امریکا سے بھارت جانے والی پرواز میں بم؛ فوجی طیارے جہاز کو اپنی حفاظت میں روم لے گئے
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
نیویارک سے نئی دہلی کے لیے پرواز بھرنے والے طیارے میں بم کی اطلاع پر طیارے کو روم میں اتار لیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طیارے میں عملے سمیت 199 مسافر سوار تھے جو بم کی اطلاع کے باعث طیارے کی کسی دوسرے مقام پر ہنگامی لینڈنگ سے خوف زدہ ہوگئے۔
بم کی اطلاع پر اطالوی فوج کے 2 جنگی طیاروں نے فضا میں مسافر طیارے کو گھیرے میں لیا اور روم کے فیومیچینو ہوائی اڈے تک پہنچانے میں مدد کی۔
امریکی ایئرلائنز کی فلائٹ AA292 نے نیو یارک کے جان ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے مقامی وقت کے مطابق 8:11 PM پر پرواز بھری تھی۔
جس وقت بم کی اطلاع ملی مسافر بردار طیارہ کیسپین سی کے اوپر پرواز کررہا تھا جسے روم کی طرف رخ موڑنے کی ہدایت کی گئی۔
امریکی ایئرلائنز نے "ممکنہ سکیورٹی خدشات" کی نوعیت کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں فراہم کیں۔
اٹلی کی نیوز ایجنسی نے بتایا کہ روم میں ہنگامی لینڈنگ کے لیے طیارے کو رخ تبدیل کرنے کی ہدایت بم دھماکے سے اڑانے کی دھمکی کے باعث کی گئی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بم کی اطلاع
پڑھیں:
ٹرمپ کا دل کون جیتے گا: پاکستان یا بھارت ؟
ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار امریکی صدارت کا منتخب تاج پہن کر امریکا سمیت ساری دُنیا میں تھر تھلی مچا رہے ہیں۔ٹرمپ نے آتے ہی صاف صاف کہہ دیا تھا کہ جو اُن کے اور امریکی مفادات میں نہیں ہے ، وہ فرد ہو، گروہ ہو، ادارہ ہو یا کوئی حکومت یا حکمران ، اُس کے وہ دوست نہیں ہیں ۔
انھوں نے سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان، کی تعریف کرتے ہُوئے انھیں اچھا دوست قرار دیا ہے کہ سعودی کراؤن پرنس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بننے کی مبارکباد دیتے ہی وعدہ کیا کہ وہ امریکا میں600ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے ۔ ٹرمپ کو اِس پر شکر گزار ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے برسرِ مجلس کہا ہے :’’ سعودی عرب کو امریکا میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی چاہیے ۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ سعودی عرب کو تیل کے نرخ بھی نیچے لانے چاہئیں تاکہ رُوس کو یوکرائن میں جنگ بند کرنے پر مجبور کیا جا سکے ۔
یہ ہیںاصل ٹرمپ صاحب!موصوف بین السطور بات کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ امریکا میں مقیم لاکھوں غیر قانونی ،غیر ملکی افراد کوٹرمپ نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ انھوںنے غزہ غصب کرنے کی بات بھی کی ہے، اپنے ہمسائے کینیڈا کو بھی دھمکایا ہے اور میکسیکو کو بھی ۔ چین پر بھی نیا دباؤ ڈالا ہے اور بہت دُور واقع ڈنمارک کو بھی، یہ کہہ کر کہ تمہارا ’’ویران‘‘ جزیرہ(گرین لینڈ) امریکا لینا چاہتا ہے۔
برطانوی اخبار (فنانشل ٹائمز) نے خبر دی ہے کہ صدر ٹرمپ اور ڈنمارک کی وزیر اعظم (Mette Frederiksen) کے درمیان، فون پر، گرین لینڈ کے مسئلے پر خاصی گرما گرمی ہُوئی ہے ۔ایسے میں ہمارے ہاں سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے ہمدرد ہوں گے یا بھارت کے ساتھی اور ساجھی؟ ٹرمپ نے اپنی کابینہ اور انتظامیہ میں جس طرح بے تحاشہ بھارتی نژاد ہندو امریکیوں کو شامل کیا ہے ، اِس سے بھی صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ بھارت کو کیا مقام دے رہے ہیں ۔ پھر پاکستان کیا کرے ؟
غیر موافق اور ناموزوں حالات کے باوصف پاکستان ٹرمپ صاحب اور اُن کی انتظامیہ سے مایوس نہیں ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف ٹرمپ کو صدر بننے کی مبارکباد بھجوا چکے ہیں ۔ ٹرمپ کے صدارتی حلف اُٹھاتے ہی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، شفقت علی خان، کی جانب سے کہا گیا:’’ پاکستان کے لیے امریکا سے (بہتر) تعلقات بہت اہم ہیں۔یہ دہائیوں پرانی اور مضبوط میراث پر مبنی ہیں۔ ہم اِنہی تعلقات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نئی امریکی انتظامیہ سے منسلک رہنے کے منتظر ہیں۔
اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اصول برقرار رکھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ اِنہی اصولوں پر ریاستی تعلقات کی تشکیل ہوتی ہے ۔‘‘ ڈپلومیسی کی زبان میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ ٹرمپ انتظامیہ کو جو محتاط پیغام دے سکتی تھی، دے دیا ہے ۔ پاکستان کے کرتا دھرتا بخوبی جانتے ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں واشنگٹن میں پاکستان کی کیا اور کتنی حیثیت ہے ، لیکن ریاستیں تمام تر نازک حالات کے باوجود عالمی طاقتوروں سے اپنے تعلقات منقطع ہونے یا خراب کرنے کا رسک نہیں لے سکتیں ۔ پاکستان بھی اِسی اصول پر گامزن ہے ۔
پاکستان کے دانشور حلقوں میں مگر کہیں نہ کہیں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ کے آنے پر بھارت کے مقابل امریکا، پاکستان سے کیسے تعلقات رکھے گا؟ اِسی سوچ اور تشویش پر مبنی گزشتہ روز اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک (CISS) میں گول میز کانفرنس منعقد ہُوئی ہے ۔ اِس کا موضوع یہ تھا Trump 2.0: Implications For Pakistan اِس کانفرنس میں پاکستان کے کئی سابق سفارتکاروں نے حصہ لیا ۔ مثال کے طور پر جلیل عباس جیلانی جو ہمارے سابق وزیر خارجہ رہے ہیں ۔اشرف جہانگیر قاضی جو چین، امریکا اور بھارت میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں ۔
مسعود خالد جو چین میں پاکستان کی سفارتکاری کے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔مذکورہ تمام سابق اور بزرگ سفارتکاروں نے مشترکہ طور پر تشویش کا اظہار کرتے ہُوئے کہا: ’’ صدر ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات محدود رہیں گے ۔ ‘‘ یہ بھی کہا گیا:’’ بھارت اور امریکا کے بڑھتے تعاون اور امریکا و چین کے درمیان بڑھتی ہُوئی عداوت کے تناظر میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں متوقع گرمجوشی کا عنصر مفقود ہی رہے گا۔‘‘ پاکستان کے مذکورہ تجربہ کارسابق سفارتکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’واشنگٹن ، اسلام آباد کی تزویراتی اہمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان کو بنیادی طور پر بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات کی عینک سے دیکھتا ہے ۔‘‘
بھارت سے پاکستان کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔ جب سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی بھارتی آئین سے ختم کر دی ہے، تب سے یہ تعلقات مزید نچلی ترین سطح پر آ چکے ہیں ۔ سفارتکاری بھی بند ہے اور تجارت بھی ۔ اِس عمل کو 5 سال گزر چکے ہیں۔ اب ٹرمپ انتظامیہ کا جھکاؤ اگر واضح طور پر نئی دہلی کی جانب چلا جاتا ہے تو پاکستان کو نئے سرے سے اپنی حرکیات کا جائزہ لینا پڑے گا۔
بھارتی وزیرخارجہ، ڈاکٹر جئے شنکر، نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی واشنگٹن جا کر بھارتی سفارتخانے میں اخبار نویسوں سے جو گفتگو کی ہے، اس میں تو موصوف نے غیر مبہم الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ’’بھارت کا ابھی پاکستان سے تجارت کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے، اس لیے کہ یہ پاکستان ہے جس نے خود پاک بھارت تجارتی تعلقات منقطع کیے تھے ۔‘‘ یہ بھارتی تیور ہیں ۔ اور اِن تیوروں کے عقب میں ہم امریکی تیوروں کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تیور پاکستان کے مفاد میں تو ہر گز نہیں ہیں ۔
اوریہ بھارت ہے جس کے وزیر خارجہ، جئے شنکر، نے ٹرمپ کے صدارتی حلف اُٹھاتے ہی نئے امریکی وزیر خارجہ ( مارکو روبیو) سے فوراً اور پاکستان سے پہلے ملاقات کر لی ہے ۔ اِسی سے ہم امریکی اور بھارتی قربتوں اور ترجیحات کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ ملاقات کے بعد مارکو روبیو اور جئے شنکر نے واشنگٹن میں مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی ۔ اِس کانفرنس میں شریک جملہ اخبار نویسوں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ جئے شنکر کی موجودگی میں مارکو روبیو اپنی گفتگو میں ایسے اشارے بار بار دیتے رہے جن کا معنی اور مقصد یہ لیا گیا کہ امریکا ایشیا بحرالکاہل (Asia Passific) میں بھارتی کردار کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے ۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جب مارکو روبیو سینیٹر تھے ، تب بھی انھوں نے بھارت کو امریکا کا اہم اتحادی بنانے کے لیے قانون سازی کی زبردست حمائت کی تھی ۔ روبیو کے بھارت کی جانب اِس جھکاؤ سے پاکستان بجا طور پر تشویش میں مبتلا ہے ۔ شاید اِسی لیے واشنگٹن میں ایک معروف تھنک ٹینک (Wilson Center) سے وابستہ جنوبی ایشیا امور کے ماہر(Michael Kugelman) کا کہنا ہے :’’ ٹرمپ کا وہائیٹ ہاؤس ممکنہ طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کم ترجیح دے گا۔ اِس سے اسلام آباد پر دباؤ بڑھ سکتا ہے ۔‘‘ ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ ( اسحاق ڈار) کو بھجوایا جاتا ، مگر ڈار صاحب بوجوہ اِس تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔اور اب14فروری2025کو واشنگٹن میں ٹرمپ اور نریندر مودی کی مبینہ بھرپور ملاقات ہو گئی ہے ۔
دونوں کی ملاقات کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف جو الزام لگایا گیا ہے ، پاکستان نے اِسے مسترد کر دیا ہے ۔ مودی کو ٹرمپ سے ملاقات میں کئی کامیابیاں بھی ملی ہیں اور کئی ناکامیاں بھی ۔تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکا سے نہائت جدید اسلحہ خریدنے کی ڈِیل میں بھارت کامیاب ہو گیا ہے ۔ یہ بھی ساتھ ہی مگر کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کو امریکی اسلحہ خریدنے پر مجبور کیا ہے ۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی ٹرمپ کا دل جیتنے کی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔