Express News:
2025-02-25@01:33:10 GMT

قرضہ غیر پیداواری مقاصد کیلیے ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

لاہور:

تجزیہ کار نوید حسین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ہم انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے تو خدا کا واسطہ ہے کہ حقیقت پسندانہ بات کیا کریں، ایسے سبز باغ نہ دکھائے جائیں، عوام کو حقیقت بتائی جائے کہ صورتحال کیا ہے اور ہم کس حد تک جا سکتے ہیں۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ اس کو قرضے لینے کی لت پڑی ہے مسلسل قرضے لیے جا رہے ہیں، آمدن بڑھانے اور خرچے کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔ 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ قرضہ پیداواری مقاصد اور سرمایہ کاری کے لیے ہو تو بہت اچھا ہوتا ہے لیکن غیر پیداواری مقاصد کے لیے ہو تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں، سیکیورٹی اخراجات کے لیے ہوں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

گزشتہ چھ دہائیوں سے تو ہم پھنسے ہی اس میں ہوئے ہیں، جاپانی قرضہ ہم پر بہت ہے جس کا ذکر بھی نہیں ہوتا کہ بھئی کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ 

تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت کے جو معاشی اعشاریے ہیں ان میں ایک بڑی بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور اس کی تائید بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی انڈروسمنٹ کی گئی ہے کہ پاکستان کے جو معاشی اعشاریے ہیں وہ بہتر ہوئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کے اثرات نچلی سطح تک عام آدمی پر کس طرح منتقل ہوں گے اور کب منتقل ہوں گے؟۔

تجزیہ کار شکیل انجم نے کہاکہ حکومت 7 سال کیلیے 1240 ارب روپے قرضہ لینا چاہ رہی ہے اس کا انٹرسٹ ریٹ چھ سے سات فیصد ہو گا، بنیادی طور پر یہ قرضہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے لیا جا رہا ہے، اس کیلیے حکومت نے پہلے کوشش کی اور آپ نے دیکھا کہ چھ آئی پی پیز کے ساتھ حکومت نے بات چیت کی معاہدے کیے،ان کی 400 ارب روپے کی کوئی ادائیگی ہے وہ بھی کر دی گئی ہے۔ 

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ جو موجودہ صورتحال ہے کہ کہہ رہے ہیں اکانومی بالکل ٹھیک ہے بات کہ آئی ایم ایف سے قرضے لیکر اکانومی کو اسٹیبل تو کیا ہے لیکن یہ اسٹیبل اس صورت میں ہوگی جب مستقل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنے وسائل جب گورنمنٹ چلنا شروع ہو جائے گی اور قرضوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا ابھی تک ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ کے لیے لیے ہو

پڑھیں:

پہلی ششماہی میں گردشی قرضہ 2.384 ہزار ارب روپے تک محدود

اسلام آباد:

حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران گردشی قرضہ 2.384 ہزار ارب روپے تک محدود کرنے میں کامیاب رہی ہے. 

تاہم پاور سیکٹر کو اب بھی اپنی نااہلی، بجلی چوری اور بلوں کی عدم ریکوری کی وجہ سے 158 ارب روپے کے نقصانات کا سامنا ہے.

وزارت توانائی کے ترجمان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ 158 ارب روپے میں سے 82 ارب روپے کے نقصانات صرف حیدرآباد اور سکھر پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں نے کیے ہیں. 

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت اپنی اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی سے ایک طے شدہ معاہدے کی وجہ سے حیسکو اور سیپکو کے بورڈز کو تبدیل نہیں کر رہی ہے، اس طرح ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ بنیادوں پر قمیتوں میں ہونے والا اضافہ پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی نااہلیوں اور پاور ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ کے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ضائع ہوگیا ہے،

پاور ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق جون 2024 میں گردشی قرضہ 2.393 ہزار ارب روپے تھا، جو کہ حکومت کی جانب سے 20 ارب روپے کی ادائیگی کے باجود دسمبر 2024 تک گردشی قرض میں صرف 9 ارب روپے کی کمی ہوئی اور یہ 2.384 ہزار ارب روپے ہوگیا.

اس طرح پہلی ششماہی کے دوران گردشی قرض میں 11 ارب روپے کا اضافہ ہوا، جبکہ آئی ایم ایف نے 461 ارب روپے تک کے اضافے کی اجازت دی تھی. 

اس طرح پاور ڈویژن نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، رپورٹ کے مطابق پاور کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے پہلی ششماہی کے دوران 106 ارب روپے کا نقصان ہوا، جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے. 

جبکہ بلوں کی عدم ریکوری کی وجہ سے 52 ارب روپے کا نقصان ہوا، اس طرح مجموعی طور پر 158 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، حکومت نے ماہانہ اور سہہ ماہی بنیادوں پر فیول ایڈجسٹمنص کی مد میں 67 ارب روپے اضافی جمع کیے جبکہ 140 ارب روپے دیگر ایڈجسٹمنٹس کی مد میں وصول کیے گئے. 

ترجمان وزارت توانائی ظفر یاب خان نے بتایا کہ حیسکو اور سیپکو کے نقصانات 158 ارب روپے میں سے 82 ارب روپے رہے، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 28 ارب روپے زیادہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم حیسکو اور سیپکو میں بھی آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی کیلیے کوشش کر رہے ہیں، واضح رہے کہ حکومت تمام پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیز کے بورڈز کو تبدیل کرچکی ہے، لیکن پیپلزپارٹی سے معاہدے کی وجہ سے ابھی تک حیسکو اور سیپکو کے بورڈز کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • عمران خان مزید 10 ماہ رہا ہوتے نظر نہیں آرہے، فیصل واوڈا کا دعویٰ
  • عمران خان مزید 10 ماہ قید رہا ہوتے نظر نہیں آرہے : فیصل واوڈا کا دعوی
  • گردشی قرضہ:حکومت کی بینکوں سے 1240 ارب روپے قرض لینے کی کوشش
  • معاشی ترقی کیلیے واٹر سکیورٹی ضروری ہے، پانی کا مسئلہ کوئی اکیلے نہیں سنبھال سکتا، رومینہ خورشید
  • معاشی ترقی کیلیے واٹر سیکیورٹی ضروری ہے، پانی کا مسئلہ کوئی اکیلے نہیں سنبھال سکتا، رومینہ خورشید
  • دینی مدارس کے اہداف و مقاصد
  • پہلی ششماہی میں گردشی قرضہ 2.384 ہزار ارب روپے تک محدود
  • بدنصیب اولاد اور سیاسی مسائل
  • ملکی مسائل کا حل انتہائی آسان ہے، آئین پر عمل کیا جائے: شاہد خاقان عباسی