افغان مہاجرین کی پاکستان سے واپسی، دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
افغان مہاجرین کو پاکستان سے واپس بھجوانے کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان سے واپس بھجوانے کے دوسرے مرحلے میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو واپس بھیجا جائے گا، وزارت داخلہ نے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مختلف ادوار میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد، اب کتنے رہ گئے؟
دستاویز کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8 لاکھ مہاجرین اے سی سی پر مقیم ہیں، وزارت داخلہ نے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے جبکہ کسی تیسرے ملک جانے کی خواہش رکھنے والے افغان شہریوں کے پاکستان میں قیام کی مدت میں 30 جون تک اضافہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں رہنے والے افغان شہریوں کی واپسی کا سلسلہ ستمبر 2023 میں شروع ہوا تھا اور 15 دسمبر 2024 تک ان میں سے 7 لاکھ 95 ہزار 607 اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ سال مئی اور جون میں پاکستان چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا اور ان دونوں مہینوں میں تقریباً 38 ہزار اور مجموعی طور پر 76 ہزار لوگ افغانستان کو واپس گئے۔
اس کے بعد یہ تعداد کم ہو گئی جب جولائی 2024 میں 36 ہزار، اگست میں 29 ہزار، ستمبر میں 23 ہزار اور اکتوبر میں 24 ہزار افغان واپس گئے جبکہ نومبر 2024 میں ان کی تعداد قدرے بڑھ کر 25,400 تک پہنچ گئی تھی۔
ستمبر 2023 میں پاکستان کی حکومت نے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں (جن میں غالب اکثریت افغان مہاجرین کی ہے) کو یکم نومبر سے پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ بعدازاں اس مدت میں 31 دسمبر 2023 اور پھر 30 جون 2024 تک توسیع کر دی گئی۔
اس دوران ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی حراستوں اور ملک بدری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ان حالات میں لاکھوں افغان گرفتاری کے خوف سے پاکستان چھوڑ گئے۔
باقی ماندہ افغان کتنے ہیں اور پاکستان میں کب تک رہ سکیں گے؟
جولائی 2024 میں حکومت نے باقی ماندہ مہاجرین کو اپنی رجسٹریشن کا ثبوت (پی او آر کارڈ) دکھانے کی صورت میں جون 2025 تک ملک میں رہنے کی اجازت دے دی ہے۔
مزید پڑھیے: افغان مہاجرین کے لیے پاکستان میں قیام کی مدت میں توسیع کا اعلان
سرکاری ریکارڈ کے مطابق ملک میں ایسے افغانوں کی تعداد تقریباً 14 لاکھ 50 ہزار ہے۔ ان کے علاوہ تقریباً 9 لاکھ افغان شہری تاحال کسی قانونی دستاویز کے بغیر پاکستان میں موجود ہیں۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان بچوں کی کیا حیثیت ہوگی؟11 نومبر 2024 کو پاکستان کی قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے ملک میں مقیم تارکین وطن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو ملکی شہریت دیے جانے کے قانون میں ترمیم بھی منظور کی جس کے بعد پاکستان میں رہنے والے بہت سے افغان شہریوں کے بچوں کے لیے یہ سہولت ختم ہو گئی ہے۔
کمیٹی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے صرف اسی بچے کو شہریت مل سکے گی جس کے والدین میں سے کم از کم ایک کے پاس پاکستانی شہریت ہو گی۔
افغان شہری واپسی پر کیوں مجبور ہوئے؟عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے بتایا ہے کہ رواں سال یکم جنوری سے 15 دسمبر کے درمیان 3 لاکھ 474 ہزار 716 مہاجرین کی واپسی ہوئی۔
ان میں 94 فیصد ایسے لوگ ہیں جو پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تھے جبکہ 4 فیصد کے پاس ’پی او آر‘ اور ایک فیصد کے پاس افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) تھا۔
ان مہاجرین میں سے 63 فیصد نے پاکستان میں گرفتاری کے خوف، 39 فیصد نے گھریلو اخراجات پورے نہ ہونے، 37 فیصد نے گھروں کے کرایے ادا کرنے میں مشکلات اور 31 فیصد نے بے روزگاری کو اپنی واپسی کی بنیادی وجہ بتایا۔
84 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اپنے قریبی عزیزوں کی موجودگی اور دوبارہ ان کے ساتھ رہنے کی خواہش بھی ان کی واپسی کی ایک بڑی وجہ ہے جبکہ 72 فیصد نے افغانستان میں ممکنہ طور پر انسانی امداد کی فراہمی کو اپنی واپسی کی بنیادی وجوہات میں شمار کیا۔
31 فیصد گھرانوں کا بوجھ خواتین اٹھاتی ہیںیو این ایچ سی آر نے بتایا ہے کہ پاکستان سے واپسی اختیار کرنے والے افغان مہاجرین میں 31 فیصد کا تعلق ایسے گھرانوں سے ہے جن کا مرد سربراہ نہ ہونے کے باعث کنبے کی کفالت کا بوجھ خواتین اٹھاتی ہیں۔
15 ماہ کے عرصہ میں واپسی اختیار کرنے والے مہاجرین میں 2.
یو این ایچ سی آر کے مطابق رواں سال پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم ساڑھے 78 ہزار افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں نومبر میں ہوئیں جب ملک بھر سے 1200 افغانوں کو ملک میں رہائش کے لیے درکار قانونی دستاویزات نہ ہونے پر حراست میں لیا گیا۔ ان میں بڑی اکثریت 18 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کی تھی جن میں بیشتر لوگ رہائی کے بعد ملک چھوڑ گئے۔
افغان مہاجرین کی آمد و واپسی، مختلف ادوار میں تعدادپاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد سنہ 1979 میں افغانستان پر سابق سوویت یونین کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر (اوچا) کے مطابق سنہ 1981 تک ان کی تعداد 20 لاکھ اور سنہ 1990 تک 32 لاکھ ہو چکی تھی۔
سوویت یونین کی واپسی کے بعد سنہ 1990 کی دہائی میں افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران بھی مہاجرین پاکستان آتے رہے۔
سنہ2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا رخ کرنے والے افغانوں کی مجموعی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔
سنہ2002 میں طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد تقریباً 15 لاکھ افغانوں کی واپسی ہوئی اور سنہ 2012 تک یہ تعداد 27 لاکھ تک جا پہنچی۔
مزید پڑھیں: غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی، کیا اہداف حاصل ہو گئے؟
اس کے اگلے 10 برسوں کے دوران وقتاً فوقتاً مزید افغان شہری اپنے ملک واپس جاتے رہے۔ سنہ2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے بعد تقریباً 7 لاکھ افغانوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں پناہ لی۔
پناہ گزینوں کے لیے یو این ایچ سی آر کے مطابق ستمبر 2023 میں افغانوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیے جانے تک پاکستان میں تقریباً 31 لاکھ افغان شہری مقیم تھے جبکہ اب ان کی تعداد تقریباً 23 لاکھ 50 ہزار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغان مہاجرین افغانستان پاکستان واپسی وزارت داخلہ وزیراعظم شہباز شریفذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین افغانستان پاکستان واپسی وزارت داخلہ وزیراعظم شہباز شریف افغان مہاجرین کی پاکستان سے واپس میں افغانستان افغان شہریوں پاکستان میں والے افغان افغان شہری افغانوں کی لاکھ افغان میں افغان کی تعداد کے مطابق کی واپسی فیصد نے ملک میں کے بعد کی تھی کے لیے
پڑھیں:
غزہ کی صورتحال دوسری جنگ عظیم سے بھی بدتر ہے، برطانوی ڈاکٹر
ایک اور سابق برطانوی سرجن پروفیسر نظام محمود، جنہوں نے غزہ کے ناصر ہسپتال میں کام کیا، نے تصدیق کی کہ طبی کارکنوں کو نشانہ بنانے اور پوری طبی ٹیموں کی تباہی کی وجہ سے اموات کی تعداد 186,000 سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کی پٹی میں کام کرنے والے برطانوی ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے اثرات دوسری جنگ عظیم سے بھی بدتر ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر ہے کیا کہ بیماریوں، غذائی قلت اور صحت کی دیکھ بھال کا خاتمہ کے اثرات کئی دہائیوں تک جاری رہیں گے، کیونکہ ہسپتالوں اور صحت کے شعبے کی تباہی اور طبی کارکنوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے صورتحال گھمبیر ہو چکی ہے۔ برطانوی ڈاکٹروں کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی کل تعداد 186,000 تک پہنچنے کا خدشہ ہے، یہ تعداد غزہ میں وزارت صحت کی طرف سے اعلان کردہ شہداء کی تعداد سے چار گنا زیادہ ہے۔ برطانوی فلسطینی پلاسٹک سرجن، پروفیسر غسان ابو سیتا، جنہوں نے جنگ کے آغاز سے غزہ کے ہسپتالوں میں کام کیا ہے، نے کہا کہ وہاں غذائی قلت کی سطح اتنی شدید تھی کہ بہت سے بچے "کبھی بھی صحت یاب نہیں ہوں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ متعدی امراض اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی مسلسل تباہی کی وجہ سے فلسطینیوں کے مصائب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک اور سابق برطانوی سرجن پروفیسر نظام محمود، جنہوں نے غزہ کے ناصر ہسپتال میں کام کیا، نے تصدیق کی کہ طبی کارکنوں کو نشانہ بنانے اور پوری طبی ٹیموں کی تباہی کی وجہ سے اموات کی تعداد 186,000 سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی غزہ کی پٹی کا احاطہ کرنے والے چھ سرجنوں میں سے صرف ایک باقی رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی آنکولوجسٹ زندہ نہیں بچا۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبی پیشہ ور افراد کی پوری ٹیموں کو غزہ سے ختم کر دیا گیا ہے اور انہیں تبدیل کرنے کے لیے درکار تربیت میں 10 سال لگیں گے۔