دبئی میں رہائشیوں کے لیے ویزا امیگریشن کا عمل مزید آسان بنا دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
متحدہ عرب امارات نے دبئی میں رہائشیوں کے لیے ویزا فراہمی کی سہولت کو مزید آسان بنادیا ہے، چند منٹوں میں یو اے ای کے ویزے کی تجدید کی جاسکے گی۔
متحدہ عرب امارات کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ریزیڈنسی اینڈ فارنرز افیئرز مصنوعی ذہانت سے چلنے والا آن لائن پلیٹ فارم ’سلامہ‘ لانچ کیا ہے، اس سہولت کا اعلان جی ڈی آر ایف اے کے ہیڈکوارٹر الجفیلیہ میں منعقدہ چوتھے سالانہ میڈیا کونسل کے دوران کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: یو اے ای: ورک پرمٹ اور رہائشی ویزا پروسیسنگ کا عمل اب پہلے سے بھی تیز
دبئی امیگریشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد احمد المری نے اس منصوبے کو دبئی کی ڈیجیٹل تبدیلی کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
’’سلامہ‘ کے ذریعے رہائشی اپنے اور اہل خانہ کے ویزوں کی منٹوں میں تجدید کرواسکتے ہیں۔ صارفین ’سلامہ‘ پر لاگ اِن کر کے تجدید کی مدت کا انتخاب کرتے ہوئے فیس ادا کرنے کے ساتھ ہی اپڈیٹ شدہ دستاویزات ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی کے لیے اسٹوڈنٹ ویزے کے شیڈول کا اعلان، ترجیح کسے ملے گی؟
یہ پلیٹ فارم صارفین کو مزید سہولت فراہم کرتا ہے کہ ویزا کی مدت ختم ہونے کی تاریخ سے پہلے ان کو نوٹیفیکشن بھیج کر آگاہ کیا جائے گا کہ ان کے ویزے کی مدت ختم ہونے والی ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل برائے ڈیجیٹل سروسز دبئی امیگریشن کرنل خالد الفلاسی کے مطابق’سلامہ‘ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فوری اور درست جوابات فراہم کرتا ہے، جس سے حکومتی سروس کو مزید بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اے آئی تجدید جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ریزیڈنسی اینڈ فارنرز افیئرز دبئی ڈیجیٹل تبدیلی مصنوعی ذہانت ویزے یو اے ای.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی مصنوعی ذہانت ویزے یو اے ای کے لیے
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل دماغ، ایک نئے دور کا آغاز
انسانی تاریخ کے ایک منفرد اور بے مثال دور میں ہم داخل ہو چکے ہیں، جہاں مصنوعی ذہانت کی ترقی نے دنیا کو بدل کر رکھنے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ ترقی نہ صرف ہمارے فہم اور اندازوں سے بالاتر ہے، بلکہ ہمارے روزمرہ کے نظام کو بھی نئی شکل دے رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے ذریعے انسانی عمر میں اضافہ کر کے اسے ’’عمرِ نوح‘‘کی سطح، یعنی ہزار سال تک لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا تصور محض ایک مشین کی محدود فعالیت تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب یہ ایک ’’ڈیجیٹل دماغ‘‘یا عقلِ فراست کے طور پر ابھر رہا ہے، جو عام انسانی ذہن سے کہیں آگے بڑھ کر فیصلہ سازی، مسائل کے حل اور انتظامی امور کی نگرانی کر سکتا ہے۔ ڈیجیٹل دماغ، جو الگورتھم کی بنیاد اور طاقتور کمپیوٹنگ پر مبنی ہے، اب انسانی ذہن کے کئی پہلوئوں میں برتری حاصل کر چکا ہے۔ یہ مشین محض انسان کے تیار کردہ اصولوں پر نہیں چلتی، بلکہ ان اصولوں کو مزید ترقی دے کر نئے امکانات پیدا کر رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں، ٹریفک جام، یا قدرتی آفات جیسے حالات میں، ڈیجیٹل دماغ ایک منظم نظام کے تحت حالات کا جائزہ لیتا ہے اور بہتر فیصلے کرتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ حکومتی نظام کو خودکار بنا کر تمام اقدامات کا اعلان کر سکے گا۔ مصنوعی ذہانت مستقبل میں مذہبی معاملات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ساجد، کلیساں، اور دیگر عبادت گاہوں میں مبلغ، خطیب اور مفتی کی جگہ ایک ڈیجیٹل دماغ لے سکتا ہے جو احادیث اور مستند دینی روایات کی بنیاد پر فتوے اور خطبے دے سکتا ہے۔ اسے ہر زبان پر دسترس ہوگی۔ مصنوعی ذہانت نے سماج کے مختلف شعبوں میں قابل ذکر کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے اور آنے والے وقتوں میں یہ کردار مزید اہمیت اختیار کرے گا۔یہ اداروں اور تنظیموں کو بہتر نظم و نسق کے ذریعے چلا سکے گا۔ڈیجیٹل ذہن جنگوں، زلزلوں اور دیگر آفات کے دوران رہنمائی فراہم کرے گا اور متاثرہ افراد تک وسائل پہنچائے گا۔ ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کرنا، حادثات کو روکنا، اور شہریوں کو بروقت رہنمائی فراہم کر سکے گا۔حتیٰ کہ تعلیمی نظام میں امتحانات کا بروقت شیڈول، موسم یا دیگر عوامل کی پیش بندی کر سکے گا۔ یہ بات ہمارے علماء کو فتویٰ دینے سے پہلے اور عام المسلمین کو معلوم ہونی چاہیے کہ مصنوعی ذہانت کی بنیاد رکھنے والے اصول مسلم دانشوروں نے صدیوں پہلے فراہم کئے تھے۔
محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے الجبرا اور الگورتھم متعارف کروایا جو آج کے کمپیوٹر سائنس کی بنیاد ہے۔ الکندی اور دیگر مسلم سائنسدانوں نے سائنس، ریاضی، اور فلسفے کے میدان میں اہم خدمات انجام دیں، جن پر آج کی ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں مصنوعی ذہانت کے فوائد بے شمار ہیں وہیں اس کے ساتھ کئی چیلنجز بھی درپیش ہوں گے۔ کیا ڈیجیٹل دماغ انسانی جذبات، اخلاقیات، اور روحانی ضروریات کو مکمل طور پر سمجھ سکے گا؟ کیا ہم مصنوعی ذہانت کو مکمل اختیار دے کر انسانی معاشرت کی اہمیت کو کمزور کر رہے ہیں؟کیا ہماری عمریں ہزار سال تک اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھ سکیں گی؟ عین ممکن ہے کہ انسانی عمریں دوبارہ دورِ نبی نوح علیہ السلام کے مطابق ہو جائیں۔ مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل دماغ ایک نئی دنیا کا آغاز ہیں، جہاں انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس ترقی کو انسانیت کی فلاح کے لئے استعمال کرنے کے لئے اپنے علمی ورثے کو یاد رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹیکنالوجی انسانی اقدار، جذبات، اور روحانی پہلوئوں کو متاثر نہ کرے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں سائنسی عقل کی روشنی میں اپنے دماغ کو قرآنی فرمانِ علم و فکر اور فہم و تدبر سے زرخیز کر کے انسانی بہتری کی طرف لے جانا ہوگا۔
اسلامی تعلیمات نے ہمیں علم کے حصول کی نہ صرف تاکید کی ہے، بلکہ اسے فرض قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ حصولِ علم کے لئے چین تک کا سفر کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ علمِ نافع کے حصول کی تاکید کی گئی ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مدینہ سے علم کا آغاز ہوا، اور غیر مسلم قیدیوں کو رسول اللہ ﷺ نے اس شرط پر رہا کیا کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ علم کو اہمیت دی گئی اور اسی طرح اموی دورِ خلافت میں عظیم فتوحات کے ساتھ اندلس تک عظیم علمی مراکز قائم ہوئے۔ دنیا کی پہلی یونیورسٹی مدین فاس میں قائم ہوئی، اور عباسی دور میں عظیم علمی مرکز ’’بیت الحکمت‘‘قائم ہوا۔ بدقسمتی سے، خلافتِ عثمانیہ کے جنگ عظیم اول میں خاتمے کے بعد، صہیونی طاقتوں، برطانیہ، اور فرانس نے مسلمان ممالک کو تقسیم کر کے انہیں زیرِ تسلط کر لیا۔
آج ضرورت ہے ایک قومی و ملی وحدتِ فکر کی، جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مصنوعی ذہانت پر قائم ڈیجیٹل انقلاب کا مثبت استعمال کر سکے۔ یہ مصنوعی ڈیجیٹل نظام روحانی انقلاب، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے آئے گا، پر ختم ہوگا۔ اس روحانی انقلاب کا آغاز حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور سے ہوگا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر مکمل ہو کر پوری دنیا پر محیط ہوگا۔ یہ دور امن، محبت، مادیت سے پاک، اور خوشحالی سے بھرپور ہوگا۔ ان شا اللہ۔