اسرائیلی فوج کے زیرقبضہ شامی علاقوں میں دمشق کے دستوں کو تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے. نیتن یاہو
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
تل ابیب/دمشق(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 فروری ۔2025 )اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے جنوبی شام کے زیادہ حصے کو غیرفوجی علاقہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے ان کا یہ مطالبہ شام کی نئی قیادت اور اسرائیل میں ایک تنازع کا سبب بن سکتا ہے شام میں اسرائیلی مطالبے کے خلاف احتجاج بھی ہو رہے ہیں.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ہم جنوبی شام کے علاقوں جن میں کونیتر، دیرا اور سویدا شامل ہیں کو مکمل غیرفوجی زون بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں نتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اس علاقے میں ’درزی‘ کمیونٹی کو کسی بھی طرح کے خطرے کو بھی برداشت نہیں کریں گے انہوں کہا کہ اسرائیلی افواج شامی علاقوں میں غیرمعینہ مدت کے لیے موجود رہیں گی یہ علاقے بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے عارضی طور پر اپنے قبضے میں لیے تھے مگر اب ان پر غیرمعینہ قیام اسرائیل کے اپنے موقف کے برعکس ہے. اسرائیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ شدت پسندوں کا رستہ روکنے کے لیے شام کے ان علاقوں میں داخل ہو رہے ہیں جنہیںبفر زون کا درجہ حاصل ہے دمشق کے جنوبی علاقوں میں اسرائیل فوج کی بھاری نفری مکمل جنگی سازوسامان کے ساتھ تعینات ہے جبکہ حال ہی میں ٹینکوں کی ایک بڑی کھیپ بھی اس علاقے میں پہنچائی گئی ہے تاہم اسرائیل کا اصرار ہے کہ شام اپنے ہی ملک کے ان حصوں میں فوجیں تعینات نہیں کرسکتا جہاں اسرائیلی افواج قابض ہیں. مڈل ایسٹ انٹرنیشنل سینٹراور مشرق وسطی امورپر مہارت رکھنے والے دیگر معتبر اداروں کے ماہرین اسرائیل کے ان اقدامات کو گریٹراسرائیل کے منصوبے کا حصہ قراردیتے ہیں ان کے نزدیک گریٹراسرائیل کوعملی جامہ پہنانے کے لیے عرب ممالک کے حکمران عملی طورپر اسرائیل کی مددکررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ عرب راہنماﺅں کے قول فعل میں تضاد ہے وہ اپنے اقتدار اور دولت کو بچانے کے لیے ہر طرح سے کمپرومائزڈ ہیں . ماہرین کے نزدیک مسلمان ممالک کے درمیان عرب‘ترک اور ایرانی اثرکے تحت چھوٹے چھوٹے بلاک مسلم دنیا کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچارہے ہیں ترکی اس وقت امریکا کے مخالف یورپی یونین کا فرنٹ لائن ملک بناہوا ہے جبکہ عرب بیک وقت امریکا اور یورپ کی خوشنودی کے لیے خدمات مہیا کررہے ہیں ایرن جوکہ فارس کی عظیم سلطنت کا جانشین کے زعم میں مبتلا ہے اس کے عرب اور ترکی سے اختلافات کا فائدہ مغربی اقوام اور اسرائیل کو پہنچ رہا ہے ان میں مسلکی اور سیاسی دونوں طرح کے اختلافات موجود ہیں. یاد رہے کہ گزشتہ روز ”الجزیرہ“نے رپورٹ جاری کی تھی کہ اسرائیلی فوج شام کے جنوب میں زیرقبضہ علاقوں کی آبادی کو زمینوں کے پر کشش معاوضے اور اچھی نوکریوں کی پیشکش کررہی ہے یہ سلسلہ سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد سے جاری ہے جب اسرائیلی فوج نے جبل الشیخ اور القنیطرہ صوبے کی پہاڑیوں اور دیہی علاقوں کا کنٹرول لے لیا تھا. عرب نشریاتی ادارے کا کہنا تھاکہ اگرچہ اسرائیل کی جانب سے سرکاری طور پر اس حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا تاہم شام کے جنوبی حصے میں تعینات اسرائیلی فوج نے وہاں فوجی اڈے قائم کر لیے اور اپنے فوجیوں کے لیے رہائشی عمارتیں بھی بنا لیں رپورٹ میںالقنیطرہ میں ذرائع کے حوالے بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی کی آبادی کو معاشی پیش کش بھی کی ہے. عرب تجزیہ نگارو ں کا کہنا ہے کہ اسرائیل سرحدوں میں توسیع کرنے کی کوشش کررہا ہے بعض مبصرین سرحدی علاقوں میں اسرائیلی سرگرمیوں پر دمشق کی خاموشی کو اسدحکومت کے خلاف موجودہ عبوری حکومت اور تل ابیب کے درمیان خفیہ ڈیل کا نتیجہ قراردے رہے ہیں واضح رہے کہ اسرائیل نے اسدحکومت کے خلاف باغی گروپوں کی برق فتار پیش قدمی کے دوران فضائی حملوں کے ذریعے بشارالااسد کی شامی افواج کو مفلوج کردیا تھاجس کے بعد باغی گروپ آسانی کے ساتھ شامی دارالحکومت دمشق سمیت ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے. بشارالااسد‘ایران اور ان کے دیگر اتحادیوں کی جانب سے ہمسایہ عرب ملکوں کا نام لیے بغیر الزام عائدکیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر شام کے باغی گرپوں کی مدد کی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوج نے شام کے جنوب میں ان علاقوں میں مردم شماری کی جہاں اس کی فوجیں قابض ہیں مردم شماری کے دوران آبادیوں کی تعداد، عمر، تعلیمی قابلیت اور کام کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں بتایا گیا ہے کہ ان علاقوں میں اسرائیلی افواج نے زمینوں کے سروے بھی کیئے ہیں اور مقامی لوگوں کو زمینیں فروخت کرنے کے لیے پرکشش معاوضہ دینے کے وعدے کیے ہیںذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے مقامی آبادی کو اسرائیلی سرحد کے اندر روزگار کے مواقع دینے کا وعدہ بھی کیاالبتہ مقامی ذرائع کے مطابق یہ وعدے اسرائیل میں شامیوں کی بھرتیوں کی حد تک نہیں پہنچے . ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے بعض لوگوں کو کام کی پیش کش کی ہے کہ وہ صبح اسرائیل میں داخل ہوں اور کام کے بعد رات میں واپس شام لوٹ آئیں جیسا کہ غزہ کی پٹی میں ہوا کرتا تھا ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے ان لوگوں کے لیے ورک پرمٹ پیش کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اسرائیلی فوج نے وعدہ کیا ہے کہ ہر کام کرنے والے کو روزانہ 75 سے 100 ڈالر کی اجرت ملے گی جو شام میں کسی ملازم کو ملنے والی کئی ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے . یاد رہے کہ شام کے بعض جنوبی قصبوں اور دیہات کے لوگوں نے اسرائیلی فوج کی جانب سے پیش کی جانے والی انسانی امداد لینے سے انکار کر دیا تھا اسرائیل مختلف عسکری اور اقتصادی طریقوں سے جنوبی شام میں اپنے وجود کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے یہاں وہ اب تک 7 فوجی ٹھکانے قائم کر چکا ہے. بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں میں بفرزون کے اندر کئی ٹھکانوں جن کی تعداد 10 سے زیادہ ہو چکی ہے میں پوزیشن سنبھال چکی ہے یہ بفرزون 1974 سے اسرائیل اور شام کے زیر کنٹرول علاقوں کو الگ کرتا ہے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے مطابق یہ اقدام عارضی اور دفاعی نوعیت کا ہے جس کا مقصد شام کی سمت سے اپنے ملک کے لیے ممکنہ خطرات کو ختم کرنا ہے تاہم ساتھ وہ یہ باور کرا چکے ہیں کہ سرحد پر سیکورٹی ضمانت حاصل ہونے تک ان کی فوج اس بفرزون میں رہے گی نیتن یاہو زور دیتے ہیں کہ شام کے جنوبی علاقے کو ہتھیاروں سے پاک رکھا جائے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہ اسرائیلی فوج اسرائیلی فوج نے ہے کہ اسرائیل میں اسرائیل اسرائیل کے علاقوں میں نیتن یاہو حکومت کے کے مطابق ذرائع کے کا کہنا رہے ہیں شام کے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
سلامتی کونسل میں پاکستان کا مطالبہ: اسرائیلی جارحیت سے شامی خودمختاری کی خلاف ورزی روکی جائے؛ مؤثر اقدام کی ضرورت پر زور
سلامتی کونسل میں پاکستان کا مطالبہ: اسرائیلی جارحیت سے شامی خودمختاری کی خلاف ورزی روکی جائے؛ مؤثر اقدام کی ضرورت پر زور WhatsAppFacebookTwitter 0 11 April, 2025 سب نیوز
اقوام متحدہ، : پاکستان نے کہا ہے کہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملے، جن میں شام کے کئی مقامات بشمول شہری بنیادی ڈھانچے اور شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، نہ صرف عام شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنے بلکہ علاقائی و بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بھی ہیں۔
پاکستان نے کہا کہ ایسے اقدامات شام کی سیاسی استحکام اور قومی مفاہمت کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں، جو سلامتی کونسل اور عالمی برادری کی حمایت یافتہ ترجیحات ہیں۔
سلامتی کونسل کے شام پر منعقدہ اجلاس میں قومی بیان دیتے ہوئے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے زور دیا کہ سلامتی کونسل کو غیر قانونی فوجی اقدامات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ خطرناک مثالیں قائم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کو ایک واضح اور متحد پیغام دینا چاہیے کہ شام کی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کو معمول نہیں بنایا جا سکتا، اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کا مکمل احترام ہونا چاہیے۔
سفیر عاصم نے کہا کہ پاکستان کو اسرائیلی اقدامات کے وسیع تر علاقائی اثرات پر بھی شدید تشویش ہے اور خبردار کیا کہ اس قسم کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بڑے تصادم کو جنم دے سکتی ہے—جبکہ اس وقت ضرورت سفارت کاری، کشیدگی کے خاتمے اور تعمیر نو کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 14 مارچ 2025 کو جاری کردہ صدارتی بیان میں شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا اعادہ کیا گیا تھا اور تمام رکن ممالک سے ان اصولوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات اس متفقہ مؤقف کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
“کونسل کو فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے اور جواب دہی یقینی بنانی چاہیے،” انہوں نے زور دیا۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ ہم ایک نہایت تشویشناک رجحان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جو مسلسل اور بلا اشتعال اسرائیلی جارحیت، جنگ بندی معاہدے کی بار بار خلاف ورزی، علیحدگی کے علاقے میں غیر قانونی فوجی موجودگی، اور غیر معینہ مدت تک قبضے کے کھلے اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ شام کی وحدت، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اس صریحاََ نظر انداز کیے جانے کی واضح اور غیر مبہم مذمت ہونی چاہیے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کیا جانا چاہیے، اور واضح کیا کہ شام کے جولان علاقے پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے، جو سلامتی کونسل کی قرارداد 497 کے مطابق “کالعدم اور بے اثر” ہے۔
انہوں نے کہا کہ کونسل کو چاہیے کہ وہ اسرائیل سے مقبوضہ جولان کی مکمل واپسی کا مطالبہ کرے۔
سفیر عاصم نے شام کے لیے ایک شامی قیادت میں، شامی ملکیت پر مبنی سیاسی عمل کی پاکستان کی اصولی حمایت کا اعادہ کیا، جس کی بنیاد سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 میں دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں پائیدار امن ایک جامع سیاسی منتقلی، قومی اتحاد اور مفاہمت سے مشروط ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ “حالیہ پیش رفت — عبوری حکومت کی تشکیل، عبوری آئین کی منظوری، اور سویلین و عسکری اداروں کا انضمام — کو بیرونی فوجی مداخلت سے پٹری سے نہ اتارا جائے۔”
انہوں نے اسرائیلی حملوں کے انسانی نتائج کو تباہ کن قرار دیا اور کونسل کو یاد دلایا کہ پہلے ہی 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد انسانی امداد کے محتاج ہیں، اور ایسے میں شہری علاقوں اور بنیادی ڈھانچے کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا بحران کو مزید گہرا کرتا ہے اور بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا: “ہم نے یو ایس جی لیکروا (USG Lacroix) اور اے ایس جی خیاری (ASG Khiari) کی بریفنگ کو بغور سنا۔ یہ نہایت سنجیدہ نکات ہیں جن پر سلامتی کونسل کو مؤقف اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ اس کی اپیلوں پر عمل نہیں ہو رہا۔ ہم اس حوالے سے کونسل کے ارکان اور متعلقہ فریقین کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔”