بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے 300 ڈیفالٹرز کی فہرست طلب، حکومت بلوچستان کا بھی ڈیفالٹر ہونیکا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے 300 ڈیفالٹرز کی فہرست طلب، حکومت بلوچستان کا بھی ڈیفالٹر ہونیکا انکشاف nepra WhatsAppFacebookTwitter 0 25 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سب سے بڑے 300 ڈیفالٹرز کی فہرست طلب کر لی جبکہ اجلاس میں حکومت بلوچستان کا بھی ڈیفالٹر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
جنید اکبر کی زیر صدارت اجلاس میں خالد مگسی نے کہا کہ سب سے بڑی ڈیفالٹر حکومت بلوچستان خود ہے جبکہ شیر ارباب علی نے کہا کہ پاور سیکٹر کی ناکامی خالصتاً گورننسس کی ناکامی ہے۔
سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ ڈسکوز نے 162 ارب کی ریکوری کے ڈاکومنٹ جمع کروائے ہیں، واجبات کی وصول سے متعلق پیشرفت خود مانیٹر کروں گا۔
چیئرمین کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کو کل تک 162 ارب کی ریکوری کی تصدیق کی ہدایت کر دی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاور ڈویژن سے ڈسکوز کی ریکوری کی ماہانہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریکوری کے موجودہ طریقہ کار پر شدید سوالات بھی اٹھائے۔
خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ ڈسکوز کے پاس ریکوری کے موجودہ طریقہ کار کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
پی اے سی نے افسران کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: حکومت بلوچستان
پڑھیں:
پاور ڈویژن کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
فائل فوٹوتحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی و قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین ثناء اللّٰہ مستی خیل نے پاور ڈویژن کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کرائیں اور ذمے داری فکس کریں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پاور ڈویژن کے مالی سال 23-2022ء کے آڈٹ پیراز پر غور ہوا۔
اے جی پی آر حکام نے بتایا کہ پاور ڈویژن 2 ارب 75 کروڑ روپے کی گرانٹ استعمال نہیں کر سکا۔
ثناء اللّٰہ مستی خیل نے کہا کہ افسوس ناک ہے کہ پاور ڈویژن گرانٹ کو مکمل استعمال نہ کر سکا، یہ قومی اہمیت کا منصوبہ ہے، متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو لکھیں اور زمین حاصل کریں۔
شاہدہ اختر نے کہا کہ دھابیجی خصوصی اقتصادی زون کے لیے 90 کروڑ روپے استعمال نہیں کیے جا سکے۔
گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس(جی آئی ڈی سی) میں جمع 350 ارب روپے انفرااسٹرکچر کےلیے استعمال نہیں کیے جاسکے۔
سیکریٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ حیسکو رائٹ آف وے مسائل کی وجہ سے رقم استعمال نہ کر سکی، حیسکو کے 10 ٹاورز کے رائٹ آف وے معاملات حل نہیں ہوئے۔
سید نوید قمر نے سوال پوچھا کہ کیا حیسکو نے بغیر منظوری ہی امداد مانگ لی؟
حسنین طارق نے کہا کہ قومی مفادات کے لیے حکومت اختیارات استعمال کرتے ہوئے زمین حاصل کر سکتی ہے۔
جنید اکبر کا کہنا ہے کہ ایک طرف کہتے ہیں کہ فنڈز کی کمی ہے پھر اربوں روپے عدم استعمال پر واپس کیےجاتے ہیں۔
خواجہ شیراز نے کہا کہ یہ کس طرح کی گورننس ہے کہ رقم موجود ہے مگر منصوبے پر عمل درآمد ہی نہیں ہو رہا؟
ثناء اللّٰہ مستی خیل نے کہا کہ ایسا کرنے سے صرف منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ مالی امداد پر چلنے والے سب سے سست رفتار منصوبے پاور ڈویژن کے ہیں، منصوبوں میں بہتری کے بجائے مشکلات ہی بڑھی ہیں۔
سیکریٹری پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ پاور ڈویژن میں ترقیاتی منصوبوں کو زیادہ ترجیح نہیں دی جاتی تھی، اب اس کو تبدیل کیا گیا ہے، اب ہم نے اپنے سسٹم کو بہتر کیا ہے۔