزمائش سے دوچار ہیں اور ان میں افراتفری پائی جاتی ہے۔
امتِ مسلمہ کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید امید کی کوئی کرن نظر آئے، مگر پاکستان میں ہمیشہ عوامی رائے، یعنی جمہوریت، کو پنپنے نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے حالات دگرگوں ہوتے گئے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اجتماعی غلطیوں کی اصلاح کریں، عوامی رائے کا احترام کریں اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنائیں تاکہ بحیثیتِ امت ہم اپنا فریضہ ادا کر سکیں اور انسانیت کی رہنمائی کرسکیں۔
مغربی ممالک اور اسلامی اصول‘آج مغرب نے اسلامی ریاست کے بعض اصولوں کو اپناتے ہوئے عوامی رائے کا احترام کیا اور اپنے اداروں کو مضبوط کیا ہے۔ ایسے قوانین بنائے ہیں جن میں مساوی حقوق، عدل و انصاف، روزگار، غریبوں، بوڑھوں، معذوروں اور بے روزگاروں کی مالی امداد کے علاوہ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ریاست نے لے رکھی ہے۔ عدلیہ آزاد ہے اور آزادیِ اظہارِ رائے کی اجازت ہے۔ احتساب کا ایک مضبوط نظام موجود ہے، جس کے تحت ہر کسی کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ مغربی ممالک کے تمام اقدامات کو سراہا نہیں جا سکتا، لیکن عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے ان کے اقدامات قابلِ رشک ہیں۔ اس کے برعکس، مسلم دنیا میں ظلم کا ایسا نظام ہے جہاں طاقتور اپنے ہی لوگوں پر بے دردی سے ظلم کرتا ہے اور کمزور کو انصاف نہیں ملتا۔
اسلامی ریاست کے لیے دیانت دار قیادت ضروری‘اسلامی ریاست کے قیام کے لیے حکمرانوں کا دیانت دار ہونا لازمی ہے۔ موجودہ نظام کسی بھی اعتبار سے اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر ہم حقیقی اسلامی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں، تو ہمیں عدل و انصاف، مساوات، دیانت داری اور عوامی رائے کے احترام کو اپنا شعار بنانا ہوگا تاکہ دنیا میں ایک منصفانہ اور فلاحی اسلامی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلامی ریاست کا اسلامی ریاست کے عدل و انصاف عوامی رائے کی جاتی ہے کی وجہ سے جاتا ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

کاروباری سرگرمیوں میں تیزی کی ضرورت

پاکستان میں عدالتی نظام میں موجود پیچیدگیوں سے سب آگاہ ہیں، قوانین میں بھی ایسے ابہام ، ذومعنیت اور کمیاں موجود ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر مقدمات کو برسوں تک لٹکایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے خاصی کوششیں کررہی ہے۔

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کو عدالتی نظام میں کیس اسائنمنٹ اینڈ مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کر دیا ہے ۔اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ نیا نظام شفافیت، بروقت اور فوری انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ 

انھوں نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے ایسا نظام متعارف کرایا ہے جس سے بدعنوانی کی نذر ہونے والا پیسہ دوبارہ قومی خزانے میں آئے گا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ کھربوں روپے کے مقدمات ٹریبونلز، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

وزیراعظم کی یہ بات بالکل درست ہے، پاکستان میں لین دین ، کاروبار اور قرضوں کے حوالے سے مقدمات بھی اتنے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے نظام پر بوجھ حد تک بڑھ کیا ہے۔ فنانشل مقدمات کے فیصلے بھی برسوں نہیں ہوپاتے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں، بدعنوان عناصر سے ایک ایک پائی وصول کرکے عوامی فلاح پر خرچ کریں گے۔

حکومت نے جو نیا نظام متعارف کرایا ہے کہ اس نظام کے اجرا کے لیے کینیڈا اور یو این او ڈی سی کی معاونت و مشاورت شامل ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ نیا نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ پاکستان میں فوری اور تیزی سے انصاف کی فراہمی کے لیے یہ جدید نظام ضروری اور وقت کا تقاضا تھا،اس سے مقدمات نمٹانے میں تیزی آئے گی۔

خبر کے مطابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ چند برس پہلے ایف بی آر میں بھی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد مختلف صنعتوں سے واجب الادا ٹیکس جمع کرنا تھا، بدقسمتی سے ماضی میں اس سسٹم کا استعمال درست انداز میں نہیں کیا گیا، ہم نے اس سسٹم کو ازسرنو شروع کیا ہے،یہ نظام تمام بندرگاہوں، ایئرپورٹس اور ڈرائی پورٹس پر مؤثرانداز میں کام کر رہا ہے اور اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے اور بدعنوانی کی وجہ سے کھربوں روپے خزانے میں جمع ہونے کے بجائے عشروں سے تاخیر کا شکار تھے،میں اس معاملہ کی خود نگرانی کر رہا ہوں، گزشتہ 11ماہ میں خامیوں کو دور کرنے پر پوری توجہ دی ہے اور اس حوالے سے باقاعدگی سے جائزہ اجلاس ہوتے ہیں۔

وزیراعظم نے مزید کہا پاکستان کو ہر قسم کے وسائل سے مالامال ہے، ہر شعبہ میں بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں، کئی دہائیوں سے ہمارا نظام انحطاط کا شکار رہا، ہمیں محنت اور تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، گزرے وقت پر افسوس کرنے کے بجائے اس سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔

گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے ایک دن میں 24ارب روپے کے کیس کا میرٹ پر فیصلہ کیا ہے اور یہ رقم اب قومی خزانہ میں جمع ہو گی۔ پاکستان میں ای گورننس کے فروغ کے لیے اقدامات جلد عملی شکل اختیار کرنے چاہئیں ، وفاقی وزیر قانون نے بھی کہا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرا کر98فیصد حکومتی اقدامات کو ای پورٹل پر منتقل کیا گیا ہے، تمام وفاقی قوانین کے لیے ایپ متعارف کرا دی گئی ہے، اب قانون کی منظوری ہوتے ہی فوری طور پر ایپ پر اس کی تفصیلات آ جاتی ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کو ہی نوجوان افرادی قوت کی پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے بین الوزارتی جائزہ اجلاس کی صدارت بھی کی ہے ۔ اس اجلاس میں نیوٹیک ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزارت سمندر پار پاکستانی اور وزارت صحت کی جانب سے نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے آیندہ تین سال کا لائحہ عمل پیش کیا گیا۔

نوجوانوں کو بین الاقوامی سطح پر مطلوبہ پیشہ وارانہ ہنر سے لیس کرنا حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ نوجوان ہی ملک کی ترقی کا ہراول دستہ ہیں۔ نوجوانوں کی مختلف شعبوں میں پیشہ وارانہ تربیت ملکی اور بین الاقوامی صنعتی مارکیٹ کو مدنظر رکھ کرکی جائے۔

حکومت نیوٹیک کو ہر قسم کی فنڈنگ فراہم کرے گی۔اجلاس کو بتایا گیا کہ نیوٹیک رواں برس اب تک 60 ہزار اور جون 2025تک ایک لاکھ41ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرے گا۔ 2026میں 2لاکھ 50ہزار جب کہ 2027میں 3لاکھ 37ہزار نوجوانوں کو تربیت دے گا۔نیوٹیک کے تحت 29ہزار سے زائد افراد تربیت حاصل کرکے سعودی عرب میں روزگار حاصل کر چکے ہیں۔

جب کہ دسمبر 2025تک 40ہزار، 2026میں ایک لاکھ جب کہ 2027میں ایک لاکھ 50ہزار افراد کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرکے سعودی عرب میں روزگار کا ہدف رکھا گیا ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ان تربیتی پروگرامز میں مدرسہ جات کے 2500سے زائد طلبہ کو تربیت دی جا چکی ہے۔وزارت آئی ٹی کی جانب سے بتایا گیا کہ آیندہ تین برس میں وزارت ملک بھر میں 92ہزار سے زائد نوجوانوں کو جدید آئی ٹی کورسز میں تربیت اور21لاکھ فری لانسرز تیار کرنے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

ملک میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت سے انکار نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ ریٹیلرز پرمزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا،ایسے تمام ریٹیلرز جو ٹیکس نہیں دیتے ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے ریٹیلرز کے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی۔وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ استعمال شدہ اشیا کی آڑ میں ہونے والی اسمگلنگ کے سد باب کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔مقامی صنعت کو جدت کو اپناتے ہوئے اپنی اشیا کی برآمدات کے لیے جدید ٹیکنالوجی اپنانی چاہیے تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ کا مقابلہ کر سکیں۔

پاکستان میں ٹیکس نافذ کرنے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کا سسٹم بھی خاصا پیچیدہ ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے سٹسم پر غور کیا جائے تو اس کا سارا بوجھ آخری صارف پر ڈالا جاتا ہے۔

مینوفیکچرز، اسٹاکسٹس اور ریٹیلرز ٹیکس سے بچ جاتے ہیں اور ٹیکس کا بوجھ کنزیومر پر ڈالا جاتا ہے۔ جی ایس ٹی کو دیکھ لیا جائے، ریٹیلرز یہ ٹیکس صارف پر ڈالتے ہیں حالانکہ وہ سیلر کی بکری پر ٹیکس ہے، وہ پرچیزر کی خریداری پر ٹیکس نہیں ہے۔

ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے نمایندے نے سات ارب ڈالر قرضے کی اگلی قسط اور کلائمٹ فنانسنگ کے حوالے سے مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف جائزہ مشن اور تکنیکی ٹیم کے پاکستان کے دورے کا شیڈول جاری کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد مارچ کے اوائل سے پاکستان کا دورہ کرے گا اور قرض پروگرام کا پہلا جائزہ لے گا۔

آئی ایم ایف کا ایک اور وفد کلائمٹ فناننسنگ کی پاکستانی درخواست پر بات چیت کے لیے فروری کی آخر میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ تکنیکی ٹیم کلائمٹ فناننسنگ سے متعلق تکنیکی معاملات پربات چیت کرے گی۔

ادھر آئی ایم ایف نے اپنے مشن کے 6 تا 14فروری کے دورہ پاکستان پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مشن کا مقصد 6 بنیادی ریاستی امورگورننس، بدعنوانی کے خطرات کا ابتدائی جائزہ لینا تھا۔ بیان میں کہا گیا آئی ایم ایف حکومت پاکستان کی سنجیدگی اور عزم کو سراہتا ہے۔

آئی ایم ایف ٹیم رواں سال کے آخر میں مزید معلومات اکٹھی کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گی۔ یہ ٹیم گورننس، شفافیت، اقتصادی نتائج بہتر بنانے کے مواقع تلاش کرنے کے لیے اور حتمی جائزے کی تیاری میں مدد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گی۔ مالیاتی شعبے کی نگرانی، مارکیٹ کے ضوابط، قانون کی حکمرانی سے متعلق امور شامل ہیں ۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے انسداد سے متعلق امور بھی شامل تھے۔

پاکستان کی معیشت کے حوالے سے اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ معاشی ٹیم کی کارکردگی بھی اچھی جارہی ہے۔ حکومت کو اپنے قوانین میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے، معیشت کے وہ سیکٹرز جو سست رفتار ہیں، ان کے بارے میں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے کئی سیکٹرز ایسے ہیں جو پوری طرح متحرک نہیں ہیں، انھیں متحرک کرنے کے لیے اقدامات انتہائی ضروری ہیں تاکہ ملک میں کاروباری تیزی آئے اور روزگار میں اضافہ ہو۔ملک میں کاروباری تیزی سے ہی مہنگائی کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکتا اور امن و امان بھی بحال کیا جاسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فتنۃ الخوارج کے سیاسی ونگ اہلسنت والجماعت کا لال مسجد کیساتھ گٹھ جوڑ، ریاست کی رٹ چیلنج
  • فتنۃ الخوارج کے سیاسی ونگ اہل سنت والجماعت کا لال مسجد کے ساتھ گٹھ جوڑ، ریاست کی رٹ چیلنج
  • آئین و قانون کی حکمرانی
  • حکمرانی کا نظام اور ادارہ جاتی اصلاحات
  • عام آدمی کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب ٹرانسپلانٹ پروگرام کا آغاز، 5 آپریشن بالکل مفت ہوں گے
  • حکومتی کاوشیں رنگ لے آئیں، ٹیکس نظام میں اہم تبدیلی
  • پنجاب میں شہریوں کیلئے بڑی خوشخبری؛ حکومت نے مفت ٹرانسپلانٹ پروگرام کا آغاز کردیا
  • سانحہ 9 مئی کے مرکزی کردار کے نام پر اسٹیڈیم کا نام رکھنا ریاست دشمن قوتوں کو تقویت دینا ہے: فیصل کریم کنڈی
  • کاروباری سرگرمیوں میں تیزی کی ضرورت