وزیراعظم محمد شہباز شریف نے برآمدات بڑھانے کے اقدامات پر جائزہ اجلاس کے شرکا ء کو اگلے 5 سال میں ملکی برآمدات کو 60 بلین ڈالر تک لے جانے کے لیے جامع اور موثر حکمت عملی تشکیل دینے، معیشت کی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لیے ٹیرف کے نظام میں پائیدار اصلاحات متعارف کرانے اور ٹیرف کی شرح کو کم اور نظام کو عام فہم و سہل بنانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے سروسز، آئی ٹی اور زراعت کے شعبوں کو برآمدات بڑھانے کے لیے خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے برآمدی نوعیت کی صنعتوں کو فروغ دینے کی ہدایت کی ہے۔ ملک کو قرضوں اور عوام کو نت نئے ٹیکسوں کے بھنور سے نکالنے کا واحد راستہ برآمدات میں اضافہ کرنا ہے ،برآمدات میں جتنا زیادہ اضافہ ہو گا، ملک معاشی طورپر اتنا ہی زیادہ مستحکم ہوگا اور امورمملکت کی انجام دہی کیلئے عوام کا خون نچوڑنے کی ضرورت اتنی ہی کم ہوجائے گی جس سے عام آدمی کی زندگی آسان ہوجائے گی ، جہاں تک برآمدات میں اضافے کا تعلق ہے تو یہ کام محض زبانی جمع خرچ یا ہدایات دینے سے نہیں ہوسکتا ، برآمدات میں اضافہ کرنے کیلئے پہلے ملک میں وہ ماحول پیدا کرنا لازمی ہے جس کے تحت برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہو، اس کیلئے ضروری ہے کہ برآ مدی نوعیت کی اشیا تیار کرنے والی صنعتوں کو خصوصی سہولتیں مہیا کی جائیں، انھیں گیس ،بجلی اور پانی ان کی ضرورت کے مطابق بلا تعطل فراہم کیا جائے اور انھیں غیر ضروری ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تاکہ ان کی تیار کردہ اشیا عالمی منڈی میں ہم عصر ممالک کی تیار کردہ اشیا کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں، دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ برآمدات میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے اور روایتی اشیا کی برآمدات پر اصرار کرنے کے بجائے برآمدات کے غیر روایتی راستے تلاش کئے جانے چاہئیں جس میں دوسرے ملکوں سے مقابلہ نسبتاً کم ہو،اللہ تعالیٰ نے ہمارے وطن کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جس میں حسین پہاڑ، جھیلیں، اور دلکش وادیاں شامل ہیں۔ یہ قدرتی وسائل ہمارے وطن کی معیشت کو مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دنیا کے جو بھی ممالک اس طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، وہ ان کا بھرپور فائدہ اٹھا تے ہوئے آج ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔قدرتی خوبصورتی سے مالایہ ممالک اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے مختلف حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ان حکمت عملیوں میں سیاحت کوفروغ دینے کی کوششوں کی الگ اہمیت ابھر کرسامنے آئی ہے۔ دنیا کے بہت سے کم وسیلہ ممالک نے سیاحت کو صنعت بناکر اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، جس سے ان کی معیشت میں استحکام آیا ہے۔جس کی زندہ مثال ملائشیا کی ہے، جس کی سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کی معیشت کی ترقی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے۔ ملائشیا کی 14.
9 فیصد آمدنی سیاحت کی مرحون منت ہے، ملائیشیانے سیاحت کو فروغ دینے کے لئے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں، جن میں سیاحتی مقامات تک آمدورفت کی جدید سہولتوں کی فراہمی ، سیاحوں کیلئے ڈیوٹی فری اشیا اور دیگر سہولتوں کا انتظام شامل ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران امن و امان کی خراب صورتحال،دہشت گردی کے واقعات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے
پاکستان میں، خاص طور پر شمالی علاقوں میں، سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا تھا۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے اس شعبے کی بحالی اور سیاحت کو فروغ دینے کیلئے اقدامات شروع کر دیے ہیں سیاحت کے فروغ سے ایک طرف حکومت کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتاہے دوسری طرف سیاحوں کی آمد سے مقامی افراد کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں جس سے ان علاقوں میں غربت میں کمی کرنے میں مدد ملتی ہے اور خوشحالی آتی ہے ۔ پاکستان کے شمالی علاقوں جن میں سوات، ناران، کالام، چترال، اور دیر شامل ہیں کے خوبصورت سیاحتی مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں، لیکن سیاحت کے فروغ کی جانب سے حکومتی حلقوں کی بے اعتناعی اور سیاحت کے فروغ کیلئے قائم کئے گئے اداروں کے بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے سفارشی افسران فرض ناشناسی کے سبب اب تک پاکستان کی سیاحت کا عالمی سطح پر حصہ صرف 0.05 فیصد ہے، جبکہ دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کا حجم سالانہ 9 ٹریلین ڈالر سے زائد ہے۔ پاکستان کو قدرت نے بہترین سیاحتی مقامات اور موسموں سے نوازا ہے، ان قدرتی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس شعبے کو ترقی دے۔ اگرچہ حکومت نے حالیہ برسوں میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے مختلف اقدامات کیے ہیں، اور اس مقصد کیلئے گرین ٹورازم پاکستان کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس ادارے کو سیاحت کے فروغ کے لئے عالمی معیار کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے 150 ہوٹلز قائم کرنے کا ہدف دیا گیاتھا، لیکن اس ادارے کے بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے افسران اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے اپنے ایئر کنڈیشنڈ دفاتر سے باہر نکل کر حالات کا جائزہ لینے اور سیاحوں کو سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کا جائزہ لینے کو بھی تیار نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے150 ہوٹلوں کے قیام کے ہدف میں سے ابھی تک صرف 15 سے 20 ہوٹل مکمل ہو سکے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر ہوٹلوں میں وہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جن کیلئے انھیں ڈیزائن کیا گیاہے۔پاکستان گرین ٹورازم ان ہوٹلز میں فراہم کی جانے والی خدمات کا معیار بھی عالمی معیار کے مطابق بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے ،ظاہر ہے کہ جب سیاحوں کو معیاری سہولتیں نہیں ملیں گی تو وہ ملک میں آنے کے باوجود اپنی رہائش کی مدت میں اضافے کی جگہ کمی کرنے پر مجبور ہوگا اورسیاح اپنے قیام کی مدت میں جس قدر کمی کرے گا زرمبادلہ کی آمدنی اسی مناسبت سے کم ہوتی جائے گی ۔ پاکستان میں موجود تاریخی مذہبی مقامات خاص طور پر سکھ بدھسٹ اور ہندو برادری کے مقدس مقامات پاکستان کو مذہبی سیاحت میں اضافے کا بہترین وسیلہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ سکھ بدھسٹ اور ہندو برادری پاکستان میں موجود اپنے مذہبی مقامات کی زیارتوں میں گہری دلچسپی رکھتی ہے، ان مقامات پر زائرین کیلئے سہولتوں میں اضافے سے مذہبی زیارتوں کیلئے پاکستان آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوگااورمذہبی سیاحت کا فروغ نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ مقامی افراد کے لئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کرے گا۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور اپنی ترجیحات میں مذہبی سیاحت کو سرفہرست رکھنا چاہیے تاکہ اس شعبے سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں اب بھی ترقی کے لیے بے پناہ امکانات موجود ہیں، لیکن ارباب حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی واضح اور ٹھوس پالیسی نہ ہونے کے سبب ترقی کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت محض بیان جاری کر دیتی ہے لیکن ان بیانات سے ملک کی ترقی کی عکاسی نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم ،اور وزیرخزانہ سے لے کر نیچے کے ڈھولکیوں تک سب ہی بار بار یہ دعوے کررہے ہیں کہ حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں ملک میں اقتصادی ترقی ہورہی ہے اور اگر ایسا صحیح ہے اور واقعی ملک میں اقتصادی ترقی ہورہی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ غربت کا عفریت ہرسو کیوں نظرآرہاہے؟ اس صورت حال میں بعض معاشی ماہرین کا خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ دولت چند افراد کے گرد گھوم رہی ہے۔ اگر سرمایہ کاری ہوبھی رہی ہے تو فی الحال اس کے نتائج مثبت انداز میں سامنے نظرنہیں آرہے ہیں۔ بلکہ بیر وزگاری میں کمی ہونے کے بجائے بیروزگاری میں عملاً اضافہ ہوتا نظر آتاہے جس کا ثبوت نچلے درجے کی ایک ایک اسامی کیلئے ہزاروں درخواست گزاروں کی موجودگی اور ملازمتوں کی خریدوفروخت کے واقعات ہیں ، اس صورت حال میں یہی کہا جا سکتاہے کہ ملک میں روزگار کے جومواقع موجود ہیں وہ بھی مراعات یافتہ طبقے تک ہی محدود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار اور تنہائی کاشکار ہے۔ کیوں انہیں ایک طرف روزگار نہیں مل رہاہے تو دوسری طرف ان کی داد رسی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ یہ پاکستانی سماج کاافسوسناک منظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگار لوگوں کو سماج دشمن عناصر بہکاکر سمندری راستوں سے نوکری دلانے کیلئے لے جاتے ہیں جن میں اکثریت منزل پر پہنچنے سے قبل ہی سمندر برد ہوجاتے ہیں، یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔دوسری طرف آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن اس تناسب سے معاشی ترقی نہیں ہورہی ہے’ اور نہ روزگار کے ذرائع پیدا ہورہے ہیں، اس پس منظر میں غربت بتدریج بڑھ رہی اور عوام کے نچلے اور متوسط طبقے میں مایوسی گھر کررہی ہے۔ دراصل ملک کی ترقی حکومت کی معاشی پالیسیوں اورکرپشن کوختم کر کے ہی ہوسکتی ہے، لیکن چونکہ کرپشن میں ملوث مگرمچھوں کو مراعات یافتہ اشرافیہ کی آشیر باد حاصل ہے اس لئے نہ تو ملک سے کرپشن ختم ہونے کی کوئی امید ہے اور نہ ہی روزگار کے ذرائع پیدا ہورہے ہیں’ نئے کارخانے نہیں لگ رہے ہیں۔ حکومت محض بیانات داغتی رہتی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ٹھوس روڈ میپ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی عوام میں مایوسی بھی۔وزیراعظم اور وزیر خزانہ یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ مہنگائی کا گراف بہت نیچے آچکاہے لیکن حقیقت یہ کہ موسمی سبزیوں کے علاوہ کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی نہیں ہوسکی ہے ،یہاں تک کہ چینی کی برآمد کی اجازت دے کر اس کی قیمتوں کو بھی آسمان پر پہنچا دیا گیاہے اور عام آدمی پریشان ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب شاید اس سال رمضان میں اسے شربت بھی میسر نہیں آئے گا۔ مہنگائی ابھی تک کم نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے کم ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں’ اگر حکومت مہنگائی روکنے کے سلسلے میں چیک اینڈ بیلنس کی حکمت عملی اختیار کرے اور طلب ورسد کے سیدھے سادے اصول کے مطابق اشیائے ضروریہ کی طلب ورسد کو متوازن بنا دیاجائے تو بہت حد تک مہنگائی میں واضح کمی ہوسکتی ہے لیکن ایسا کرنے کی صورت میں اشرافیہ اپنی اس ناجائز آمدنی سے محروم ہوسکتی جس کے ذریعے وہ اپنے محلات کی چکاچوند قائم رکھتی ہے۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ موجودہ حکومت کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرسکے گی اور وہ ایڈہاک کی بنیاد پر کام کررہی ہے’ ظاہر ہے کہ اس طریقہ کار سے اقتصادی ترقی کی مضبوط بنیاد قائم نہیں ہوسکتی ۔پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملک میں ان کی مرضی سے نوکریاں نہیں مل رہی جبکہ اثررسوخ رکھنے والے نوجوان آسانی کے ساتھ پرکشش ملازمتیں حاصل کرلیتے ہیں جو مناسب بات نہیں ہے اور نہ ہی مناسب طریقہ کار ہے۔ پاکستان میں سرمائے کی کمی نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داروں نے حکومت کے ایڈہاک ازم کی وجہ سے اپنا پیسہ روک رکھاہے، یا پھروہ اپنے اس سرمائے سے جو اس ملک کے لئے بہتری پیداکرسکتاہے بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں’ اور اس ملک کے عوام کا خون نچوڑ کر جمع کئے گئے اس سرمائے کا فائدہ غیر ممالک کے عوام اٹھارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی دعووں کے باوجود پاکستان ابھی تک معاشی طورپر ٹیک آف نہیں کرسکاہے۔ اور نہ ہی پاکستان سے غربت کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ پاکستان میں ترقی معکوس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سفارش کے ذریعے نوکری حاصل کرنے والے اکثر نااہل اور خوشامدی ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کسی بھی ادارے کے لیے کارکردگی کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے۔ جب تک پاکستان میں سفارشی کلچر ختم نہیں ہوگا، حق دار کو اس کا حق نہیں ملے گاملک ترقی کی پٹری پر واپس نہیں آسکے گا۔اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہنر مند افراد کی عزت کرتے ہوئے ان سے ملک کی معیشت کو ترقی دینے کے سلسلے میں موقع دیا جائے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ:
سیاحت کے فروغ
کو فروغ دینے
فروغ دینے کی
برآمدات میں
پاکستان میں
سیاحوں کی
روزگار کے
میں اضافہ
میں سیاحت
میں اضافے
سیاحت کو
کی معیشت
کے مطابق
ملک میں
ترقی کی
کی ترقی
کے لئے
ہے اور
کے لیے
پڑھیں:
امریکا نے پاکستان کیلئے 397 ملین ڈالرز سمیت منجمد فنڈز میں سے 5 ارب ڈالرز جاری کردیے
واشنگٹن:ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے غیر ملکی امداد کے منجمد فنڈز میں سے 5.3 ارب ڈالر جاری کر دیے ہیں، جاری فنڈز میں پاکستان میں امریکی حمایت یافتہ پروگرام کیلئے397 ملین ڈالر بھی شامل ہیں۔
امریکی کانگریس عہدیدار کے مطابق امریکی حمایت یافتہ پروگرام پاکستان کے ایف 16 طیاروں کے استعمال کی نگرانی سے متعلق ہے، نگرانی میں یقینی بنایا جاتا ہے کہ ایف 16 طیارے انسداد دہشتگرد آپریشنز میں استعمال ہوتے ہیں نہ کہ بھارت کے خلاف۔
خبر ایجنسی کے مطابق یو ایس ایڈ کے پروگراموں کے لیے 100 ملین ڈالر سے کم فنڈز جاری کیے گئے۔ امریکا کی جانب سے جاری کیے گئے زیادہ تر فنڈز سیکیورٹی، انسداد منشیات کی مد میں جاری کیے گئے، جاری فنڈز میں انسانی امداد کا حصہ بہت محدود ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد غیر ملکی امداد روکنے کا حکم دیا تھا۔