2018ء کے بعد پہلی بار بھارت انٹرنیٹ بند کرنے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر رہا، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
بھارت میں بنیادی طور پر تنازعہ، احتجاج، فرقہ وارانہ تشدد، امتحان میں نقل روکنے اور انتخابات کیوجہ سے انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا، یہاں فرقہ وارانہ تشدد کیوجہ سے 23 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ 2018ء کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بھارت انٹرنیٹ بند کرنے کے معاملے میں سرفہرست نہیں رہا۔ ڈیجیٹل رائٹس گروپ "ایکسیس ناؤ" کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 2024ء میں میانمار میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ بند ہوا ہے۔ میانمار میں 85 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا جب کہ بھارت میں 84 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ پوری دنیا میں آئے دن انٹرنیٹ بند کرنے کے معاملے میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 2023ء میں جہاں 39 ممالک میں 283 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا وہیں 2024ء میں 54 ممالک نے 296 بار انٹرنیٹ بند کرنے کا حکم دیا۔ 2024ء میں انٹرنیٹ بند کرنے کے معاملے میں ہندوستان دوسرے مقام پر، جب کہ میانمار پہلے مقام پر ہے۔ بھارت میں بنیادی طور پر تنازعہ، احتجاج، فرقہ وارانہ تشدد، امتحان میں نقل روکنے اور انتخابات کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا۔ ملک میں احتجاجوں کی وجہ سے 41 بار اور فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے 23 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا۔ سب سے زیادہ منی پور میں 21 بار، جموں و کشمیر اور ہریانہ میں 12-12 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا۔ منی پور میں طویل عرصے سے جاری تشدد کی وجہ سے کئی بار انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کی ہدایات جاری ہوئیں۔
میانمار اور بھارت کے علاوہ اس فہرست میں پاکستان، روس، یوکرین، فلسطین اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان میں 21، روس میں 13، یوکرین میں 7، فلسطین میں 6 اور بنگلہ دیش میں 5 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال 8 فروری کو عام انتخاب کے روز پورے ملک میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے جب کسی ملک نے کسی دوسرے ملک کی وجہ سے اپنے یہاں انٹرنیٹ بند کر دیا ہو۔ مثال کے طور پر روس کی وجہ سے یوکرین میں 7 بار انٹرنیٹ بند ہوا۔ اسی طرح جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو فلسطین میں انٹرنیٹ بند کیا گیا۔ جب کہ چین اور تھائی لینڈ نے میانمار میں فون اور انٹرنیٹ خدمات بند کر دی تھیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انٹرنیٹ بند کرنے کے معاملے میں بار انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے ہوا ہے
پڑھیں:
اُدت نرائن مشکل میں پڑگئے، پہلی بیوی نے گلوکار کیخلاف مقدمہ درج کروا دیا
خاتون مداح کو بوسہ دینے کی وائرل ویڈیو کی وجہ سے تنازع کا شکار ہونے والے گلوکار اُدت نرائن ایک مرتبہ پھر مشکل میں پڑگئے ہیں۔
گلوکار کیخلاف اس مرتبہ ان کی پہلی بیوی رنجنا جھا نے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی ہے انہوں نے گلوکار پر ان کے حقوق کی خلاف ورزی اور ان کی جائیداد کے غلط استعمال کا الزام لگایا ہے۔
گلوکار حال ہی میں فیملی کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں انہوں نے تصفیہ کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق رنجنا جھا کے قانونی نمائندے، اجے کمار نے انکشاف کیا کہ وہ اپنی بڑھتی عمر اور صحت کے خدشات کی وجہ سے ادت نارائن کے ساتھ دوبارہ ملنا چاہتی ہیں۔
تاہم عدالت کی طرف سے دونوں میں مصالحت کی کوششوں کے باوجود گلوکار اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہنے پرانکاری ہیں۔ 1984 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے اس جوڑے میں 1988 میں اُدت نرائن کو ملنے والی شہرت کے بعد دوریاں آگئیں تھیں اور شہرت میں اضافے کے بعد گلوکار نے مبینہ طور پر خود کو اہلیہ سے دور کر لیا تھا۔
2006 میں شوہر کے ساتھ تنازعات بڑھنے کے بعد رنجنا نے خواتین کمیشن سے رجوع کیا تھا جہاں اُدت نرائن نے مبینہ طور پر اہلیہ کو ایک فلیٹ سمیت مالی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد میں وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔
اس ہی وجہ سے ان کی اہلیہ کی جانب سے فیملی کورٹ میں بحالی کا نیا مقدمہ دائر کیا گیا۔ اپنے تحریری دفاع میں اُدت نرائن نے رنجنا جھا پر رقم بٹورنے کی کوشش کرنے اور عدالت کو غلط معلومات فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔
گلوکار کا کہنا ہے کہ بہار ویمن کمیشن میں 2013 میں آپس میں طے ہونے والے معاہدے کے مطابق وہ انہیں ماہانہ 15,000 روپے کی ادائیگی کر رہے تھے جو بعد میں 2021 میں بڑھا کر 25,000 روپے کردیا گیا تھا۔ مزید برآں گلوکارہ نے رنجنا جھا کو 1 کروڑ روپے کا مکان 5 لاکھ روپے کی زرعی زمین اور زیورات دینے کا دعویٰ کیا ہے۔
ان دعووں کے باوجود رنجنا جگا نے جواب میں الزام عائد کیا ہے کہ گلوکار نے نیپال میں زمین کی فروخت سے 18 لاکھ روپے روکے اور اپنی بیوی کے طور پر اس کی جائز حیثیت سے انکار کرتا رہا۔ جب رنجنا نے ممبئی میں گلوکار سے ملنے کی کوشش کی تو انہوں نے اہلیہ پر ہراساں کرنے کا الزام بھی لگایا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے وکیل S.K. جھا نے قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) اور بہار انسانی حقوق کمیشن (بی ایچ آر سی) میں دو درخواستیں دائر کرکے معاملے کو بڑھا دیا ہے۔ جھا نے روشنی ڈالی کہ ہندوستانی آئین اور ہندو میرج ایکٹ کے تحت، پچھلی شادی کو قانونی طور پر تحلیل کیے بغیر دوبارہ شادی کرنا غیر قانونی ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ ادت نرائن کے اقدامات خواتین کے حقوق کو مجروح کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔