جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ گزشتہ 8 فروری کو ملک میں الیکشن نہیں آکشن ہوا تھا جسے ہم تسلیم نہیں کرتے۔ ہم منصفانہ الیکشن کے حامی ہیں آکشن کے نہیں، اس لیے نئے الیکشن کا انعقاد ضروری ہے، موجودہ اسمبلیاں عوام کی منتخب اسمبلیاں نہیں بلکہ فارم 47 کی پیداوار ہیں جنھیں عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔
حافظ حمداللہ نے آٹھ فروری 2024 ہی کے الیکشن کو الیکشن نہیں آکشن قرار دیا ہے جب کہ حقیقت میں نئے پاکستان میں ہونے والے تمام الیکشن ہی متنازع اور دھاندلی زدہ قرار دیے جاتے ہیں اور صرف 1970 کے جنرل یحییٰ دور کے عام انتخابات کو ہی کسی حد تک منصفانہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ الیکشن کرانے والے جنرل یحییٰ صدر تھے اور ان کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی اور الیکشن کے بعد نہ وہ سیاسی پارٹی بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ الیکشن کرانے کا مقصد یہ تھا کہ ان میں کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور سب ان کے محتاج ہوں گے اور وہ اپنی شرائط پر معاملات طے کرکے کسی کو بے اختیار وزیر اعظم بنا دیتے اور خود بااختیار صدر مملکت بن جاتے اور نئی اسمبلی سے مرضی کا آئین بنواتے اور جنرل ایوب کی طرح طویل عرصے حکومت کرتے اور دباؤ آنے تک وردی میں بھی رہتے اور ملک میں مرضی کا صدارتی نظام قائم کر لیتے۔ جنرل یحییٰ کو عوامی لیگ یا پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی پارٹی کی جیت میں دلچسپی نہیں تھی۔
1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کے سربراہ نے مغربی پاکستان کا بھی انتخابی دورہ کیا تھا۔ سندھ کے دورے میں شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید بھی تھے اور نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان بھی ان کے قریب تھے اور انھوں نے 6نکات کا اپنا انتخابی منشور پیش کیا تھا جب کہ 1967 میں ایوب خان کے قریبی ساتھی رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نئی پیپلز پارٹی بنائی تھی جس کا منشور اسلامی سوشلزم تھا جس کے تحت انھوں نے قوم کو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا۔
اس وقت کسی مسلم لیگ کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور ممتاز دولتانہ کی پنجاب میں کونسل مسلم لیگ اور صوبہ سرحد میں خان عبدالقیوم کی اپنی اپنی مسلم لیگ تھیں اور اصل مقابلہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے درمیان متوقع تھا اور مغربی پاکستان چار صوبوں پر اور مشرقی پاکستان صرف ایک صوبے پر مشتمل تھا جہاں پانچ قومیتیں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان کے مقبول لیڈر تھے۔ الیکشن میں حیرت انگیز طور پر شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی تھی اور صرف دو نشستوں پر خود خیرالدین اور راجہ تری دیو رائے کامیاب ہوئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں واضح کامیابی حاصل کی تھی۔ 1970 کا الیکشن متحدہ پاکستان کا آخری الیکشن تھا جو منشور پر لڑا گیا، زیادہ ووٹ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے حاصل کیے تھے جو واقعی الیکشن تھے آکشن نہیں تھے۔
صوبہ سرحد اور بلوچستان میں جے یو آئی اور نیپ نے اکثریت حاصل کی تھی اور دونوں نے مل کر وہاں حکومتیں بنائی تھیں۔ سرحد میں مولانا مفتی محمود اور بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ 1970 کے انتخابی نتائج صدر جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو کے لیے غیر متوقع تھے کیونکہ وہ صدر اور وزیر اعظم بننا چاہتے تھے مگر دونوں اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہ کر سکے تھے اور ملک دولخت ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں جنرل یحییٰ کو ہٹا کر ذوالفقار علی بھٹوکو صدر، وزیر اعظم بلکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تک بنا دیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت اور باقی قومی رہنماؤں کو متفق کر کے قومی اسمبلی سے 1973 کا آئین منظور کرایا تھا اور پنجاب و سندھ میں پی پی کی حکومتیں قائم ہوئی تھیں اور ملک کی ممتاز شخصیات کی اہمیت تھی اور انھی کا ووٹ بینک تھا۔1973ء کے متفقہ آئین سے ملک میں پارلیمانی نظام قائم ہوا جس کے تحت وزیر اعظم کو ہی اپنی حکومت میں الیکشن کرانے کا اختیار تھا جس کے تحت انھوں نے اپنی مرضی کے الیکشن کرا کر چاروں صوبوں میں بھاری اکثریت حاصل کرکے 1977 میں جو حکومت بنائی تھی وہ اپوزیشن جماعتوں کے مضبوط اتحاد نے تسلیم نہیں کی تھی اور الیکشن کمیشن کے نتائج مسترد کرکے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا اور ملک میں نظام مصطفیٰ کی تحریک چلی تھی جس کے نتیجے میں مارشل لا لگا تھا۔
جنرل ضیا نے 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کرا کر نئی اسمبلی سے بعض ترامیم کرا کر اسمبلی یا حکومتی مدت پوری ہونے پر نگران حکومتوں کی شق شامل کرائی تھی جس کے بعد 1988 سے 2024 تک جتنے جماعتی انتخابات نگران حکومتوں میں ہوئے تمام ہی متنازع قرار پائے اور دھاندلی کے الزام میں حکومتیں بنتیں اور کرپشن کے الزام میں 1999 تک برطرف ہوتی رہیں۔ تمام متنازع حکومتوں میں کبھی جعلی، کبھی آرٹی ایس کبھی فارم 47 کی حکومت بنانے کے الزامات لگے اور 2024 کے الیکشن کو اب آکشن کہا گیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں 1988 سے مقابلہ ہوتا رہا اور دونوں پارٹیوں نے 11 برس میں چار بار باری باری حکومت کی اور نگران حکومتوں نے چار الیکشن کرائے وہ بھی متنازعہ قرار پائے تھے۔
ان 11 برس میں دونوں پارٹیوں کو منشور و نظریے پر نہیں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی شخصیات کا ووٹ بینک رہا مگر 2013 میں وہ آصف زرداری، نواز شریف اور بانی تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں تقسیم ہوا جس کے بعد تینوں پارٹیوں کے ان تینوں سربراہوں کا شخصی ووٹ بینک ہے اور تینوں پارٹیوں نے تین الیکشنوں میں کروڑوں روپے پارٹی فنڈز لے کر انتخابی ٹکٹ بانٹے جس سے تینوں پارٹیوں نے اربوں روپے کمائے، پی ٹی آئی پر الزام ہے کہ اس نے بھی انتخابی ٹکٹ پی پی اور (ن) لیگ کی طرح کروڑوں روپے فنڈ دینے والوں کو دیے جس نے زیادہ فنڈ دیا ووٹ خریدے کروڑوں روپے خرچ کیے وہی کامیاب ہوا تو منصفانہ الیکشن کہاں سے ہوتے۔ ان کے الیکشن آکشن ہی تھے جو زیادہ بولی دینے والوں نے خریدے۔ الزام لگتا آ رہا ہے کہ ووٹ خرید کر حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان پیپلز پارٹی اکثریت حاصل الیکشن کر عوامی لیگ جنرل یحیی کے الیکشن ووٹ بینک مسلم لیگ ملک میں حاصل کی اور ملک تھے اور تھی اور تھا جس کی تھی کے بعد
پڑھیں:
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین سیاسی محاذ پر ایک بار پھر متحرک
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین سیاسی محاذ پر ایک بار پھر متحرک WhatsAppFacebookTwitter 0 23 February, 2025 سب نیوز
پشاور(آئی پی ایس )تحریک انصاف پارلیمنٹرین ایک بار پھر متحرک ہوگئی، صوبائی صدر سید حبیب علی شاہ کی نگرانی میں تنظیم سازی کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔کمیٹی میں ضیا اللہ خان بنگش، نادیہ شیر خان، ملک واجد، ڈاکٹر آسیہ اسد، ملک شوکت اور صالح محمد شامل ہیں۔
پارٹی ممبران میں سے منصور درانی، ولسن وزیر، پیر قیصر عباس شاہ، ایڈووکیٹ احتشام، پیر عثمان، سردار شیر بہادر، عزت خان مومند، کلیم خان، نوید انجم، انور زمان خان اور دیگر شامل ہیں۔کمیٹی پارٹی کی تنظیم سازی سے لے کر پارٹی مکمل اسٹرکچرنگ 60 دن کے اندر مکمل کرے گی اور تمام تفصیلات جنرل سیکرٹری کے ساتھ شیئر کرے گی۔