Express News:
2025-02-24@23:23:53 GMT

موسمیاتی تبدیلی کی سنگین صورتحال

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

آئی ایم ایف کا تکنیکی مشن پاکستان کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی اضافی فنانسنگ کی درخواست پر بات چیت کا آغاز کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان کو مشورہ دے چکا ہے کہ وہ ہر سال جی ڈی پی کا ایک فیصد موسمیاتی لچک اور موافقت کی اصلاحات میں سرمایہ کاری کرے۔

بلاشبہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ روز بروز سنگین صورتِ حال اختیار کر رہا ہے، اس تبدیلی سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ اس مسئلے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ستمبر 2019اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔

پاکستان کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی صحت کو لاحق خطرات، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض کے پھیلاؤ میں اضافہ، خشک سالی، گلیشیرز کے پگھلاؤ، سطح سمندر میں اضافے، موسموں کے دورانیے میں تغیر اور شدت، سیلاب اور گرمی و سردی کی لہروں میں اضافے جیسے نمایاں اثرات ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں جہاں ناپائیدار ترقی، سماجی تفریق اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی میں اضافے کا موجب ہوسکتی ہیں وہاں ان کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کا نقصان، بے ہنگم نقل مکانی، بھوک و افلاس اور بیماریوں سے اموات میں اضافے جیسے مسائل بھی دیکھے گئے ہیں۔

پیرس معاہدہ جس میں عالمی حدت میں اضافے کی حد 1.

5 ڈگری سیلسئس رکھی گئی تھی، اس سطح سے زیادہ درجہ حرارت شدید موسم، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور انسانوں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔عالمی بینک کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 4.9 فیصد کی بلند شرح نمو اور 2047 تک درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ پانی کی طلب میں 60 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ درجہ حرارت کا بڑھنا پانی کے 15 فیصد اضافی استعمال کی وجہ بنے گا جب کہ آیندہ 3 دہائیوں میں غیر زرعی طلب کو پورا کرنے کے لیے آبپاشی کے 10 فیصد پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مختلف قسم کی فیکٹریاں اور اینٹیں بنانے والے بھٹے بھی ماحول کو گرم رکھنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ پودوں کی اہمیت کے بارے میں لوگوں میں شعور کی کمی اور جنگلات کی مسلسل کٹائی ماحولیاتی تبدیلی میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے۔ پودے اور درخت جو انسان کو آکسیجن فراہم کرنے کا ایک بنیادی ذریعہ ہیں، انسان بے دردی سے اُن کو کاٹ کر زمین کو اپنے لیے خطرناک بنا رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے یہ عوامل انسانی زندگی پر بہت خطرناک اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ گرمی کی شدت میں ناقابلِ برداشت اضافہ اسی موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔

اتنی جان لیوا گرمی کے سبب پہاڑوں پر جمی برف اور گلیشئر تیزی سے پگھل کر دریاؤں میں شامل ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف پہاڑی اور برفباری والے علاقوں کی خوبصورتی ماند پڑ رہی ہے تو دوسری طرف بارشوں کے موسم کی بے ترتیبی اور دریاؤں میں پانی کے زیادہ بہاؤ کی وجہ سے سیلاب لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں لوگ دربدر ہو جاتے ہیں۔ اپنی جائیداد، جانوروں اور گھروں سے محروم ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ سیلاب کی شدت سے اپنے پیاروں کی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس کے علاوہ برفباری والے علاقوں میں رہنے والے جانوروں کی نسلیں بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے ملکوں کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، لوگوں کا روزگار ختم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غربت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ملکی معیشت کمزور سے کمزور ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دھواں چھوڑتی گاڑیاں، فیکٹریاں اور بھٹے موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ بیماریاں پھیلانے کا بھی سبب بن رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اسموگ کا راج بڑھ جاتا ہے۔ لوگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان تمام حقائق سے ہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک نتائج کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

 اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق زراعت کا شعبہ پاکستان کی جی ڈی پی میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالتا ہے جب کہ 37 فی صد افراد کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں زراعت موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار شعبہ ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

پنجاب میں موسم سرما کی خشک سالی کے فصلوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں، جب کہ صوبے میں بارشوں میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔ کم بارشوں کا کسانوں پر بڑا مالی اثر پڑا ہے، چاہے وہ چھوٹے کسان ہوں یا بڑے۔ چھوٹے کسان پہلے ہی ہمت ہار چکے ہیں اور دیگر جگہوں پر ملازمت کی تلاش میں ہیں، اس خشک موسم کا ان پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق سندھ میں معمول سے 52 فیصد اور بلوچستان میں 45 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں، اگر جلد بارش نہیں ہوئی، تو پیداوار میں 50 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔

 پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی الگ سے وزارت بھی قائم ہے مگر حالیہ پیرس کانفرنس میں پاکستان کا کردار حوصلہ افزا نہ تھا، دیگر اقوام نے جس فورم پہ اپنے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تفصیلی منصوبہ جات پیش کیے پاکستانی وفد عالمی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے میں ناکام رہا، دوسری جانب سولر پاور پروجیکٹ اور اس جیسے دیگر ماحول دوست توانائی کے منصوبوں کے لیے اور وسیع پیمانے پر شجرکاری کے لیے خطیر رقم درکار ہے۔

عالمی فورم پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کو بار بار تنبیہ کر رہے ہیں کہ اپنے اندرونی مافیاز کو ختم کریں، خاص کر جو جنگلات کی کٹائی کر رہے ہیں، ہماری صوبوں کی حکومتیں جنگلات کی کٹائی روکنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں نئے جنگلات نہیں اُگائے گئے جو کہ نہایت ضروری ہیں کہ اُگائے جائیں۔

 موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب، اثرات اور ان سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر مربوط کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر اب تک ہونے والا کام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومتی سطح پر ماحولیات دوست اقدامات میں ماحولیاتی قوانین پر عمل کرانا، صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا اور نئے جنگلات اگانا، شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ کا بہتر نظام بنانا، فضلہ جات ٹھکانے لگانے والی جگہوں کا مناسب انتخاب کرنا، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا، نئے شہروں کو بسانا اور اس حوالے سے عوامی سطح پر احساس ذمے داری جگانا اور تربیتی پروگرامز منعقد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے ایک وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی قائم کی گئی جو اپنی نوعیت کی ایک منفرد وزارت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں موجودہ حکومت کی ترجیحات میں اہم مقام رکھتی ہیں اور اس حوالے سے گرین انرجی، الیکٹرانک وہیکلز، گرین ہاؤس اور زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی، بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی جیسے کئی منصوبوں پر کام بھی کیا گیا ہے۔ یہ حکومتی منصوبے یقیناً بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

اِن نتائج کو مد ِنظر رکھتے ہوئے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ عوام کو چاہیے کہ اپنے اِردگرد زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگائیں۔گاڑیوں کا استعمال مہذب طریقے سے کریں۔ حکومت کو دھواں چھوڑتی گاڑیوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ عوام کو کم سفر کے لیے ذاتی گاڑیاں کم سے کم استعمال کرتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ کو یا پھر پیدل چلنے کو ترجیح دینی چاہیے جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوتا ہے۔ فیکٹریوں کے مالکان کو بھی اپنے زہریلے کیمیکل کو فضا میں چھوڑنے کے بجائے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ فیکٹریوں کو آبادی سے دور شفٹ کرنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح بھٹہ مالکان کو بھی اپنے بھٹے جدید طریقوں سے نصب کرنے چاہئیں تاکہ غریب عوام اُن کے ذاتی مفاد کی زد میں نہ آئیں۔

 لہٰذا حکومت ِوقت کو بھی اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کرنا ہو گی۔ عوام میں اس مسئلے کا شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ محکمہ ماحولیات کو بھی پوری توانائی اور ایمانداری سے اس مسئلے کے تدارک میں اپنی ذمے داری نبھا نا ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نسلیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں کر رہے ہیں ہو جاتا ہے میں اضافے کی وجہ سے اس مسئلے سے زیادہ کے لیے ا اور اس کو بھی رہی ہے رہا ہے

پڑھیں:

کراچی میں پانی کا بحران سنگین شکل اختیارکرگیا

کراچی:

کراچی میں پانی کا بحران سنگین شکل اختیارکرگیا، شہر کو 3دن میں 75 کروڑ گیلن پانی فراہم نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہے، سات میں سے 4 ہائیڈرنٹس سے بھی پانی کی فراہمی بند ہے جس کی وجہ شہری پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔

تفصیلات کے مطابق واٹرکارپوریشن کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں لائنوں میں آنے والے رساؤ کے مرمتی کام کی وجہ سے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر ہفتے کی صبح سے شٹ ڈاؤن کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی بند ہوگئی ہے۔ 

 صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے میئر کراچی یرسٹر مرتضیٰ وہاب نے شہر کا دورہ کرکے پانی کی لائنوں کے مرمتی کام کا معائنہ کیا اور جاری کام کا جائزہ لیا، دورے کے دوران ایم ڈی واٹر کارپوریشن انجینئر اسداللہ خان سمیت دیگر اعلیٰ حکام ان کے ہمراہ تھے۔

اس موقع پر انہوں نے مرمتی کام مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی ہدایت کی اور مرمتی کام ہنگامی بنیادوں پر کرنے کے احکامات جاری کیے،  میئر کراچی کا کہنا تھا کہ شہر میں پانی کی بلا تعطل فراہمی کے لیے لائنوں کا کام کیا جارہا ہے جبکہ رساؤ ختم ہونے سے لیاری صدر اولڈ سٹی ایریا ،  کلفٹن،  چنیسر ٹاؤن، جناح ٹاؤن،  ناظم آباد،  نارتھ ناظم آباد اور ضلع وسطی میں سمیت شہر بھر میں پانی کی فراہمی میں مزید بہتری آئے گی۔ 

انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک سے قبل تمام رساؤ کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں کیونکہ رساؤ کا کام کرنے کا مقصد ماہ رمضان کے دوران شہر میں پانی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا ہے،ان کا مزید کہنا تھا کہ شہریوں کو فراہمی و نکاسی آب کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے اور اس ضمن میں بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔ 

دوسری جانب اطلاعات کے مطابق کراچی میں 3 دن میں شہر کو 75 کروڑ گیلن پانی فراہم نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے شہر کے بڑے حصے کو پانی کی فراہمی بند ہے،  شہری پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں، 7 میں سے 4 سرکاری ہائیڈرنٹس سے بھی پانی کی فراہمی بند ہے۔ 

 کراچی میں لائنوں کی مرمتی کام کی وجہ سے لانڈھی ، کورنگی ، ملیر، شاہ فیصل کالونی ، گلشن اقبال ، پی آئی بی کالونی ،اولڈ سٹی ایریا ، ڈیفنس ، کلفٹن ، لیاقت آباد، ناظم آباد، گلہبار سمیت متعدد علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے۔ 

 

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف کے تکنیکی وفد کا موسمیاتی تبدیلیوں کیلیے ترقیاتی منصوبوں کو جیو ٹیگ کرنے کا مطالبہ
  • کراچی میں پانی کا بحران سنگین شکل اختیارکرگیا
  • آئی ایم ایف کا 4 رکنی وفد مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔
  • چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کو مسلسل 2 شکست: پوائنٹس ٹیبل کی کیا صورتحال ہے؟
  • حکومتی کاوشیں رنگ لے آئیں، ٹیکس نظام میں اہم تبدیلی
  • ارباب نیاز سٹیڈیم کے نام کی تبدیلی انتہائی نامناسب حرکت ہے، گورنر خیبرپختونخوا
  • پاکستان میں ایک اور مغربی سسٹم کل داخل ہوگا، کن شہروں میں بارش کے امکانات؟
  • بھارت اور پاکستان کا وجود خطرے میں؟ براعظم آسٹریلیا ایشیا سے ٹکرانے والا ہے، ماہرین ارضیات نے خبردار کردیا
  • بھارت کیخلاف آج پاکستان ٹیم کن کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے؟