Express News:
2025-02-25@01:09:00 GMT

ہم۔۔۔ پان کا پتا اورکتھا

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

پچھلے مہینے ہمارے میاں صاحب ایک دفتری دورے پر کراچی گئے، تو واپسی پر ہم سے پوچھا کہ آپ کے لیے کیا لاؤں؟ ہم نے جھٹ فرمائش جڑ دی کہ ’’پان دان۔۔۔!‘‘

انھیں حیرت ہوئی، لیکن اس سے خاص دل چسپی نہ ہونے کے باوجود انھوں نے منع نہیں کیا اور اگلے دن ’پان دان‘ ہمارے چَرنوں میں موجود تھا۔ دراصل ہم برس ہا برس سے ایک روایتی بھاری بھرکم ’پان دان‘ کے لیے ترس رہے تھے۔ ہم نے اس کی ملکیت کے لیے کئی بار قصداً خواب دیکھے اور کئی بار عملی کوششیں کیں۔ کئی نایاب چیزوں کے لیے معروف ’کباڑیے‘ بھی دیکھ لیے، لیکن ایک بھی کوشش بار آور ثابت نہ ہو سکی تھی، سو ہم نے کراچی میں مروّج پان دان پر اکتفا کرنے کا ارادہ کر لیا۔۔۔ کراچی میں اسٹیل کے ہلکے پھلکے پان دان انتہائی مناسب قیمت میں مل جاتے ہیں، کیوں کہ وہاں اب بھی علامتی طور پہ  بیٹیوں کو جہیز میں پان دان دینے کا رواج ہے۔ جس کی اگر  کیمرا ٹِرکس کے ساتھ تصویر لیجیے، تو یہ اپنے بھاری ہونے کا تاثر بھی دینے لگتے ہیں، سو، ہماری فرمائش پر کراچی سے یہ ’پان دان‘ آگیا۔

پڑھنے والے سوچتے ہوں گے کہ ہم پنجابی ہیں، تو ’پان دان‘ سے ہمارا تعلق کیسے بھلا۔۔۔؟ کچھ تعلق جذباتی لگاؤ  کے سبب بھی ہو جاتے ہیں، اس لیے پان اور ’پان دان‘ سے ہمارا لگاؤ قلبی اور بہت جذباتی سا ہے۔۔۔ ہمارے بچپن میں ابّا کی ایک چچی ہمارے گھر آیا کرتی تھیں، جنھیں ہم سب بہن بھائی ’غرارے والی دادی‘ کہتے تھے۔

وہ گرمیوں میں عام طور پر سفید خوب صورت گھیرے دار غرارے اور سفید دوپٹے پر گلاس نائیلون کی چوڑی بیل والے دوپٹے پہنتی تھیں اور شادی کی تقریبات میں بنارسی اور چٹا پٹی کے غرارے زیب تن فرماتیں۔ ہم نے مختلف شادیوں میں دو چار بار ہی انھیں دیکھا، جتنا دیکھا ویسا ہی یاد ہے۔

ان کے ساتھ ساتھ ان کا ’پان دان‘ بھی ہوتا تھا۔ ’غرارے والی دادی‘ بڑی خوش مزاج شخصیت کی مالک تھیں، پلنگ پر تکیہ لگا کے بیٹھتیں، اپنی ذات میں انجمن۔۔۔ ارد گرد مقناطیس کی سی کشش رکھتیں، ہر کوئی ان کی جانب کھنچا چلا آتا اور وہ مزے سے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں کر لیا کرتیں، دن میں کئی بار چھوٹے چھوٹے خوش بودار پان بنا کے کھاتیں اور ساتھ بیٹھی ہوئی خواتین کے لیے بھی فرمائشی پان بنا بنا کر کھلاتیں۔ جیسے خوش بو دار پان ہوتے، بالکل ایسی ہی خوب صورت اور خوش بو دار گفتگو بھی کرتی تھیں۔۔۔ یوں لگتا جیسے ان کے ’پان دان‘ میں ہزاروں بے فکر اور خوش باش کہانیاں بند ہیں، جو ہر بار اس کا ڈھکنا کھولے جانے سے ایک نیا جنم لے لیتی ہیں۔

ان کا ’پان دان‘ منقش اور خوب بھاری سا تھا، گلٹ کا تھا یا چاندی کا۔ یہ تو ہمیں علم نہیں، لیکن اس ’پِِٹاری‘ کا ڈھکنا کھولتے ہی گردو پیش میں سونف، چھالیا اور الائچی اور کتھے جیسے پان کے بنیادی لوازمات کی ملی جلی محسور کُن خوش بو پھیل جاتی تھی۔ یہ ہمارا انتہائی کم سنی کا زمانہ تھا، لیکن ’غرارے والی دادی جان‘ کی مقناطیسی شخصیت یاد کے دھیان میں کامل مجسم رہی ہے۔ دراصل ابا کی چچی لکھنؤ سے تھیں اور لکھنوی تہذیب و ثقافت کی مکمل آئینہ دار تھیں۔

بیاہ کر وہ پنجاب آگئیں، ہمارے چھوٹے دادا ’بیوروکریٹ‘ تھے، جن کی اُس زمانے میں ہندوستان میں کہیں پوسٹنگ بھی ہوئی تھی، اب اُن کی شادی کیسے ہوئی۔۔۔؟ اس حوالے سے ہمارے خاندان کی تاریخ خاموش ہے، مگر پھر وہ  تمام زندگی پنڈی اور اسلام آباد میں رہیں۔ ان کی اولادیں بھی اب یہاں اسلام آباد میں ہی مقیم ہیں اور بہت سے کلیدی عہدوں پہ فائز ہیں۔

پان سے ہمارا دوسرا جذباتی لگاؤ اپنے ابّا کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ابّا بھی پان کھاتے تھے۔ ہمیں اپنے ابّا سے بے پناہ محبت تھی، جب تک ابا گھر میں رہتے، ہم ان کے گرد ہی کسی پروانے کی طرح موجود رہتے۔ ابّا پان کھانے کا شوق رکھتے تھے، لیکن ہماری والدہ یہ پسند نہیں کرتی تھیں، سو جھوٹ موٹ ڈر کے وہ تھوڑی بہت احتیاط کرتے تھے۔ اس لیے ہمارے گھر میں ’پان دان‘ نہیں تھا، بس ’ڈھاکا پان ہاؤس‘ والا پانچ چھے پان کی گلوریاں بنا کے ایک لفافے میں ڈال کے ’چھوٹے‘ کے ہاتھ ہمارے گھر بھجوا دیتا تھا۔ کبھی کبھار یہ ’سروس‘ یعنی ’ہوم ڈیلیوری‘ شام کو بھی ہوتی تھی کہ ’’ابھی تازہ تازہ مال آیا ہے، اس لیے تازہ بھیج رہا ہوں۔۔!‘‘

مہینے کے مہینے اس کے پانوں کا حساب چُکتا کیا جاتا۔۔۔ ہمیں ابّا کے پان چبانے کا انداز بے حد پسند تھا، ایک بار پان کا لفافہ  انگیٹھی پہ ہی پڑا رہ گیا، ہوا یوں کہ ’پنواڑی‘ نے نئے پان بھیج دیے تھے، سو ہم نے انگیٹھی والا لفافہ اپنے قبضے میں کر لیا کہ ابّا تو بھول گئے ہیں، آج ہم بھی اپنے ابا کے ’اسٹائل‘ میں پان کھائیں گے۔ سو ہم نے ’پدرانہ انداز‘ میں ایک پان  اپنے کّلے میں دبا لیا، اس کے بعد یہ ہوا کہ یک دم سر چکرانے اور دل گھبرانے لگا، کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ہم تازہ ہوا کے لیے ’ٹیوب ویل‘ کے حوض کنارے جا بیٹھے۔۔۔ لیکن یہاں گھومتے سر  اور چکروں کے اگلے پھیر میں ’غڑاپ‘ سے ’حوض برد‘ ہو گئے! وہ تو شکر ہے ایک ’کسان‘  وہیں موجود تھا، جس نے ہمیں بچا لیا ورنہ ہم نہ جانے کہاں جاتے۔۔۔ اس واقعے کے بعد والدہ ہم پر خوب ناراض ہوئی تھیں۔

اب کبھی ابّا کی یاد آئے، تو کبھی کبھی پان کے ہرے پتے کی خوش بو میں لپٹ کر یہ دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ یہ ہمیں بے تحاشا بے چین بھی کر دیتی ہے۔ بس اسی بے چینی کے لیے ہی ہم نے یہ ’پان دان‘ منگوایا تھا۔۔۔ اس لیے کبھی کبھار منہ میں خوش ذائقہ پان رکھ لیتے ہیں، کبھی باقاعدہ گلوری بنا بنا کے کھاتے ہیں اور اپنا بھولا بِسرا بچپن یاد کر لیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو پان کھانے کے آداب ہمیں معلوم نہیں ہیں، ہم تو مُنّا سا پان محبت سے  بنا کے تمیز سے کھا جاتے ہیں۔ ویسے بہت سے پان ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے لیے باقاعدہ ’اگال دان‘ کا اہتمام ہوتا ہے، جس پر کسی ناواقف نے کیا سادہ  تبصرہ کیا تھا کہ ’یہ لوگ تو تھوکتے بھی ’برتن‘ میں ہیں۔‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پان دان بھی ہو بنا کے اس لیے کے لیے

پڑھیں:

ہمارے نصاب میں بعض ایسی باتیں شامل کی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ہمارے نصاب میں بعض ایسی باتیں شامل کی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، جب تک تعلیم عام نہیں ہوگی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

خواجہ محمد صفدر میڈیکل کالج سیالکوٹ کے چوتھے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمارا جغرافیہ 1971 میں بدلا گیا اور نصاب 80 کے دہائی میں تبدیل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں پنجاب میں جماعت نہم اور گیارہویں کا تعلیمی نصاب تبدیل، نوٹیفکیشن جاری

وزیر دفاع نے کہاکہ میڈیکل گریجویٹس میڈیکل پروفیشن کی حرمت کی بحالی کے لیے حلف کی پاسداری کریں، میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے گریجویٹس کے لیے نیک خواہشات ہیں۔

انہوں نے کہاکہ 60 کی دہائی میں میرے والد خواجہ محمد صفدر نے یہ اسپتال بنوایا، وزیراعظم شہباز شریف نے مہربانی کرکے یہ میڈیکل کالج ہمیں دیا اور انہوں نے ہی اسپتال کا نام خواجہ محمد صفدر میڈیکل کالج رکھا۔

خواجہ آصف نے کہاکہ شہر کی آبادی اور ضروریات کے لیے اسپتال ناکافی ہے، نئے اسپتال کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے درخواست کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ چوکوں اور چوراہوں میں ڈاکٹروں کے لگے اشتہارات میڈیکل پروفیشن کی حرمت کے برعکس ہیں، ڈاکٹرز کے اشتہارات کے لیے کوڈ ہونا چاہیے۔

خواجہ آصف نے کہاکہ ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں شفا ہی اس کا سب سے بڑا اشتہار ہے۔ سرکاری اسپتال کے سامنے نجی اسپتالوں کا ہجوم میرے خیال میں اسٹینڈرڈ پورا نہیں کررہے اس کو بند ہونا چاہیے، نیا اسپتال بنانا میری ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہاکہ مقامی بزنس کمیونٹی نے جو کام کیے ہیں وہ دوسرے شہروں کے لوگ نہیں سوچ سکتے، یہ کمرشل لیول کی اسپتال فیسیلٹی بنائیں میں ساتھ دوں گا۔

یہ بھی پڑھیں طاقت کے تمام مراکز کو مل کر ملک کے حالات بہتر بنانے چاہییں، وزیر دفاع خواجہ آصف

انہوں نے کہا کہ سیاست سے ہمارا دو نسلوں کا تعلق ہے، کوشش ہے شہر کو ہر لحاظ سے خود کفیل بنائیں، موٹروے سیالکوٹ سے کھاریاں تک جلد فعال ہو جائےگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اشتہار حقائق خواجہ آصف ڈاکٹرز سیاستدان نصاب وزیر دفاع وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ہمارے نصاب میں بعض ایسی باتیں شامل کی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • ہمارے نصاب میں بعض ایسی باتیں شامل کی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • ایران کیخلاف کسی حملے میں سہولت فراہم کرنیوالے دشمن شمار ہونگے، ایرانی جنرل
  • پہلے دن سے کہہ رہا ہوں سب ملکر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے،جسٹس امین الدین  کے ریمارکس
  • سید حسن نصر الله نے قدس کی راہ میں شہادت کی آرزو کو پا لیا، حماس
  • دینی مدارس کے اہداف و مقاصد
  • آئی ایم ایف کی چیف جسٹس سے ملاقات
  • حکومت منشیات کے عادی افراد کی آباد کاری کرے،رفیع احمد
  • دیامر کے لوگ ہمارے بھائی نہیں جان ہیں، ان کیلئے کٹ مرنے کو تیار ہیں، کاظم میثم