تین دہشت گرد وزیرِ اعظم (حصہ سوم)
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
بیروت کا قصاب:ایریل شیرون ( مارچ دو ہزار ایک تا اپریل دو ہزار چھ ) اسرائیل کے گیارہویں وزیرِ اعظم رہے۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے دماغ میں کلوٹنگ کے سبب وہ کومے میں چلے گئے۔ان کی جگہ یہود اولمرٹ وزیرِ اعظم بنے۔ایریل شیرون کا کومے کی ہی حالت میں گیارہ جنوری دو ہزار چودہ کو پچاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
شیرون نے انیس سو ستتر تا دو ہزار تین مختلف حکومتوں میں آٹھ وزارتی قلمدان سنبھالے۔اس سے قبل پچیس برس کی فوجی خدمات کے سبب وہ اسرائیل کے سب سے مشہور جنرل قرار پائے اور ان کی بعض جنگی چالیں مغربی عسکری اداروں کے کورسز میں پڑھائی جاتی ہیں۔مگر عرب حلقے شیرون کو سب سے بڑا جنگی مجرم سمجھتے ہیں۔
ایریل شیرون کے والدین نے انیس سو بیس کے عشرے میں روس سے فلسطین کا رخ کیا اور شیرون وہیں ایک یہودی بستی کفر ملال میں چھبیس فروری انیس سو اٹھائیس میں پیدا ہوئے۔انھوں نے انیس سو اڑتالیس تا تہتر ہر جنگ میں حصہ لیا۔شیرون کو اسرائیلی فوج کے ایلیٹ کمانڈو یونٹ ایک سو ایک کا بانی سمجھا جاتا ہے۔اس یونٹ نے نہ صرف فلسطین بلکہ ہمسایہ ممالک میں متعدد کمانڈو کارروائیاں کیں۔
اس تناظر میں شیرون کی زندگی پر پہلا خونی دھبہ چودہ اکتوبر انیس سو تریپن کو لگا جب یونٹ ایک سو ایک نے فلسطین سے نکالے گئے پناہ گزینوں کی اسرائیل میں چوری چھپے واپسی روکنے کے لیے اردن کے زیرِ انتظام مغربی کنارے کے سرحدی گاؤں قبایا پر حملہ کیا۔اس حملے میں لگ بھگ چھ سو کمانڈوز اور فوجی شریک تھے۔ کمان میجر ایریل شیرون کے ہاتھ میں تھی۔
ستر سے زائد فلسطینی دیہاتی ، عورتیں اور بچے جو اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ان کے گھروں کو ڈائنامائٹ لگا کے اڑا دیا گیا۔بھاگنے والوں پر مورٹار گولے پھینکے گئے یا فوجی نشانچیوں نے شکار کیا۔ پینتالیس گھروں ایک اسکول اور مسجد کو اڑا دیا گیا۔ میجر شیرون نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’’ میں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرنے اور املاک تباہ کرنے کا حکم دیا تاکہ ہماری سرحدوں میں آنے والے دراندازوں کے لیے قبایا نشانِ عبرت بن جائے ‘‘۔
اس قتلِ عام کی خبر عام ہونے پر دنیا بھر میں اودھم مچ گیا۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس بہیمانہ واردات کی شدید مذمت کی اور ذمے داروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا۔امریکی محکمہ خارجہ نے علیحدہ سے مذمتی بیان جاری کیا اور کانگریس نے اسرائیل کی امداد کچھ عرصے کے لیے معطل کر دی۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے سفید جھوٹ بولا کہ اس کارروائی میں اسرائیلی فوجی نہیں بلکہ یہودی آبادکار ملوث تھے۔یہ آبادکار ایک یہودی عورت اور اس کے دو بچوں کے عربوں کے ہاتھوں قتل پر مشتعل تھے۔مگر اسرائیلی وزیرِ خارجہ موشے شارات نے کابینہ کے بند کمرے کے اجلاس میں کہا کہ ’’ جس طرح کی صفائی ہم پیش کر رہے ہیں دنیا ہم پر ہنس رہی ہے ‘‘۔ عملاً ایک بھی اسرائیلی فوجی معطل نہیں ہوا۔
شیرون نے اگست انیس سو تہتر میں فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی۔مگر چھ اکتوبر انیس سو تہتر کو چوتھی عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر انھیں طلب کر لیا گیا۔انھوں نے نہ صرف صحراِ سینا میں مصری فوج کی پیش قدمی روکی بلکہ نہر سویز کے دوسری جانب کمانڈو دستے اتار کے مصر کی تھرڈ اور فورتھ آرمی کو گھیرے میں لے کر اسرائیل کو بچا لیا۔یہ وہ وقت تھا جب شیرون اسرائیل کی سب سے مقبول شخصیت بن گئے۔جنگ کے بعد انھوں نے مینہم بیگن کے لیخود اتحاد میں شامل ہو کر وردی کے بجائے سوٹ پہن لیا۔
انیس سو ستتر میں مینہم بیگن کی کابینہ میں شیرون کو وزارتِ زراعت کا قلمدان ملا۔ انیس سو اکیاسی میں وہ وزیرِ دفاع بنا دیے گئے۔جون انیس سو بیاسی میں لندن میں اسرائیلی سفیر شولوم آروگو قتل ہو گئے۔اگرچہ اس قتل میں فلسطینیوں کا ابوندال دھڑا ملوث تھا۔مگر اسرائیل نے اس قتل کا ذمے دار پی ایل او کو قرار دیا اور بیروت سے پی ایل او ہیڈ کوارٹر کو فلسطینی قیادت سمیت اکھاڑ پھینکنے کے لیے لبنان پر بھر پور فوج کشی کر دی اور بیروت کو گھیرے میں لے لیا۔یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں کو لبنان چھوڑ کے تیونس میں پناہ لینا پڑی۔
ستمبر کے پہلے ہفتے میں اسرائیل نواز لبنانی صدر بشیر جمائل ایک بم دھماکے میں مارے گئے۔ ایریل شیرون نے فوراً بیان دیا کہ اس حملے کے پیچھے پی ایل او ہے۔حالانکہ یہ واردات بشیر جمائل کے ایک مخالف مسیحی دھڑے کا کام تھا اور اس میں کوئی فلسطینی ملوث نہیں تھا۔
اسرائیلی فوج جس نے بیروت کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔اس کی رضامندی سے بشیر جمائل کی فلانجسٹ ملیشیا نے کمانڈر ایلی ہوبیکا کی قیادت میں صابرہ اور شتیلا کے پناہ گزین کیمپوں میں سولہ تا اٹھارہ ستمبر کے تین دنوں میں ساڑھے تین ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔ایلی ہوبیکا بعد ازاں شام منتقل ہو گیا اور اسد حکومت کے زیرِ سایہ ایک کاروباری شخصیت بن گیا۔دو ہزار دو میں ایلی ہوبیکا قتل ہو گیا۔
اس قتلِ عام کے خلاف خود اسرائیل میں شدید ردِ عمل ہوا اور ’’ پیس ناؤ ‘‘ تحریک کے چار لاکھ حامیوں نے تل ابیب کی سڑکیں بھر دیں۔مظاہرین وزیرِ دفاع شیرون اور وزیرِ اعظم مینہم بیگن کے استعفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔مسلسل عوامی دباؤ کے سبب چیف جسٹس ایتزاک کہان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ عدالتی کمیشن بنا۔کمیشن کی رپورٹ میں ایریل شیرون کو اس قتلِ عام کا براہ راست اور وزیراعظم بیگن کو بلاواسطہ ذمے دار قرار دیا گیا۔شیرون نے بطور وزیرِ دفاع تو استعفیٰ دے دیا مگر کابینہ میں انھیں وزیرِ بے قلمدان کے طور پر برقرار رکھا گیا۔( جون دو ہزار ایک میں قتلِ عام میں مرنے والوں کے کچھ ورثا نے بلجیئم کی ایک عدالت میں شیرون کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا۔عدالت نے شیرون پر جنگی مجرم کی فردِ جرم عائد کرنے کی اجازت دے دی )۔
مگر بیگن حکومت کے بعد آنے والی حکومتوں میں شیرون تجارت و صنعت ، ہاؤسنگ اور خارجہ امور کے وزیر رہے اور پارلیمنٹ کی خارجہ اور دفاع کی قائمہ کمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔انیس سو ننانوے میں شیرون لیخود پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔اور پھر ایک اور سابق جنرل یہود براک کو ہرا کے وزیرِ اعظم بن گئے۔
وزیرِ اعظم بننے سے پہلے ایریل شیرون نے اٹھائیس ستمبر سن دو ہزار کو لگ بھگ ایک ہزار پولیس والوں اور ہزاروں حامیوں کے گھیرے میں مسجدِ اقصی کمپاؤنڈ کا دورہ کیا۔اس اشتعال انگیزی کے سبب دوسرا فلسطینی انتفادہ شروع ہوا جو شیرون کی وزارتِ عظمی کے دوران شد و مد سے جاری رہا۔
ستمبر دو ہزار ایک میں شیرون نے غزہ سے فوجی قبضے اور یہودی بستیوں کے خاتمے کا اعلان کیا۔فلسطینیوں نے اگرچہ اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا۔مگر غزہ سے بے دخل کیے گئے یہودیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے پر متبادل جگہ دی گئی اور غزہ کی جغرافیائی و اقتصادی ناکہ بندی کر کے اسے ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔جب کہ ’’ فلسطینی دہشت گردی ‘‘ کی روک تھام کے نام پر مقبوضہ مغربی کنارے پر دو سو کلومیٹر طویل اونچی دیوار اٹھا کر پوری آبادی کی آمد و رفت معطل کر دی گئی اور نقل و حرکت کنٹرول میں رکھنے کے لیے فوجی چیک پوسٹوں کا جال بچھا دیا گیا۔
شیرون نے جس اپارتھائیڈ سسٹم کی بنیاد رکھی اسے بعد ازاں نیتن یاہو نے عروج پر پہنچا دیا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج ایریل شیرون گھیرے میں شیرون کو دیا گیا کے لیے کے سبب اس قتل
پڑھیں:
گورنر خیبر پختونخوا کا وزیرِ اعظم کو خط
— فائل فوٹوگورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو خط لکھا ہے، جس میں اسلام آباد ایئر پورٹ کا نام تبدیل کر کے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ رکھنے کی درخواست کی ہے۔
خط میں لکھا ہے کہ21 جون 2008ء کو وزیرِاعظم نے ایئر پورٹ کا نام بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ 17جولائی 2008ء کو سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے خیبرپختونخوا کے معاملے پر شکوہ کردیا۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ کا نام بے نظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ رکھنا محترمہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔
گورنر کے پی کے خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی قومی ہیروز کے نام پر ایئر پورٹس موجود ہیں، یہ اقدام شہید بے نظیر بھٹو کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ثابت ہو گا۔
خط میں گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ آپ مثبت ردِعمل دیں گے۔