یوکرین، روس جنگ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بن سکتی ہے، صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کو عالمی سطح پر سنگین صورتحال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس جنگ کو روکا نہ گیا تو یہ تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات اپنی فرانسیسی ہم منصب، صدر ایمینوئل میکرون کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔
ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین میں یورپی افواج کی موجودگی جنگ کے خاتمے کی ایک ضمانت کے طور پر دیکھنی چاہیے، اور دونوں ممالک کی جانب سے جنگ کو روکنے میں خاطر خواہ پیشرفت ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور فرانس دونوں اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، اور اس مقصد کے حصول میں ایک طویل سفر طے کیا جا چکا ہے۔
فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ یورپ اس بات کے لیے تیار ہے کہ وہ ایک قابل اعتماد پارٹنر بنے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ یوکرین میں امن قائم ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک ایک معاہدہ کرنے کے بہت قریب ہیں جس سے جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ امریکہ نے یوکرین پر 350 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور یورپ نے بھی اس جنگ میں اپنی مدد کے لیے 100 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم بہت بڑی ہے اور اس کا مقصد یوکرین میں امن قائم کرنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ جنگ کبھی نہ ہوتی اگر وہ صدر ہوتے اور کہا کہ وہ اس جنگ کو انسانیت کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ جنگ صرف یوکرین اور روس تک محدود نہیں رہے گی اور اس کا اثر پورے یورپ اور دنیا پر پڑے گا۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ جلد ہی یوکرینی صدر سے ملاقات کریں گے اور اس کے بعد روسی صدر سے بھی ملاقات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر نے یوکرین میں امن دستوں کی موجودگی کو تسلیم کر لیا ہے اور اس بات کے امکانات ہیں کہ روسی صدر یورپی امن دستوں کو قبول کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یوکرین میں انہوں نے کے لیے اور اس جنگ کو کہا کہ اس بات
پڑھیں:
خطے میں کشیدگی کے سبب سائبر حملوں کا خطرہ، ایڈوائزری جاری
اسلام آباد:خطے میں کشیدگی کے پیش نظر سائبر حملوں کا خطرہ بڑھ گیا، نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے ایڈوائزری جاری کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء میں کشیدگی کا فائدہ ہیکرز اٹھا سکتے ہیں، پاکستان میں سرکاری ادارے اور حساس انفراسٹرکچر سائبر حملوں کے بڑے ہدف ہو سکتے ہیں۔
ایڈوائزری کے مطابق پاکستان میں دفاعی، مالی اور میڈیا شعبے سائبر حملوں کا شکار ہو سکتے ہیں، سائبر حملوں کے لیے اسپیر فشنگ، مالوئیر اور ڈیپ فیکس جیسے طریقے استعمال ہونے کا خدشہ ہے، حملہ آور ہیکرز اداروں کی رازداری اور معلومات چوری کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔