پاکستان: حکومتی کریک ڈاؤن اور مصائب کا شکار افغان پناہ گزین
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 فروری 2025ء) فاطمہ (فرضی نام) ان لاکھوں شہریوں میں شامل تھیں، جو دسمبر 2021ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو گئے تھے۔ فاطمہ طالبان کے اقتدار میں آنے تک کابل میں ایک غیر منافع بخش امریکی تنظیم کے لیے کام کرتی تھیں۔ وہ اب پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم ہیں اور مصائب کا شکار ہیں۔
ان کےپاکستانی ویزا کی میعاد ختم ہونے میں کچھ دن باقی بچے ہیں اور حکام اس کی تجدید کے لیے ان کی درخواست پر کارروائی کر رہے ہیں۔فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنے ویزے کی تجدید کے بارے میں فکر مند ہوں اور اگربروقت تجدید نہ کی گئی تو حکام مجھے اور میرے خاندان کو غیر قانونی طور پر ملک میں رہائش پذیر ہونے پر گرفتار کر لیں گے۔
(جاری ہے)
پاکستانی پولیس غیر دستاویزی افغان مہاجرین کی تلاش میں اس عمارت پر چھاپہ بھی مار چکی ہے، جہاں فاطمہ رہائش پزیر ہیں تاہم وہ اس وقت عمارت میں موجود نہیں تھیں لیکن ان کے بھائی کو حراست میں لے لیا گیا۔فاطمہ کا کہنا تھا، ''بعد میں، ہم نے انہیں اپنی ویزا کی تجدید کی درخواست کی رسیدیں اور ثبوت دکھائے لیکن پولیس نے تعاون نہیں کیا۔
‘‘ وہ اب حکام کی نظروں سے چھپ کر رہنے پر مجبور ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کے لیے تیزی سے قریب آتی ڈیڈلائنپاکستان نے گزشتہ 40 سالوں میں ملک میں داخل ہونے والے تقریباً 40 لاکھ افغانوں کو وطن واپس بھجوانے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک اقدام کا آغاز کیا ہے۔ پاکستانی حکام نے گزشتہ سال سفری دستاویزات کے بغیر مقیم غیر ملکیوں کو کچھ رعایت دی تھی تاہم اب حکومت نے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکی شہریوں کو نکالنے کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی ہے۔
اس دوران جنوری اور فروری میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی تلاش کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ماہر قانون اور انسانی حقوق کے کارکن عمر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسلام آباد اور قریبی شہر راولپنڈی میں مقیم افغان مہاجرین کو ''زبانی طور پر 28 فروری تک پاکستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘پاکستان میں مہاجرین کی وکالت کے لیے کام کرنے والی ایک وکیل مونیزا کاکڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں افغان شہریوں میں ''غیر یقینی اور خوف‘‘پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ''اس سال کے آغاز سے، اسلام آباد میں 1,000 سے زیادہ افغانوں کو حراست میں لیا گیا ہے، اور 18,000 سے زائد کو حکومتی احکامات کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔‘‘
'ہم نے برسوں تک امریکیوں کے ساتھ کام کیا ہے‘28 سالہ امین کا تعلق کابل سے ہے۔ انہوں نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے برسوں گزارے ہیں۔
طالبان کے آنے کے بعد انہیں بھی سرحد پار پاکستان بھاگنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں امریکہ لے جائے جانے میں صرف چند دن باقی تھے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزینوں کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کرنے کے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کرنے کے بعد گزشتہ ماہ ان کی امریکی روانگی روک دیا گئی۔تقریباً 20,000 افغان امریکی حکومت کے ایک پروگرام کے ذریعے امریکہ میں دوبارہ آباد ہونے کی منظوری کے لیے پاکستان میں منتظر بیٹھے ہوئے ہیں۔
امین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے برسوں تک امریکیوں کے ساتھ کام کیا، ہم نے افغانستان میں ان کی مدد اور حمایت کی، ہم نے انہیں اپنی زندگی کا ایک حصہ دیا ہے اور انہیں ہمارا ساتھ دینا ہوگا تاکہ ہم امن سے رہ سکیں۔‘‘ افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن، کابل اور اسلام آباد میں تنازعہگزشتہ تین سالوں میں پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکام کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ٹی ٹی پی ایک کالعدم عسکریت پسند گروپ ہے، جو 2007 میں تشکیل پایا تھا اور یہ پاکستانی سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کرتے آیا ہے۔طالبان کی حکومت کے ساتھ سرحد پار کشیدگی بڑھنے کے بعد پاکستان میں مقیم افغانوں کو مبینہ دھمکیوں اور ان کی گرفتاریوں کی اطلاعات کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اس متعلق اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان باشندے بہتر انسانی سلوک کے مستحق ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن عمر گیلانی کا کہنا ہے کہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ہوتی ہے تو ''پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کو دباؤ ڈالنے کے لیے یرغمالیوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘گزشتہ ہفتے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے افغان ناظم الامور کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ان الزامات کو ''بے بنیاد‘‘قرار دیا اور کابل پر زور دیا کہ وہ افغان شہریوں کی آسانی سے وطن واپسی میں سہولت فراہم کرے۔
پاکستان میں افغانوں کو تحفظ دینے کی روایت ہے، اقوام متحدہپاکستان میں یو این ایچ سی آر کی اعلیٰ نمائندہ فلیپا کینڈلر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان نے ستمبر 2023 سے گزشتہ سال کے آخر تک 800,000 افغان مہاجرین کو پہلے ہی واپس بھیجا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ''دسمبر 2024 تک پاکستان نے 2.
کینڈلر نے کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی میں پاکستان کی فراخدلی اور پاکستان میں موجودہ ''معاشی اور سکیورٹی چیلنجز‘‘کو تسلیم کرتے ہوئے اسلام آباد حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ''افغانوں کی صورت حال کو انسانی ہمدردی کے تناظر میں دیکھے‘‘ اور ''خطرات کے شکار افغانوں کو ان کی حثیت سے قطع نظر تحفظ فراہم کرے۔
‘‘ انہوں نے کہا، ''یہ ضروری ہے کہ ہم میزبان ممالک اورپناہ گزینوں کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ ایسا طریقہ کار تیار کیا جا سکے، جو پناہ گزینوں کو رضاکارانہ وطن واپسی سمیت اپنی زندگیوں کو تحفظ اور وقار کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے بااختیار بنائے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ''ہم دونوں ممالک کے درمیان بات چیت اور مہاجرین کے مسئلے کو سیاسی معاملات سے الگ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔‘‘
ہارون جنجوعہ (ش ر⁄ ک م )
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پناہ گزینوں کے افغان مہاجرین پاکستان میں افغانوں کو اسلام آباد طالبان کے کرتے ہوئے انہوں نے کے ساتھ کے لیے کے بعد
پڑھیں:
اسلام آباد میں شاندار ایڈوانچر پارک کی تعمیر کا امکان
کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اسلام آباد میں ایک ایڈونچر سٹی پارک کی تعمیر پر غور کر رہی ہے، جس کا مقصد شہر کے سب سے بڑے سیاحتی مقامات میں سے ایک بنانا ہے۔
اس اقدام کے حوالے سے گزشتہ روز سی ڈی اے ہیڈ کوارٹرز میں وفاقی سیکرٹری داخلہ محمد خرم آغا کی زیر صدارت اجلاس کے دوران تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:عیدالفطر پر بلوچستان کے کون سے سیاحتی مقامات کی سیر کی جاسکتی ہے؟
اجلاس میں چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا، ممبر ماحولیات اور سی ڈی اے کے دیگر متعلقہ سینئر افسران نے شرکت کی۔
ملاقات میں اسلام آباد میں ایک مناسب جگہ پر ایڈونچر سٹی پارک کے قیام پر تبادلہ خیال کیا گیا جو مستقبل میں اسلام آباد کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہوگا۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ اسلام آباد میں سیاحت کو فروغ دینا سی ڈی اے کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
ایڈونچر سٹی میں واک ویز کی تعمیر، سائیکلنگ ٹریک اور جامع ماحولیاتی اور تفریحی انفراسٹرکچر کو مربوط کرنا شامل ہوگا۔ اجلاس میں دارالحکومت میں سیاحت سے متعلق منصوبوں کی نمایاں صلاحیت کو اجاگر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:عید کی چھٹیوں میں خیبر پختونخوا کے من پسند سیاحتی مقامات کیا ہیں؟
چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا نے کہا کہ خوبصورتی اور سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے پارکوں کی خوبصورتی میں ماحول دوست درخت لگانے کے ذریعے مزید اضافہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایڈونچر سٹی پراجیکٹ کے لیے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے تاکہ سیاحت کے عالمی معیار کے ساتھ ساتھ دیگر فیکلٹیز کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ اسلام آباد کے شہریوں کی ایڈونچر سٹی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے جس میں قومی اور بین الاقوامی فوڈ چینز، ثقافتی اور سماجی خدمات کے علاوہ سیاحت سے متعلق منصوبے ایک جگہ پر دستیاب ہوں گے۔
رندھاوا نے کہا کہ ایڈونچر سٹی پارک کے لیے مالی اور آپریشنل قابل عمل ماڈل اپنائے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ ماحولیاتی استحکام کے لیے ایڈونچر سٹی کے ساتھ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ (STP) کی تنصیب کو یقینی بنایا جائے۔
چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ یہ منصوبہ جدید ترین تفریحی سہولیات سے آراستہ ہو گا تاکہ اسلام آباد کو عالمی سیاحتی مقام کے طور پر بلند کیا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد ایڈونچرپارک سی ڈی اے سیاحت کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی