Express News:
2025-02-25@01:27:48 GMT

ماہ صیام کی تیاری

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

ماہ صیام کی آمد آمد ہے، اس کے لیے ہمیشہ کی طرح لوگوں کا جوش وخروش عروج پر ہے۔ مسلمان اس مقدس مہینے کا پورا سال انتظار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر رمضان المبارک میں یہ سوال درپیش ہوتا ہے کہ کھانے پینے میں ایسی کیا راہ اختیار کی جائے، جس سے سہولت حاصل  اور توانائی برقرار رہے۔ یہ وہ مہینا ہے جو ہمیں اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کا موقع دیتا ہے اور ہم اس سے اپنی برکتیں مانگ سکتے ہیں۔

روزوں کے بھرپور اہتمام کے دوران آپ کو رمضان کے دوران مختلف غذائیت بخش غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے، جو آپ کو توانائی دیں اور اسی توانائی کو افطار تک برقرار رکھ سکیں۔ ہم سَحری میں صحت مند غذا کو وزن کم کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رمضان ہمیں وزن کم کرنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ سَحری کے کھانے میں کھجوروں کا استعمال ضرور کریں۔ ساتھ ہی تلی ہوئی چیزوں کے بہ جائے اپنی غذا کو پھلوں اور سبزیوں سے متوازن کریں، سلاد ضرور لیں۔ یہ غذائیت، آئرن، وٹامن، میگنیشیم، زنک، فولک ایسڈ وغیرہ سے بھرپور ہیں۔

آپ پھلوں اور سبزیوں کی مکس سلاد بھی بنا سکتی ہیں، جو آپ کو پورے دن کے لیے توانائی فراہم کرے گی۔ سورج کی گرمی آپ کو تھکاوٹ کا شکار کر سکتی ہے اگر آپ وٹامنز کی مقدار کا خیال نہیں رکھیں گے۔ جو لوگ کولیسٹرول کی زیادتی کا شکار نہیں، وہ رمضان میںپراٹھا اپنی غذا میں شامل کر سکتے ہیں۔ مکمل گندم کے آٹے کا پراٹھا فائبر سے بھرپور ہوتا ہے۔ ہم اسے دل کے لیے صحت بخش غذا کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ اس میں فائبر، پروٹین، آئرن، میگنیشیم وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔

کیلے پوٹاشیم، وٹامن سی اور میگنیشیم سے بھرپور ہوتے ہیں، جو جسم کی توانائی کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ رمضان میں آنتوں کی صحت بہت ضروری ہوتی ہے، ورنہ تھکان ہونے لگتیہے۔ کیلا آپ کے جسم کو حل پذیر اور غیر حل پذیر فائبر فراہم کرتا ہے تاکہ آپ کی آنتیں صحت مند رہیں۔

قدرت کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں۔ خشک میوہ جات ایک نعمت ہیں، جو بہت کم مقدار میں بھی شاندار فوائد فراہم کرتے ہیں۔ موسم اجازت دے تو خشک میوہ جات کو گرم دودھ کے ساتھ نوش فرمائیں، یہ ایک بہترین امتزاج ہوگا اور آپ کو تھکاوٹ سے نجات دے گا۔ انڈے دنیا کے سب سے پروٹین سے بھرپور غذاؤں میں شامل ہے۔ آپ انڈے کا آملیٹ بنا سکتی ہیں، جس میں سبزیاں بھی شامل کر سکتے ہیں۔ ابلے ہوئے انڈے اور سلاد بھی آپ کی توانائی کو بڑھانے کا بہترین طریقہ ہیں۔ انڈے آپ کی بھوک کو پورا کرتے ہیں اور آپ کو پورے دن کے لیے بھرے رہنے کا احساس دیتے ہیں۔

رمضان المبارک میں عموماً ہمیں افطار میں تلی ہوئی خوراک اور سوڈا مشروبات پسند ہوتے ہیں، یہ ہمارے جسم پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہم روزہ کھولنے کے لیے کھجوریں کھاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ سلاد جسم میں شکر کی سطح کو متوازن رکھ سکتا ہے۔ آپ اپنی افطار کی میز پر کچھ مزے دار کھانے ضرور شامل کر سکتے ہیں، جن میں سبزیاں اور گوشت شامل ہو۔ پالک آئرن سے بھرپور ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص توانائی میں اضافے کا خواہش مند ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کھانے میں پالک استعمال کرے۔ جسم میں آئرن کی کمی دماغ میں آکسیجن کے بہاؤ کو کم کر دیتی ہے اور انسان تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ توانائی کی کمی سے بچنے کے لیے کھانے میں کچھ پالک شامل کریں۔

آدھی پیالی چنے کھانے سے جسم کو 15 گرام پروٹین کے ساتھ ساتھ فیٹس بھی ملتی ہیں جو کہ دل کی صحت کے لیے اہم ہیں۔ چنے کو سلاد میں شامل کیا جا سکتا ہے اور بھوننے کے بعد توس کی جگہ بھی لے سکتے ہیں۔ لیموں، پانی اور پودینے کے پتوں سے مشروب بہت مفید ہے، جسے افطار کے دوران پیا جا سکتا ہے۔ یہ وٹامن سی اور فائبر سے بھرپور مشروب ہے اور آپ اس مرکب میں ایک چمچا شہد بھی شامل کر سکتے ہیں۔ اس مشروب کا ایک گلاس دن بھر کے روزے کے بعد آپ کو صحت یابی اور توانائی دینے کے لیے کافی ہے۔ آپ 10 سے 12 بادام ایک پیالی پانی میں رات بھر بھگو دیں، سَحری میں بادام چھیل لیں۔ اس کے بعد دودھ کو بھگوئے ہوئے بادام، ایک چمچا شہد، اور الائچی کے ساتھ ملالیں۔ یہ مشروب غذائی فوائد سے بھرپور ہے، جو آپ کو اگلے دن روزہ رکھنے کے لیے درکار توانائی فراہم کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شامل کر سکتے ہیں سے بھرپور کرتے ہیں کے ساتھ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی کی ویلیو بہت کم ہے‘ ایک ڈالر کے تیرہ ہزار8سو سم ملتے ہیں‘ آپ سو ڈالر تبدیل کرائیں تو آپ کو تیرہ لاکھ اسی ہزار سم مل جائیں گے‘ پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی تنخواہیں ڈیڑھ سے دو سو ڈالر ہیں لیکن اس کے باوجود ازبکستان کے لوگ مطمئن ہیں۔

ان کے چہروں پر آسودگی‘ اطمینان اور سکون نظر آتا ہے‘ آپ کوپورے ملک میں بھکاری دکھائی نہیں دیتے‘ لوگ کسی کو دھوکا نہیں دیتے‘ ریستورانوں میں ٹپ کا رواج نہیں‘ ہم نے دو تین بار ویٹروں کو ٹپ دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے رقم لوٹا دی۔

ہوٹل سستے‘ ریستوران بہت اچھے اور ٹیکسیاں عام ہیں‘ عام شہری سیاحوں کو دیکھ کر گاڑی روک لیتے ہیں اور سیاحوں کو پندرہ بیس ہزار سم میں منزل پر پہنچا دیتے ہیں‘ عورتیں کام کرتی ہیں‘ ہم نے خوانچہ فروشی سے لے کر آفس تک خواتین کو کام کرتے دیکھا۔ 

ازبکستان میں انگریزی جاننے والے لوگ بہت کم ہیں لیکن اس کے باوجود کسی کو احساس کمتری نہیں‘ ہم ازبکستان میں غربت کے باوجود اطمینان دیکھ کر حیران رہ گئے‘ ریسرچ کی تو چار وجوہات سامنے آئیں‘ پہلی وجہ لاء اینڈ آرڈر تھی‘ ازبکستان میں ریاست کی گرفت بہت مضبوط ہے‘ حکومت قانون کی خلاف ورزی پر کسی کو رعایت نہیں دیتی‘ آپ نے قانون توڑا نہیں اور آپ جیل یا جلاوطنی کاشکار ہوئے نہیں۔ 

آپ ازبکستان میں مذہبی اختلاف اور سماجی تفاوت پر بات نہیں کر سکتے‘ عدالتیں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور معاشرے کا امن خراب کرنے والوں کے معاملے میں ریاستی اداروں کو سپورٹ کرتی ہیں‘ جج شدت پسندی پھیلانے والوں کو رعایت نہیں دیتے‘ پورا ملک اسلحے سے پاک ہے۔ 

پولیس کے ہاتھ میں بھی رائفل دکھائی نہیں دیتی‘ یہ بھی رائفل غلاف میں لپیٹ کر باہر لاتی ہے‘ ازبکستان میں اگر کسی کے پاس اسلحہ برآمد ہو جائے تو وہ عبرت ناک انجام کا شکار ہو جاتا ہے‘ ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی اس سے بالاتر نہیں اور ملک میں ایسے مافیاز اور کارٹلز کا نام و نشان نہیں جو نظریہ ضرورت‘ سیاسی افہام و تفہیم اور جمہوری اتحاد کو بنیاد بنا کر قانون کی ناک موڑ لیں۔

چناںچہ لوگ بے خوف اور بے خطر ہیں‘ آپ کسی کے دروازے پر دستک دیں وہ نہ صرف دروازہ کھولے گا بلکہ آپ کو گھر کے اندر بھی لے جائے گا اور اس وقت خواہ گھر میں خواتین اور بچوں کے علاوہ کوئی نہ ہو‘ یہ اطمینان اور یہ بے خوفی معاشرے میں قانون اور انصاف کی بالادستی کی دلیل ہے۔

دوسری وجہ روز مرہ کی اشیاء کی فراوانی اور سستا پن ہے‘ ازبکستان فروٹ پیدا کرنے والے دنیا کے چند بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے‘ اس کی چیری‘ خربوزہ‘ گرما‘ تربوز‘ آڑو‘ خوبانی اور سیب کا کوئی جواب نہیں۔

اناج‘ دالیں‘ سبزیاں اور گوشت بھی اضافی اور سستا ہے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فروٹ‘ ڈرائی فروٹ‘ اناج اور گوشت کی بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں اور ان میں اشیاء خورونوش پاکستان کے مقابلے میں تین سے چار گنا سستی اور انتہائی صاف ستھری ہیں۔ 

ریستوران بھی سستے ہیں‘ ازبکستان کے فائیو اسٹار ریستوران میں تین چار لوگ پچاس سے ستر ڈالر میں کھانا کھا سکتے ہیں اور یہ کھانا تین چار کورس میں ہوگا۔

تین‘ ازبک معاشرے میں توازن ہے‘ وہاں مذہبی طبقہ ڈنڈا لے کر پھر رہا ہے اور نہ ہی لبرل فاشسٹ لوگ سڑکوں پر ہیں‘ مسجد اور ڈسکو دونوں موجود ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو ڈسٹرب نہیں کرتے‘ مسجدیں بھی بھری ہیں اور ڈسکو میں بھی جگہ نہیں ملتی۔ 

حکومت نے معاشرے کو مذہبی فسادات سے بچانے کے لیے خصوصی بندوبست کر رکھے ہیں‘ آپ صرف مسجد یا پھر گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں‘ دفاتر اور کھلی جگہوں میں نماز کی ممانعت ہے‘ ازبکستان میں تبلیغ اور داڑھی پر بھی پابندی ہے‘ ملک کے زیادہ تر امام مسجد کلین شیو ہیں لیکن حکومت اب یہ پالیسی نرم کر رہی ہے۔ 

حکومت نے بخارا میں ایک مدرسہ قائم کر دیا ہے‘ اس میں دو سو طالب علم زیر تعلیم ہیں‘ یہ طالب علم تعلیم مکمل کرنے کے بعد مساجد سنبھالیں گے اور انھیں داڑھی رکھنے کی اجازت بھی ہو گی اور چوتھی وجہ‘ ازبکستان کے لوگ قناعت پسند ہیں‘ یہ بنیادی ضرورتوں تک محدود رہتے ہیں‘ دن کو کام کرتے ہیں اور شام کا وقت خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں۔

ازبکستان میں چائے خانوں میں بیٹھنے کا رواج عام ہے‘ ہر محلے میں ایک سرکاری چائے خانہ ہے جس میں محلے کے بوڑھے جمع ہو جاتے ہیں اور سارا دن تاش اور شطرنج کھیل کر گزار دیتے ہیں‘ ازبک لوگوں نے خود کو لالچ اور نفسا نفسی سے بچا رکھا ہے‘ یہ بے مہار معاشی دوڑ کا شکار نہیں چناںچہ ازبک معاشرے میں اطمینان بھی ہے اور سکون بھی۔

جب کہ ان کے مقابلے میں آپ پاکستانی معاشرے کو دیکھیں آپ کو ہر چہرے پر ٹینشن اور ڈپریشن نظر آئے گا‘ آپ غریب کے پاس بیٹھ جائیں یا کسی ارب پتی کے پاس وہ آپ کو شکوہ کرتا اور روتا دھوتا دکھائی دے گا‘ ہمارے ملک میں کوئی طبقہ ‘ کوئی کلاس خوش نہیں۔

لہٰذا ازبکستان کی مثال ثابت کرتی ہے اگر معاشرے میں لاء اینڈ آرڈر ہو‘ کھانے پینے کی اشیاء معیاری اور سستی ہوں‘ لوگوں میں توازن اور برداشت ہو اور یہ حرص اور لالچ سے پاک ہوں تو ملک میں اطمینان بھی آ سکتا ہے اور سکون بھی اور اس کے لیے رقم چاہیے اور نہ ہی کوئی ترمیم‘ آپ بس سرکاری مشنری کو ایکٹو کر دیں‘ میرٹ کا خیال رکھیں اور لوگوں کی تربیت کریں ‘ ملک جنت بن جائے گا۔

مجھے ازبکستان کی دو روایات نے زیادہ متاثر کیا‘ پہلی روایت ان کی شادی بیاہ کا سسٹم ہے‘ یہ ہماری طرح جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں‘ بڑوں کا احترام کیا جاتا ہے‘ گھر کے بڑے مرد جب تک پلیٹوں میں کھانانہ ڈال لیں خواتین اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتیں۔ 

ہماری طرح ان کی شادی کی رسمیں بھی کئی دنوں تک چلتی ہیں لیکن ان کی ایک روایت ہم سے مختلف بھی ہے اور دل چسپ بھی‘ نکاح کے دن دلہے کے کنوارے دوست اپنی اپنی گاڑیاں لے کر دلہن کے گھر آتے ہیں‘ ان گاڑیوں میں کنوارے دوست کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔

یہ لوگ دلہن کو لے کر شادی ہال کی طرف نکلتے ہیں تو دولہے کے دوستوں کی گاڑیوں میں دلہن کی کنواری سہیلیاں بیٹھ جاتی ہیں اور یوں دلہن کے گھر سے لے کر شادی ہال تک نئے رشتوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے‘ رشتہ گھر کے بڑے طے کرتے ہیں لیکن لڑکی اور لڑکے کی رضامندی کو سو فیصد اہمیت دی جاتی ہے۔

ازبکستان کی دوسری روایت کا تعلق سیاحوں سے ہے‘ ازبکستان میں سیاح صرف ہوٹل میں رہ سکتے ہیں‘ یہ کسی کے گھر اقامت اختیار نہیں کر سکتے اور اگر کریں تو صاحب خانہ اس کی اطلاع پولیس اسٹیشن میں دینے کا پابند ہے۔ 

ہوٹل کی انتظامیہ ہوٹل چھوڑنے پر سیاح کی آن لائن رجسٹریشن کرتی ہے‘ سیاح اس کے بعد جہاں جاتا ہے یہ ریاست کی نظروں کے سامنے رہتا ہے‘ ازبک حکومت اس بندوبست سے ملک میں داخل ہونے والے تمام غیر ملکیوں کی حرکات پر نظر رکھتی ہے چناںچہ یہ لوگ جاسوسوں سے بچے ہوئے ہیں‘ ازبکستان میں ہر چیز سرکاری کنٹرول میں ہے‘ آپ حکومت کی اجازت کے بغیر جلسہ کر سکتے ہیں‘ جلوس نکال سکتے ہیں اور نہ ہی تقریر کر سکتے ہیں۔

پاکستان اور ازبکستان کے درمیان صدیوں کا رشتہ ہے‘ ہماری زبان کے تیس فیصد الفاظ ازبک ہیں‘ ہمارے کھانوں‘ لباس اور فیملی سسٹم میں ازبکستان کی خوشبو موجود ہے‘ ازبکستان جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان کے قریب ہے۔

ہم لاہور سے صرف اڑھائی گھنٹے میں تاشقند پہنچ جاتے ہیں‘ ازبکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارتی تنہائی کا شکار بھی ہے‘ یہ روس سے خوش نہیں‘ تاجکستان کے ساتھ اس کے آبی اختلافات ہیں‘ افغانستان کے طالبان بھی اسے تنگ کرتے رہتے ہیں۔ 

ازبک معاشرے میں امریکا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور بھارت بھی اس کا اعتماد کھو چکا ہے چنانچہ ہم اس صورتحال میں ازبکستان کے دوست بن سکتے ہیں‘ ازبکستان کو سمندر تک رسائی چاہیے‘ ہم اگر تھوڑا سا حوصلہ کریں‘ افغانستان اور ازبکستان کو میز پر بٹھائیں اور ترمز سے مزار شریف اور مزار شریف سے گوادر تک سڑک کھول دیں توازبکستان‘ افغانستان اور پاکستان تینوں خوش حال ہو سکتے ہیں۔ 

ہم ازبکستان کو گوادر تک رسائی دے کر اس سے گیس‘ بجلی اور اناج لے سکتے ہیں‘ ازبکستان کی عمر بمشکل 34 سال ہوئی ہے‘ اسے ترقیاتی کاموں کے لیے بیرونی ہاتھ چاہیے‘ ہم ازبکستان سے اپنے سفارتی رشتے مضبوط کر لیں تو ہمارے ہنر مند اور کمپنیاں ازبکستان میں بہت کام کر سکتی ہیں۔ 

ازبکستان ترکی کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جسکے عوام پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں‘ یہ ہمیں حاجی سمجھ کر ہمارے ہاتھ چومتے ہیں‘ ہم اس عقیدت‘ اس محبت کو سفارتی تعلق میں تبدیل کر سکتے ہیں‘ ہمارے سامنے تعلقات کا پورا سمندر کھلا پڑا ہے‘ ہم اگر اس میں غوطہ نہیں لگاتے تو ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا‘آپ یاد رکھیں قدرت بے وقوف انسانوں کو تو معاف کردیتی ہے لیکن یہ بے وقوف قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور ہم ازبکستان کو دوست نہ بنا کر بے وقوفی کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مولانا فضل الرحمان نے بے گھر فلسطینیوں کی مدد کے لیے ہم وطنوں سے بھرپور تعاون کی اپیل کردی
  • حسن نصراللہ کی نماز جنازہ کی تیاری مکمل، ہزاروں افراد بیروت پہنچ گئے
  • ازبکستان (مجموعی طور پر)
  • وزیراعظم شہباز شریف کا آئندہ ہفتے وسطی ایشیا کا اہم دورہ، تیاری آخری مراحل میں داخل
  • کوئی احتجاج نظر نہیں آرہا گرینڈ الائنس میں شامل تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں، فیصل واوڈا
  • گرینڈ الائنس میں شامل تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں، ایک سمجھوتے کے تحت پی ٹی آئی والے بانی کو جیل میں رکھے ہوئے ہیں ، فیصل وائوڈا
  • جدید ٹیرف، گورننس ریفارمز پاور سیکٹر کو بحال کرنے میں مدد کر سکتے ہیں. ویلتھ پاک
  • کوئی احتجاج نظر نہیں آرہا گرینڈ الائنس میں شامل تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں، فیصل واوڈا
  • پی یو جے کا لاہور پریس کلب میں پیکا ایکٹ کیخلاف بھرپور احتجاجی مظاہرہ